پس دیوار

تحریر: انورساجدی
ادارے اور طاقتور شخصیات غصے میں ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک قیمتی اثاثہ تحریک لبیک کو تحلیل کردیا اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں کافی سال پہلے سپاہ صحابہ پرپابندی عائد کردی گئی تھی جس کے بعد یہ تنظیم لشکر جھنگوی کے نام سے کام کرنے لگی زیادہ عرصہ نہیں گزرا لشکر طیبیہ پرپابندی عائد کردی گئی تھی حالانکہ طویل عرصہ تک قبلہ حافظ محمد سعید صاحب چہیتے تھے کسی زمانے میں صوفی محمد بھی پسندیدہ شخصیت تھے اور ان کے داماد فضل اللہ کے نازنخرے بھی اٹھائے جاتے تھے لیکن سوات پر قبضہ اور اسے ایک الگ ریاست قراردینے کے بعد ان کیخلاف آپریشن کیا گیا جنوبی وزیرستان میں کمانڈر نیک محمد کے ساتھ بھی ایک حلفیہ معاہدہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد نیک محمد مارے گئے تھے اس کی ذمہ داری امریکی ڈرون پر ڈالی گئی تھی پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ اگرہم نے مسلح جھتوں کے بارے میں عالمی طاقتوں کی رائے نہ مانی تو پاکستان کوشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جب یہ خبر میڈیا تک پہنچی تو اسے ملک کی سلامتی کیخلاف ایک اقدام تصور کیا گیا اور اس معاملہ کو ڈان لیکس کا نام دیا گیا ایک تحقیقاتی کمیشن بنا جس کی وجہ سے وزیراعظم کے خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی مشیر اطلاعات پرویز رشید اورپرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو فارغ کردیا گیا شواہد موجود ہیں کہ ایک طرف بڑے بڑے مسلح جھتے بنائے گئے تو دوسری جانب علاقائی پاکٹس میں چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی بنائی گئیں جنہیں مخالفین نے ڈیتھ اسکواڈ کا نام دیا ریاست نے طالبان تشکیل دے کر تو کمال کردیا انہی کے ذریعے افغانستان کو اسلامی امارت بنایا گیا اور پورے ملک پر طالبان کے قبضے کی راہ ہموار کی گئی یہ بھی دیکھنے میں آیا تحریک طالبان کو خلاف قانون قرار دیا گیا دیکھا جائے تو یہ عجیب گورکھ دھندہ ہے جو نہ جانے کب ختم ہوگا اب جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے 11ستمبر سے افغانستان سے امریکی وینٹو افواج کے انخلا کا اعلان کیا ہے تو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ افغانستان کامستقبل کیا ہوگا اگر کسی بندوبست کے تحت اقتدار منتقل نہ ہوا تو یہ بات یقینی ہے کہ طالبان جنگ کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں ایک بھیانک خانہ جنگی کا آغاز ہوگا بڑے پیمانے پرقتل وغارتگری ہوگی اور خدشہ ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پشتونخوا بلوچستان اور کراچی میں داخل ہوگی ان مہاجرین کی وجہ سے جو ڈیموگرافک تبدیلی1980ء کی دہائی میں آئی تھی ابھی تو اس کے اثرات موجود ہے ایک اور عفریت دوبارہ دوصوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔امریکی صدر نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ وہ پاکستان سے کہیں گے کہ وہ افغانستان میں قیام امن میں مدد دیں آیا اس حکم کے بعد پاکستان طالبان کی حمایت سے دست کش ہوجائے گا یا وہ اپنے تذدیراتی مفاد کی خاطر طالبان کو سپورٹ کرے گا طالبان آنے کا ایک فائدہ ریاست کویہ ضرور ہوگا کہ افغانستان میں انڈیا کا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا اور وہاں پر مقیم بلوچ پناہ گزینوں کیلئے زمین تنگ ہوجائے گی اگرچہ اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ ایک منتخب صدر ہیں اس لئے طالبان افغان حکومت سے گفت وشنید کا راستہ اختیار کریں لیکن ضدی طالبان ایسا نہیں کریں گے عالمی اداروں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ 1980ء کی دہائی کی طرح کابل دوبارہ تاراج نہ ہوجائے اس وقت کابل کاشمار ایشیاء کے عظیم شہروں میں ہوتا ہے اسے ازسرنوتعمیر کیا گیا ہے اگر اس تاریخی ورثہ کو نقصان پہنا تو یہ ناقابل تلافی نقصان ہوگا امریکہ پاکستان اور عالمی برادری اس بات کویقینی بنائیں کہ مسلح لشکر لڑائی کے دوران کابل شہر کو نشانہ نہیں بنائیں گے امریکی افواج کا انخلا پاکستان کیلئے بھی نئی آزمائش ہے کیونکہ افغان بدامنی سے پاکستان ہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان کے حقیقی لیڈر جنرل قمرباجوہ نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ہم نے سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک رکھنا ہے پالیسی میں یہ تبدیلی اس تناظر میں دیکھنے میں آئی جب ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت یو اے ای نے پاکستان اور بھارت کے درمیان خفیہ مذاکرات کااہتمام کیا تھا جس کے نتیجے میں سرحدی تناؤ کم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا زیادہ امکان یہی ہے کہ امارات نے امریکہ کی ہدایت پر ایسا کیا تھا دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم ہونے پرعالمی برادری نے اطمینان کااظہار کیاتھا۔
چونکہ داخلی کشیدگی کی وجہ سے معیشت کمزور ہے اس لئے عالمی برادری میں پاکستان کا سابقہ وزن برقرارنہیں رہا اس لئے ریاست کی خارجہ پالیسی ناکام نظرآتی ہے یہی وجہ ہے کہ سابق آقا برطانیہ نے پاکستان کو ان 21ممالک میں شمار کیا ہے جن پر پابندی عائد کردی گئی ہے حالانکہ ایک ملین سے زائد پاکستانی برطانوی شہری ہیں برطانیہ نے الزم عائد کیا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی سرمایہ کاری دراصل ٹیرر فنانسک اور منی لانڈری کا نتیجہ ہے برطانیہ گھر کا بھیدی ہے کیونکہ چند سو پاکستانیوں نے برطانیہ میں اربوں پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور برطانوی حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس سرمایہ کاری کامنی ٹریل کیا ہے۔
لندن شہر کے انتہائی پوش علاقوں میں نوازشریف جنرل پرویز مشرف فیصل واؤڈا ملک ریاض،جہانگیر ترین سمیت سینکڑوں افراد کے عالیشان فلیٹ موجود ہیں جو مشکوک سرمایہ سے خریدے گئے ہیں پہلے برطانیہ کو مال حرام کھانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن دوسال قبل انہوں نے ٹیررفنانسک کے بارے میں مختلف قوانین بنائے تھے جس کے بعد سرمایہ کاری پرکڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بڑے بلند دعوئے کئے تھے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے لیکن وہ اس لئے نہیں لاسکے کہ انکے اپنے ساتھی بھی اس میں ملوث تھے صرف علیم خان کے لندن میں 10قیمتی جائیدادیں ہیں جبکہ جہانگیر ترین تو ایک محل خریدا ہے جس کی مالیت اس وقت 8کروڑ پاؤنڈ ہے وزیراعظم کے اردگرد جو لوگ ہیں وہ بدترین بے قاعدگیوں میں ملوث ہیں۔اسکے باوجود ان کی ساری کارروائیاں شریف فیملی اور زرداری تک محدود ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت انتقام سے کام لے رہی ہے۔
مثال کے طور پر رائے ونڈ میں شریف فیملی کی زمینوں اور محلات پر ہاتھ ڈال دیا گیا ہے اگرچہ حکومت کا موقف کسی حد تک درست ہے لیکن موجودہ موقع مناسب نہیں تھا اس دوران حکومت لاکھ وضاحت کرے لوگ اسے انتقامی کارروائی ہی سمجھیں گے۔
حکومت کا موقف ہے کہ رائے ونڈ کی1580ء کنال میں سے840سرکاری زمین ہے جو غیرقانونی طور پر پہلے وحیدہ بیگم نامی خاتون اور بعدازاں نوازشریف کی والدہ کے نام پرمنتقل کی گئی ہے اس زمین کاانتقال1989،1992 اور 1994ء کوعمل میں آئی جب نوازشریف برسراقتدار تھے دوسری جانب شریف فیملی کا کہنا ہے کہ حکومت نے محکمہ مال کا ریکارڈ تبدیل کیاہے۔اصل حقیقت کا تو بعد میں پتہ چلے گا یا عدالتوں کے ذریعے اس کا فیصلہ ہوگا لیکن یہ وقت اس کارروائی کیلئے مناسب نہیں تھا ن لیگ نے الزام لگایا ہے کہ مشیراحتساب شہزاداکبر نے انکے گھروں کا انتقال اس لئے منسوخ کیا ہے تاکہ انہیں مسمار کیاجاسکے اگرچہ شہزاد اکبر نے اسکی تردید کی ہے لیکن راتوں رات درجنوں کنٹینر وہاں پہنچادیئے گئے جس سے معاملہ مشکوک ہوگیا ہے غالباً پنجاب حکومت کاپروگرام تھا کہ کنٹینرلگاکر راستے بند کئے جائیں اور پھر بھاری مشینری پہنچاکر محلات کو گرایاجائے تاکہ ایک طرف شریف خاندان کو سبق ملے تو دوسری طرف خوف ودہشت پہلے ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان گھروں کو گرانے کی روایت قائم کرکے بنی گالا میں اپنے محل کو مسمار کروانے کی بنیاد رکھ رہے ہیں کیونکہ عمران خان کا محل جس پہاڑی پرواقع ہے وہ شاملات کی زمین ہے اور شاملات کاانتقال غلط ہوتا ہے۔اسکے علاوہ عمران خان نے گھربناتے وقت اس کی منظوری بھی نہیں لی تھی بلکہ گزشتہ سال جرمانہ ااد کرکے اپنے اثرورسوخ کے ذریعے سی ڈی اے سے اس کا پلان منظورکروایا تھا اگرکل ن لیگ دوبارہ برسراقتدار آگئی تو وہ پہلا کام عمران خان کے گھر کیخلاف کارروائی سے شروع کرے گی اگرحکومت نے رائے ونڈ کے محلات گرائے تو ن لیگ کے کارکن بنی گالا عمران خان کے گھر کا گھیراؤ کریں گے جس سے ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
ن لیگ کیخلاف سخت کارروائیوں اور تحریک لبیک کو کالعدم قراردینے سے لگتا ہے کہ گلے شکوے کے بعد پھٹا ہوا پیج دوبارہ جڑ گیا ہے جس کے بعد سیاسی محاذ دوبارہ گرم ہونے کا امکان ہے آئندہ کچھ عرصہ میں مولانا کے اثاثوں کو لیکر ان پر بھی ہاتھ ڈالنے کاپروگرام ہے گویا اس حکومت کو چین راس نہیں آتا وہ اپنی کمزوریوں کو سیاسی مخالفین کیخلاف ہلے گلے کے ذریعے چھپانا چاہتی ہے اور یہ کام وہ کامیابی سے کررہی ہے کیونکہ اس کا سوشل میڈیا نیٹ ورک مضبوط ہے ہاں حکومت نے سوشل میڈیا پربندش کے پروگرام کو حتمی شکل دیدی ہے جمعہ کو چارگھنٹے تک اسے بند کرکے ریہرسل کی گئی اس ضمن میں قوانین تیار ہیں مکمل پابندی تو ممکن نہیں ہے البتہ اسے کافی حد تک ریگولیٹ کیاجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں