آئی اے رحمن کی رحلت

تحریر: انورساجدی
حال ہی میں پاکستانی میڈیا میں دو اہم اموات ہوئیں روزنامہ خبریں کے بانی ضیا شاہد طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے میڈیا نے ان کے انتقال کی خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی البتہ اے پی این ایس اور سی پی این ای نے تعزیتی اشتہارات جاری کئے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو ان کے انتقال کی خبر ملی دوسری شخصیت آئی اے رحمن (ابن عبدالرحمن) کی رحلت کی تھی جسے نہ صرف پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا نے نمایاں کوریج دی بلکہ عالمی پریس نے بھی ان کی خبر کو کافی اہمیت دی دراصل آئی اے رحمن اور ضیا شاہد صاحب دو الگ کیمپوں کے نمائندے تھے ایک میڈیا گروپ قائم کرنے کے باوجود انہوں نے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب نہیں کئے اس کے برعکس آئی اے رحمن ایک مدبر دانشور ٹریڈ یونین لیڈر اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے ایک محنت کش ہونے کے باوجود انہوں نے اعلیٰ انسانی اقتدار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اس کے باوجود کہ وہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے وابستہ رہے لیکن انہوں نے مسلسل ظلم خرانسانی حقوق کی ماپالی اور آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی۔
میری ان سے پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی اس وقت پی ایف یو جے جماعت اسلامی کے روزنامہ جسارت کی بندش کے خلاف تحریک چلارہی تھی اس زمانے میں لاہور پریس کلب مال روڈ پر ایک پرانی عمارت میں قائم تھا اگرچہ بڑے لیڈر منہاج برنا اور نثار عثمانی تھے لیکن آئی اے رحمن کو بہت زیادہ احترام ملتا تھا وہ دھیمے لہجے میں بولتے تھے لیکن لکھتے پرزور طریقے سے تھے بلاشبہ وہ اپنے دور کے تمام صحافیوں سے زیادہ پڑھے لکھے تھے کتابوں کا ذخیرہ بہت تھا قیام پاکستان کے بعد وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے تاہم برسوں بعد جب یہ پارٹی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر اپنی حیثیت کھو بیٹھی تو آئی اے رحمن کنارہ کش ہوگئے تاہم انہوں نے اپنے مارکسی نظریات کبھی نہیں چھوڑے اگر وہ چاہتے تواپنا الگ میڈیا گروپ قائم کرسکتے تھے لیکن انہوں نے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ملامتی صوفی تھے بہت سادگی سے رہتے تھے تکلف اور تضع سے دور تھے وہ خود نمائی سے بھی پرہیز کرتے تھے 70 سال بیت گئے کسی کو پتہ نہیں چلا کہ ان کی ذات کیا تھی نسلی نسبت کیا تھی ایک ترقی پسند انسان کی حیثیت سے وہ ان فروعی معاملات سے دور تھے۔
برسوں پہلے وہ ایک مرتبہ کوئٹہ آئے تو میر صویت خان مدنی نے کہا کہ آپ کوئٹہ میں ہمارے مہمان ہیں تو مرحوم نے کہا کہ بالکل نہیں یہ میرا بھی آبائی وطن ہے تب پتہ چلا کہ وہ ایک بلوچ ہیں بتایا جاتا ہے کہ 1930 کو جیکب آباد میں جو پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس ہوئی تھی اس میں ان کے بڑے بھائی آفتاب بلوچ نے شرکت کی تھی۔
ایک دفعہ میں ان کے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھا اینکر نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک بلوچستان کے مسئلہ کا کیا حل ہے تو آئی اے رحمن صاحب نے بہت ہی خیال آفریں بات کہی۔
اس ملک میں جو رتبہ اہل پنجاب کو حاصل ہے اگر وہ رتبہ بلوچوں کو بھی دیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
لیکن کسی نے ان کی اس بات پر توجہ نہیں دی کیونکہ بڑا بھائی یہ رتبہ کسی اور کو دینے پر آمادہ نہیں ہے اور اپنا رتبہ بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے آئی اے رحمن سے آخری ملاقات دو سال پہلے کراچی پریس کلب کے ایک پروگرام میں ہوئی تھی آزادی اظہار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انور ساجدی نے موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کو آگاہ کیا ہے جبکہ میں وہ بتاؤں گا جو آئندہ کچھ عرصہ میں ہونے والا ہے اپنے خطاب میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ عمران خان کی حکومت موجودہ ڈیجیٹل دور میں بھی میڈیا کو پابندیوں میں جکڑنا چاہتی ہے میڈیا کو قابو کرنے کیلئے کئی آمرانہ قوانین کا نفاذ زیر غور ہے انہوں نے کہا کہ صحافی اور پاکستانی عوام اپنی پابندیوں کو قبول نہیں کریں گے اور ماضی سے زیادہ جدوجہد کریں گے اس خطاب کے وقت آئی اے رحمن کی عمر تقریباً 90 سال تھی لیکن ان کے حوصلے جواں تھے عزم راسخ تھا۔
تقریب کے مہمان خاص پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تھے میں نے بھی ان سے درخواست کی کہ وہ پیپلز پارٹی کو موجودہ ابہام سے نکالیں اپنے کسانوں محنت کشوں اور کچلے ہوئے طبقات کی نمائندہ جماعت بنائیں اس سلسلے میں ایک نئے میثاق کی ضرورت ہے جو پیپلز پارٹی اور عوام کے درمیان ہونا چاہئے تقریب کے بعد آئی اے رحمن نے کہا کہ لگتا ہے کہ ہماری باتیں رائیگاں گئیں بلاول اس وقت اشرافیہ کے سخت ترین شکنجے میں ہے وہ اسے باہر نکلنے نہیں دیتی انہیں ملال تھا کہ پیپلز پارٹی نے دائمی مزاحمت کا کردار ترک کرکے کچلے ہوئے طبقات کو تنہا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے رحقی عناصر سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں حتیٰ کہ اپوزیشن بھی ضیاؤالحق کے تربیت یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے۔
زندگی کے آخری چند سال انہوں نے ہیومن رائٹس کیلئے وقف کردیئے اگر کمیشن کی رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کس طرح ریاستی نظام کو اجاگر کیا اور کن نامساعد حالات میں کام جاری رکھا وہ ریاستی اور غیر ریاستی ایکٹرز کے خلاف تھے اور انہیں ملال تھا کہ اس ملک میں غریبوں خواتین بچوں اور آزاد ی اظہار پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے اگر صحافیوں سے کوئی جرم سرزد ہوتا تھا تو رپورٹ درج ہوتی تھی باقاعدہ گرفتاری ہوتی تھی اور عدالت میں پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بندہ غائب ہوجاتا ہے اگر لواحقین ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں اگرچہ ایک ترقی پسند انسان کی حیثیت سے وہ ہمیشہ پر امید رہتے تھے لیکن انہیں قلق تھا کہ اس خطے کے حالات دگردوں ہوگئے ہیں ہر طرف دہشت گردی اور جنگی ماحول ہے۔
آئی اے رحمن کی باتوں سے قطع نظر جنرل ایوب خان نے ملک کی جو سمت تبدیل کردی وہ ابھی تک سیدھی نہ ہوسکی یہ غیر ریاستی ایکٹرز انہی کی ایجاد ہیں ایک طرف ایوب خاب نے سندھ طاس کا معاہدہ کرکے دریا انڈیا کے حوالے کردیئے دوسری جانب وہ جنگ کے ذریعے انڈیا کو شکست دے کر اپنی بالادستی کا خواب دیکھ رہے تھے فضائی فوج کے سابق سربراہ ایئر مارشل احمدخان نے لکھا ہے کہ ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کے تحت مجاہدین کے دستے کشمیر بھیجے تھے جس کی وجہ سے 1965ء کی جنگ چھڑ گئی تھی اس جنگ نے پاکستان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس سے قبل جب ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو از خود فیلڈ مارشل بن گئے حالانکہ ان کا کوئی جنگی کارنامہ ہی نہیں تھا۔
ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان نے بنگالیوں کی شورش پر قابو پانے کے لئے الشمس اور البدر نامی تنظیمیں بنائیں۔ بنگالیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تنظیمیں انسانی جرائم کا مرتکب ہوئی تھیں۔
بھٹو نے برسراقتدار آکر افغانستان کے معاملات میں مداخلت شروع کردی۔ گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود ان کی ایجاد تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے تو کمال کردیا۔ انہوں نے لاکھوں مجاہدین بنائے اور اپنے ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا کر چھوڑا۔ ضیاء الحق کے مجاہدین چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں او ران سے جان چھڑانا مشکل ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے مقتدرہ اور امریکہ کے مشورے پر طالبان تشکیل دیئے، طالبان نے دنیا پر کیا اثرات ڈالے اس تفصیل سے کون واقف نہیں ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ریاست نے بے شمار گروپ بنائے، طالبان کے علاوہ انتہا پسند مذہبی تنظیمیں حافظ سعید لکھوی، مولانا مسعود اظہر جھنگوی اور لدھیانوی کو کسی نہ کسی طرح سرپرستی حاصل تھی۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد بریلوی مکتبہ فکر لیڈر شپ سے محروم تھی۔ علامہ خادم رضوی نے آکر یہ خلاء پر کردیا۔ وہ ایک آتش فشاں جیسے مقرر تھے، معلومات بھی کافی تھیں۔ انداز متشدانہ تھا، سارا مکتبہ فکر ان کے گرد جمع ہوگیا۔ انہوں نے فیض آباد کا مشہور دھرنا دیا تھا اور کئی روز تک وفاقی دارالحکومت کی ناکہ بندی کی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔ مولانا کے مریدین درسی کی زاد راہ لے کر کامیابی کے ساتھ گھروں کو لوٹے تھے۔ انہوں نے فرانس کے مسئلہ پر ایک اور دھرنا دیا تھا جسے ختم کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائیگا۔ 6ماہ تک حکومت سوتی رہی، اچانک چار دن قبل تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کو گرفتار کرلیا گیا۔ تین دن تک ملک جام کرکے حکومت نے گرفتاری کری اسے پتہ نہیں تھا کہ حالات کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا جس کے نتیجے میں جانی ومالی نقصان ہوا۔
تحریک لبیک ایک اور طرح کا سیاسی و مذہبی عنصر ہے۔ 2018 کے انتخابات میں اس نے لیاری کوارٹرز سمیت ملک کے کئی حصوں میں کامیابی حاصل کرلی۔ ہر ضمنی الیکشن میں اسے ہزاروں ووٹ پڑتے ہیں اس کی حمایت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے کیسے کنٹرول کرکے بوتل میں ڈالا جائے۔
پنجاب میں اس کے احتجاج کے دوران ہولناک مناظر دیکھنے کو ملے، جہاں پولیس کو مار پڑی تو وہاں سرکاری اہلکار بھی نعرہ زن دکھائی دیئے۔ یہ صورتحال آئندہ خوفناک ہوسکتی ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ گفت و شنید کے ذریعے ایسے نازک معاملات کا حل نکالے ورنہ صورتحال قابو سے باہر ہوسکتی ہے اور پورا ملک لاقانونیت اور افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔پابندی کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں