جعلی اشرافیہ کی جعلی لڑائی

تحریر: انورساجدی
پنجاب کی جو جعلی اور نوساختہ اشرافیہ جنرل ضیاؤ الحق نے تشکیل دی تھی اس کے درمیان دولت اور اقدار کی جنگ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جنرل صاحب نے اپنی ندگی میں پنجاب شریف خاندان کے حوالے کردیا تھا کوئی30سال بعد 2018 میں ”ٹرائیکا“ نے مل کر شریف خاندان کو بے دخل کردیا اور اس کی جگہ عمران خان کو لے آئے ضیاؤ الحق کے مارشل سے لیکر اب تک شریف خاندان نے پنجاب کے طول وعرض میں اپنی جڑیں گہری کی تھیں چونکہ اشرافیہ کی سربراہی مقتدرہ کرتی ہے اس لئے اس نے 3دہائیوں کے بعد مہر نے تبدیل کئے جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں چوہدری برادران کو ایک موقع دیا تھا اس کے بعد میاں نواز شریف مرکز میں اور شہبازشریف پنجاب میں برسراقتدار آئے شریف خاندان نے اسٹیٹس کو برقراررکھا ساری بیوروکریسی ان کی بھرتی کردہ تھی تمام سیاسی جماعتوں کو بے دخل کرکے ن لیگ کو مین اسٹریم جماعت بنایا گیا ایک گہری حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جوسیاسی ڈاکٹرائن بنائی اس کے تحت ہندوستان نے آنے والے مشرقی پنجاب کے مہاجرین کا غلبہ قائم کردیا جنرل مشرف نے اس غلبہ کو مزید مضبوط کردیا چونکہ مشرقی پنجاب سے آنے والے لوگ مقامی پنجابیوں میں گل مل گئے اس لئے ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہوا جو سندھ میں ہوا یہ جو عمران خان میں یہ بھی نصف مہاجر اور نصف مقامی ہیں ان کا ننھیال امرتسر ہے جہاں عمران خان کی پیدائش ہوئی۔میانوالی سے انہوں نے کافی عرصہ بعد تعلق قائم کیا قیام پاکستان کے بعد راولپنڈی سے لیکر ڈیرہ غازی خان تک ہندوؤں کی تمام جائیدادیں اور زرعی زمین مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کردی گئی جس کی وجہ سے سرائیکی علاقے میں بہت بڑی ڈیموگرافک تبدیلی آئی چونکہ وسطی پنجاب میں سرکار کی کوئی زمین نہیں تھی اس لئے ساہیوال سے لیکر آخر تک زمینیں مہاجرین کو کلیم میں دی گئی قیمتی جائیدادیں ابھی انہی کے نام کردی گئیں کیا اوکاڑہ کیا خانیوال کیا وہاڑی،ملتان،بہاولپور،بہاول نگر اور ڈیرہ غازی خان مہاجرین بڑے زمیندار اورصاحب ثروت بن گئے کلیم قبول کرنے کا قانون پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بنایا تھا جس کے تحت مہاجرین جو بھی کلیم داخل کریں اسے تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ سرکار کے بقول انکے پاس دستاویزات نہیں تھیں جو امکانی طور پر ہجرت کے دوران ضائع ہوگئی تھیں 1970ء کے انتخابات میں ملتان سے مولانا حامد علی خان کامیاب ہوئے تھے جوہریانہ سے ہجرت کرکے آئے تھے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ملتان کے روایتی خاندان گیلانی قریشی گردیزی اور خاکوانی کی طاقت مہاجرین کے آگے نیست ونابود ہوگئی تھی تاہم بعد میں سیاسی چالوں اورحلقہ بندیوں کے ذریعے شاہ محمود قریشی اور گیلانی کی کامیابی کا بندوبست کیا گیا سرائیکی علاقہ کے کئی شہروں میں مہاجرین کی اکثریت ہے خاص طور پر بہاولپور جہاں اتنے آرائیں دوڑہیں کہ اعجاز الحق ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں جنرل ضیاؤ الحق جو عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار تھے ذات برادری پر اتنا یقین رکھتے تھے کہ انجمن آرائیں پاکستان کے مستقل پیٹرن تھے۔
ویسے تو پنجاب کے سارے جاگیرداروں نے انگریزوں کاساتھ دیا تھا لیکن سرائیکی بیلٹ کے نامور خاندان سب سے آگے تھے انگریزوں نے یہاں پر ایک نئی اشرافیہ تخلیق کی آج کے سارے جاگیردار پیر اور گدی نشین اسی انگریزی عمل کانتیجہ ہیں جب سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو یہ راجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ تھے جب انگریز آئے تو اس کے ہوگئے قیام پاکستان تک یہ لوگ انگریز اور برسراقتدار طبقہ کے ساتھ تھے پہلی تبدیلی1970ء میں اس وقت آئی جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی قائم کرکے انتخابات میں حصہ لیا پیپلزپارٹی کے امیدواورں نے جاگیرداروں،پیروں اور گدی نشینوں کی ضمانتیں ضبط کرلیں یہ پہلا موقع تھا کہ پنجاب کاوزیراعلیٰ ایک کتاب فروش حنیف رامے اور گوالا ملک معراج خالد کو بنایا گیا لیکن یہ تبدیلی پنجاب ایلیٹ کے سرپرستوں کو پسند نہیں آئی اس لئے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر نشان عبرت بنایا گیا جنرل ضیاؤ الحق جو کہ بنیادی طور پر ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد پنجاب ایلیٹ کے سربراہ بن گئے انہوں نے محنت کشوں،کسانوں اور عام آدمی پر کوڑے برساکر انہیں سیاسی سے باز رکھا انہوں نے پنجاب میں ایک نئی کلاس تخلیق کرلی جس کا سربراہ میاں محمد شریف کو بنایا گیا1980ء کی دہائی میں ضیاؤ الحق نے میاں شریف کے بڑے صاحبزادہ نوازشریف کو جنرل جیلانی کی کابینہ میں جگہ دی1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف کووزارت اعلیٰ کا منصب تحفے میں دیا گیا جنرل ضیاؤ الحق نے ایک نیاکاروباری طبقہ پیدا کیا پنجاب کواپریٹو اور بینکوں کے ذریعے انہیں بھاری قرضے اور مراعات دیں دیکھتے ہی دیکھتے وسطی پنجاب میں ایک طاقتور طبقہ ابھرا پرانے کاروباری طبقات معدوم ہوگئے نوازشریف نے نئے طبقہ کی قیادت سنبھال لی حکومت بھی ان کی تھی وسائل پر قبضہ بھی انہی کا تھا پہلی مرتبہ سرکاری وسائل کو ذاتی تصرف میں لایاجانے لگا میاں شریف اور ان کے بھائی شروع میں پرانے لاہور کے ایک پانچ مرلہ کے مکان میں رہتے تھے لیکن جلد انہوں نے لاہور کی جدید بستی ماڈل ٹاؤن میں ایک لائن میں پانچ بڑے بنگلے کھڑے کردیئے اتفاق فاؤنڈری جس کی بنیاد نواب کالاباغ کے تعاون سے رکھی گئی بھٹو کے ہاتھ ضبط ہونے کے بعد دوبارہ میاں شریف کو مل گئی ضیاؤ الحق نے اس فاؤنڈری کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حتیٰ کہ پنجاب کی حکمرانی بھی دیدی 1985ء کے بعدنوازشریف نے مڑکر پیچھے نہیں دیکھا ان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا حتیٰ کہ ماڈل ٹاؤن کے2ہزار گز کے بنگلے ڈربے معلوم ہونے لگے انہوں نے دوسری بار وزیراعلیٰ بننے کے بعد رائے ونڈ کا رخ کیا جہاں انہوں نے 10سال کے دوران1580 کینال زمین حاصل کرلی اس اراضی پر کئی مکانات تعمیر کئے گئے جبکہ زرعی اراضی پر بڑے بڑے باغات اور فصلیں اگائی گئیں۔
نوازشریف کی طاقت جب زیادہ بڑھی تو انہوں نے بلاشرکت غیرسے حکومت کرنے کی کوشش کی اس سلسلے میں ان کا پہلا جھگڑا صدر غلام اسحاق خان سے ہوا حالانکہ دونوں ضیاؤ الحق کے چہیتے تھے اس لڑائی کی وجہ سے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کومداخلت کرنی پڑی دونوں یعنی صدر اور وزیراعظم استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے 1999ء میں ایک بارپھر نوازشریف اور جنرل مشرف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے نتیجے میں 1999ء کامارشل لا آیا جنرل مشرف نے نوازشریف سے معافی نامہ لکھواکر سعودی عرب جلاوطن کردیا پھر ہوا یوں کہ بینظیر اور مشرف کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہوا جس کے تحت بینظیر کو واپس آنے کی اجازت مل گئی انہوں نے یہ عجیب شرط پیش کی کہ نوازشریف کو بھی واپس آنے دیا جائے انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ اگر2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی پہلے اور ن لیگ دوسرے نمبر پر نہ آئی تو اسے دھاندلی سمجھاجائیگا بینظیر واپس آنے کے بعد طاقتور عناصر کے ہاتھوں قتل ہوگئی اس لئے پنجاب دوبارہ نوازشریف کے ہاتھ لگ گیا 2013ء میں مقتدرہ نے زرداری سے تنگ آکر نوازشریف کو لانے کا فیصلہ کیا لیکن ایک سال بعد اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف اور نوازشریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے نوازشریف کو نیچا دکھانے کیلئے عمران خان کو آگے لانے کا فیصلہ ہوا انہوں نے2014ء میں دھرنا دا اور نوازشریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا لیکن یہ دھرنا سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا تاہم 2017ء میں نوازشریف کو پانامہ لیکس کے ذریعے بے عزت کرکے اقتدار سے سیدھا جیل بھیجا گیا ساری نام نہاد پنجاب اشرافیہ عمران خان کے ساتھ ہوگئی اور وہ اقتدار میں آگئے لیکن اقتدار میں آنے کے ایک سال ہی دوران مقتدرہ نے جانچ لیا کہ ان کا تجربہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہے لیکن پھر بھی اسے برقرار رکھاگیا یہ حکومت سرائیکی بیلٹ کے دائمی لوٹوں کی وجہ سے قائم ہوئی عمران خان نے تحریری معاہدہ کے ذریعے وعدہ کیا کہ وہ صوبہ جنوبی پنجاب بنائیں گے۔لیکن اور وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہوسکا جب عمران خان کی حکومت بننے جارہی تھی تو لودھراں سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ترین نے اس میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن جلد عمران خان اور ان کے تعلقات خراب ہوگئے اصل وجہ تو معلوم نہیں لیکن گماں یہی ہے کہ اس میں مالی منتعت کا بھی دخل تھا شوگراسکینڈل کو لیکر عمران خان نے جہانگیرترین کی حیثیت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کیا جس پرترین صاحب نے سرائیکی کارڈ کا استعمال شروع کردیا حالانکہ دونوں شخصیات کاسیاسی قبلہ ایک ہی ہے یعنی پنجاب کی اشرافیہ کے درمیان اقتدار لوٹ مار اور زیادہ طاقت کا حصول ایک نیامسئلہ بن گیا ہے ایک طرف نوازشریف اپنی طاقت برقراررکھنے دوسری طرف عمران خان اقتدار پر قابض رہنے اور تیسری جانب جہانگیر ترین بلیک میلنگ کے ذریعے عمران خان کو گرانے کی تگ ودو کررہے ہیں اس تماشہ پر مقتدرہ کو اچھا خاصا اطمینان ہے اور وہ مزے لیکر اس تماشہ سے لطف اندوز ہورہی ہے اگرضیاؤ الحق نہ ہوتے تو نوازشریف کی سیاسی طاقت اور بے تحاشہ دولت کہاں سے آتی اگر ضیاؤ الحق نہ ہوتے تو جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی بھی کسی یونین یا ضلع کونسل کے کونسلر ہی رہتے۔
عجیب بات ہے کہ مقتدرہ 74سال بعد بھی ریاست کو ایڈہاک ازم پرچلارہی ہے اسے فکر نہیں کہ مستقبل کیا ہوگا وہ بھی گماشتہ اور نوساختہ جعلی اشرافیہ کے سرپر ہاتھ رکھ رہی ہے عوام دونوں کے ہاتھوں زندہ درگور ہیں نہ انصاف نہ روزگار ہے ہرشعبہ زوال اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
ایک بے طرح اوربلاضرورت کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا کوئی مقصد نہیں اشرافیہ کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہی ہے بلکہ اب تو کتوں کی طرح آپس میں لڑرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں