بدترین بلیک آؤٹ

تحریر: انور ساجدی
اتوارکی رات کولاہور کے چوک یتیم خانہ میں جو کچھ ہوا میڈیا نے اس کا مکمل بلیک آؤٹ کیا اس سے قطع نظر کہ ٹی ایل پی کا موقف یا طرز عمل صحیح ہے یا غلط لیکن اتنی سخت سنسر شپ ضیاؤ الحق کے مارشل لاء کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی پیمرا کے احکامات کے تحت نصف شب تک ٹی وی چینل ٹی ایل پی کے ہیڈکوارٹر میں ہونیوالے آپریشن کی صورتحال کے بارے میں خاموش تھے خبررساں ایجنسیوں نے بھی کوئی خبرجاری نہیں کی رفتہ رفتہ شیخ رشید اور فوادچوہدری کے بیانات جاری ہونے لگے کہ حکومت مسلح جھتوں سے کوئی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی حالانکہ حکومت کافی وقت پہلے تحریری معاہدہ کرچکی تھی مولانا فضل الرحمن نے رات گیارہ بجے ایک پریس کانفرنس کی اس کی ٹکر جیونیوز نے پونے پارہ بجے دکھائی کہ ٹی ایل پی کے ہیڈکوارٹر کو کربلا بنادیا گیا اس کے بعد خاموشی چھاگئی البتہ سوشل میڈیا پر افواہوں کابازارگرم رہا ٹی ایل پی کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ 20سے زائد لوگ فائرنگ سے مارے گئے اس کے بعد ہی حکومت نے ردعمل دیا کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ایک پولیس تھانہ پر حملہ کیا اور ایک ڈی ایس پی سمیت6اہل کاروں کو اغوا کرکے محبوس رکھا جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوری میں کارروائی کرنا پڑی ایک کمی یہ محسوس ہوئی کہ سعد رضوی کے بعد ان کی جماعت میں اور کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں تھی جو صورتحال کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتی چنانچہ واقعہ کے دوسرے دن بھی حقیقی صورتحال پوشیدہ ہے۔
ٹی ایل پی کے طرز عمل سے قطع نظرایک طرح سے ساری کوتاہی حکومت کی ہے جب تحریری معاہدہ کیا گیا تھا تو اس کی پاسداری کی جاتی چاہے وہ صحیح تھا یا غلط اگر حکومت کو واقعی اپنی رٹ یا قومی مفاد کی فکر تھی تو مذاکرات کے دوران واضح طور پر کہہ دیا جاتا کہ یہ مطالبات ناجائز ہیں جنہیں تسلیم نہیں کیاجاسکتا یہ بھی بتادیا جاتا کہ پاکستان عالمی برادری میں ایک کمزور ملک ہے وہ ترکی نہیں کہ فرانسیسی سفیر کونکال دے یا اس کا سفارت خانہ بند کردے ایک کمزور ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ فرانس کوناراض کردے اس کی ناراضی کا مطلب یورپی یونین کو ناراض کردینا۔
اس سلسلے میں تحریک لبیک کو دوش دینا غلط ہے یہ تو نئی جماعت ہے ساراقصور تو ریاست کا ہے جو کمزور معیشت کی وجہ سے آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں بناسکتی اور دوسرے ممالک کی امداد کی محتاج ہے ریاستی اداروں کی ایک فاش غلطی یہ ہے کہ اس نے خود دینی حلقوں کو ماضی میں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا زیادہ دور نہ جایئے 2017ء کو جب خادم رضوی کی قیادت میں فیض آباد کا دھرنا ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کوتحریری طور پر منع کردیا گیا کہ وہ طاقت کااستعمال نہ کریں بلکہ گفت وشنید سے مسئلہ حل کریں اس بارے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک طویل فیصلہ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ معتوب ٹھہرے لیکن آج کے حالات نے ثابت کردیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا حکومت بے شک اس فیصلہ کو نہ مانے لیکن ٹی ایل پی کیخلاف کارروائی اس فیصلہ کی توثیق کے مترادف ہے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ ایک جیسے مسائل پر ریاستی اداروں کے فیصلوں میں تضاد پایا جاتا ہے ماضی میں سب سے زیادہ دینی حلقوں کو جنرل ضیاؤ الحق نے استعمال کیا لیکن وہ ان کا بہت خیال رکھتے تھے یہ الگ بات یہ حلقے ریاست کیلئے وبال جان بن گئے جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو شیخ رشید انہیں ٹی ایل پی کے دھرنے میں لے گئے تھے جس کی تصویر موجود ہے اگر ن لیگ کو گرانے کیلئے اس وقت ٹی ایل پی اچھی تو آج کیوں بری ہے یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن نے ٹی ایل پی کے دھرنے کی حمایت نہیں کی تھی لیکن گزشتہ روز انہوں نے اس کی کھل کر حمایت کی یعنی حالیہ تحریک میں سیاسی عنصر بھی شامل ہوگیا ہے ایک خدشہ یہ ہے کہ جس طرح شیخ صاحب ریلوے کو نہ چلاسکے اور اسے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا محکمہ داخلہ بھی ان سے نہ چل پائیگا وہ جلد یا بدیر کوئی بلنڈرکردیں گے جس کی تلافی اس حکومت کیلئے ممکن نہ ہوگی بعض سازشی عناصر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شیخ رشید جان بوجھ کر حالات کودوسرے رخ کی طرف لے جارہے ہیں تاکہ موجودہ حکومت مزید بحرانوں کے گرداب میں پھنس جائے تاکہ اس کی رخصتی کے حالات پیدا ہوجائیں ویسے تو شیخ صاحب کمال کی شخصیت ہیں گزشتہ روز وہ وزیراعظم سے کہہ رہے تھے کہ میں آپ کے ساتھ سیاست میں آیا ہوں اور آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا بظاہر تو یہ وزیراعظم کی خوشنودی کی ایک سطحی کوشش تھی لیکن اس میں دھمکی کا عنصر بھی کارفرما تھا یعنی اگر مجھے وزارت سے نکالا تو آج بھی ساتھ جائیں گے۔
جہاں تک سنسر شپ کا تعلق ہے تو یہ خدشہ شروع سے ہی تھا کہ عمران خان کی حکومت میڈیا پر سخت کنٹرول رکھے گی کیونکہ ان کاذہن جمہوری نہیں آمرانہ ہے وہ اپنی ذات اور حکومت پر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اب تک ان کی جو درگت بنائی گئی ہے انکے نزدیک یہ کافی ہے آئندہ ایسی خبروں کا بلیک آؤٹ کروایا جائیگا اور کوشش کی جائے گی کہ تمام پرائیویٹ چینل پی ٹی وی کے مددگار چینل دکھائی دیں۔لاہور میں ٹی ایل پی کیخلاف آپریشن کے دوران خبروں کاجو بلیک آؤٹ ہوا پی ایف یو جے نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ یہ اطلاعات اور آزادئی اظہار پر حملہ ہے جس کی مزاحمت کی جائے گی غالباً پی ایف یو جے کو معلوم ہے کہ آئندہ چند ماہ بہت حساس رہیں گے حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی کوشش ہوگی کہ اصل حالات عوام کے سامنے نہ آسکیں الیکٹرانک پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنا حکومت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے البتہ اسے پریشانی ہے تو سوشل میڈیا سے ہے اسے کنٹرول کرنے کیلئے بھی قوانین وضع کرلئے گئے ہیں صرف ان کا نفاذ اور اطلاق باقی ہے پیمرا اور پی ٹی اے مل کر اس حساس اور برق رفتار میڈیم کو کنٹرول کریں گے۔
بعض عناصر تو یہ کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی کی تحریک کے پیچھے بھی بڑے مقاصد کارفرما ہیں اور کچھ نہ ہو ایسے واقعات کے نتیجے میں حکومت کو جھٹکے لگیں گے اور وہ مزید کمزور ہوجائے گی اگرچہ شیخ رشید عمران خان کے سامنے دعویٰ کررہے تھے کہ انہوں نے شکست نہیں سیکھی غالباً شیخ صاحب تاریخ سے ناواقف ہیں اس دنیا میں بڑے بڑے آمرگزرے ہیں انہیں بھی بدترین شکست کا مزہ چھکنا پڑا مثال کے طور پر ہٹلر،سولین،نیولین،اسٹالن،شاہ ایران، ایوب خان اور جنرل ضیاؤ الحق ان سب کا انجام بدترین شکست کی صورت میں سامنے آیا عمران خان تو اتنے بڑے آمر نہیں ان کی عوامی طاقت بھی دوسروں کی مرہون منت ہے وہ اندر سے جانتے ہیں کہ انہیں 2018ء میں کتنے ووٹ پڑے تھے اور نکلے کتنے تھے وہ اقتدار میں آنے کیلئے نہ تو ذہنی طور پر تیار تھے اور نہ ہی ان کی اتنی صلاحیت تھی کہ وہ بحرانوں کے شکار پاکستان جیسے ملک کو چلاسکیں پونے تین سال میں یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے مطابق معاملات نہ چلاسکے تاہم اس دوران ان سے ایسی بڑی غلطی سرزدو نہ ہوئی تھی کہ اس کا خمیازہ حکومت جانے کی صورت میں نکلے ٹی ایل پی کیخلاف کارروائی ان کی سب سے بڑی غلطی ہے جب شہبازشریف کے دور میں ماڈل ٹاؤن کاواقعہ ہوا تھا تو اس کے بعد ن لیگ کی حکومت جانبرنہ ہوسکی تھی جبکہ طاہر القادری کے مقابلے میں ٹی ایل پی زیادہ بڑی طاقت ہے جس کا اچھاخاصا ووٹ بینک بھی ہے یہ جماعت ایک نیا فیکٹر ہے جس کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی ہے اس لئے وہ زیادہ جارحانہ طریقہ اپنائے ہوئے اور اس کا طرزعمل متشددانہ ہے ہوسکتا ہے کہ کالعدم ہونے کے بعد جب یہ نئی شکل اختیار کرے تو اس وقت اس کے طور اطوار زیادہ پختہ اور سیاسی ہوں۔
اس مکتبہ فکر کو آزادانہ طور پر کام کرنا چاہئے اوروں کے اثرات نہیں لینے چاہئیں۔عمران خان اپنے آخری سالوں میں سنسرشپ میڈیا کنٹرول اور بڑوں کا ڈکٹیشن لیتے لیتے گزاردیں گے لیکن عمومی طور پر آخری ایام خطرناک ثابت ہوتے ہیں خاص طور پر جب ایک ٹیم ناکامی سے دوچار ہوسیاست میں انہیں 25برس ہوگئے ہیں لیکن وہ اپنی کابینہ کو کرکٹ ٹیم کی طرح چلارہے ہیں جس طرح وہ وزراء تبدیل کرتے ہیں ایسا تو کرکٹ ٹیم میں ہوتا ہے کہ کسی میچ میں ناکامی کے بعد کھلاڑی بدل دیئے جاتے ہیں جبکہ ریاستوں کو چلانے کیلئے یہ طریقہ کار کارگرثابت نہیں ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں