مصنوعی سرحدیں اور دفاعی ریاستیں

تحریر: جیئند ساجدی
دنیا میں جہاں بھی نو آبادکار نظام رہاہے وہاں اکثر مصنوعی ریاستیں اور مصنوعی سرحدیں بنائی گئی ہیں۔یہ خطہ جنوبی اور مغربی اشیاء بھی بڑی مدت تک نو آباد کاری نظام کا شکاررہااور اس خطے کے بیشتر ممالک یعنی بھارت،پاکستان،افغانستان اور ایران کی سرحدیں نو آبا د کارسامراجی طاقت برطانیہ نے بنائی۔ ان ممالک کے درمیان سرحدوں کواس حوالے سے مصنوعی کہا جاسکتا ہے کیونکہ کہ یہ سرحدیں ایک ہی خاندان،قبیلے اور قوم کے لوگوں کو بین لاقوامی ریاستوں میں تقسیم کرتی ہیں اور ان سرحدوں کو کھینچنے والے برطانوی سرکار نے یہاں کے مقامی لوگوں کی تاریخ،ثقافت، زبان اور ان کی رائے حق خود ارادیت کو مد نظر نہیں رکھا انہوں نے اگر کوئی چیر مد نظر رکھی تو ہو محض ان کے اپنے مفادات تھے۔ ایران اور پاکستان کی سرحد کھینچنے والے برطانوی سرکاری ملازم گولڈ سمتھ نے غالباً اس سرحد کوکھینچنے سے قبل اس خطے کا شاہد ہی کبھی دورہ کیا ہو لیکن ان کی اور ایک اوربرطانوی سرکاری ملازم ھنری ممکہن کی سرحدیں کھینچنے کی وجہ سے بہت سے بلوچ خاندان اور قبائل تین بین الاقوامی ریاستوں (پاکستان،ایران،افغانستان)میں تقسیم ہو گئے ایک اور برطانوی سرکاری ملازم مانٹی گر ڈیورنڈ کی مصنوعی سرحد ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے پشتون بھی دو بین الاقوامی ریاستوں افغانستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گئے۔سائرل ریڈ کلف جو اپنی زندگی میں پہلی بار برصغیر تشریف لائے تھے انہوں نے بھی موجودہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحد کھینچ کر پنجابیوں کودو حریف ریاستوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کیا۔ اس خطے کے علاوہ برطانیہ و دیگر یورپی ممالک نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے متعدد ممالک میں ایسی ہی مصنوعی سرحدیں وہاں کی مقامی آبادی کے مرضی کے برعکس کھینچی ہیں۔
ان مصنوعی سرحدوں کی وجہ سے بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں یا توملکی سطح پر آپس میں تضادات ہیں یا پھر ان مصنوعی ریاستوں کی مرکزی حکومتوں اور ان میں ان قوموں کے درمیان تضادات ہیں جنہیں ان ریاستوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مصنوعی سرحدوں کی وجہ سے اس خطے میں شاید بلوچوں کا جتنا نقصان ہوا ہو وہ شاید ہی کسی دیگر محکوم قوم کا ہوا ہو۔ اپنے ہی تاریخی سرزمین میں بلے ہی ان کی اکثریت ہو لیکن ان تینوں بین الاقوامی ممالک میں تقسیم ہو جانے کے بعد وہ تینوں ریاستوں میں اب ایک حقیر اقلیت میں تبدیل ہو گئے ہیں اور تینوں ممالک کے مرکزوں اسلام آباد، تہران اور کابل سے دور ہیں اس کی وجہ سے ان کے پاس روزگار کے مواقع اور ریاست کے اہم عہدوں پر فائز ہونے کے مواقع بھی کم ہیں۔ اپنی کم تعداد اور مرکز سے دوری کی وجہ سے بلوچ ان تینوں ریاستوں کے اہم سیاسی و معاشی فیصلوں پر کوئی اثرورسوخ ڈالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔معاشی مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ان تینوں ریاستوں میں تقسیم بلوچ اکثر سرحد پر تجارت کیا کرتے ہیں اور یہ ان کی روزگار کا ایک اہم ذریعہ یہی ہے لیکن ایک ماہ قبل ہی ایران فورسز کی فائرنگ سے متعدد بلوچ مزدور جو تیل کی تجارت کر رہے تھے قتل کر دیئے گئے پاکستان نے بھی کچھ روز قبل ایران کے ساتھ سرحد بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے متعددمزدور بھوک اور پیاس سے مر گئے ہیں اور معاشی بدحالی سے مجبور ہو کر ایک مزدور نے خود کشی بھی کر لی ہے جیسے کہ اس تحریر میں پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ان مصنوعی سرحدوں کا ایک ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ان سرحدوں کی وجہ سے مختلف ممالک اوران ممالکوں میں مقیم محکوم قوموں اور مرکز کے درمیان تضاد ہے جس کی وجہ سے اکثر یہ ریاستیں سماجی و معاشی حوالے سے خوشحال ریاست بننے کی بجائے دفاعی ریاستیں بن گئی ہیں پاکستان، بھارت اور افغانستان سب کے سب دفاعی ریاستیں ہیں اور معاشی ترقی سے کافی پیچھے ہیں ایران جو تیل پیدا کرنے کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا جبکہ گیس پیدا کرنے کے حوالے سے دنیا کا تیسرا ملک ہے وہ بھی ایک خوشحال ریاست بننے میں ناکام رہا ہے اور ایک دفاعی ریاست ہی ہے۔
ان دفاعی ریاستوں کو ہمیشہ یہی خدشہ رہتا ہے کہ حریف ممالک کے جاسوس ان کے ملک میں جاسوسی کرتے ہیں اور شورش زدہ علاقوں کے باغیوں کی بھی مدد کرتے ہیں پاکستان اور ایران کی اپنے سرحدوں کو بندش کا مقصد بھی یہی لگتا ہے کہ دونوں ریاستوں کو یہ خدشہ ہے کہ تیل کی تجارت کے ساتھ ساتھ سرحد کھلنے کی وجہ سے اسلحہ بھی سرحدوں کے دونوں اطراف آئے گا اور جائے گا اور کہیں جاسوس بھی سرحد کراس کرلینگے۔ایران کو یہ خدشہ ہے کہ پاکستان ایران کے باغی بلوچوں کی مدد کررہا ہے اور ان کو اپنے ملک میں پناہ دیئے ہوئے ہیں ان تحفظات کا اظہار ایران متعددفعہ مختلف انداز میں کر چکا ہے کبھی کبھی نوبت یہاں تک بھی آئی ہے کہ انہوں نے سرحد پار کر کے مشرق بلوچستان پر زمینی اور فضائی حملے کئے ہیں اور جیش الحدل اور جنداللہ کے کارکنان کو قتل کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔دوسری جانب پاکستان کو یہ خدشہ ہے کہ ایران یہاں کے باغی بلوچوں کی مدد کررہا ہے اور اپنی سرحد ان کو استعمال کرنے کے لئے دے رہا ہے اور ایرانی زمین استعمال کر کے علیحدگی پسند گروپس یہاں حملے کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار پاکستان سفارتی سطح پر بھی کر چکا ہے ایک دفعہ ایران کے وزیر خارجہ اسلام آباد سفارتی دورے پر آئے تھے اور تو پاکستانی دفتر خارجہ نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔کلبھوشن یادیو پر بھی پاکستانی انتظامیہ نے یہی الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایران میں مقیم تھے اور ایرانی دستاویز بھی ان کے زیر استعمال تھے۔حالانکہ ماضی میں ایران اور پاکستان بلوچ شورش کے حوالے سے ایک ہی صف میں تھے اور 1973ء میں ایران نے پاکستان کی توقع سے بھی زیادہ مدد کی تھی بلوچ باغیوں کو کچلنے کے لئے۔ایران کو بخوبی علم ہے کہ کوئی بھی بلوچ تحریک پاکستانی ریاست کے حق میں نہیں لیکن ایران یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان ایک دفاعی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر عدم استحکام کا بھی شکار ہے اور معاشی مدد کیلئے مغرب اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی طرف دیکھتا ہے مشرق وسطیٰ میں دو بڑی طاقتیں سعودی عرب اور ایران ہیں سعودی عرب خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے سنی کارڈ کا سہارا لیتا ہے جبکہ ایران شیعہ کارڈ کا، خطے کے مختلف ممالک میں ان دونوں ممالک نے اپنے پراکسیسز قائم کئے ہیں پاکستان نے ابتدائی دور میں دونوں ممالک سے معاشی تعاون حاصل کی تھی لیکن اب سعودی اور ایران اس حد تک ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے پاس محض ایک طاقت کو اپنانے کا آپشن ہے۔
سعودی چونکہ امریکہ کا حمایت یافتہ ملک اور 38سنی ممالک کا سربراہ ہے جبکہ ایران امریکہ مخالف ملک ہے اور شیعہ بلاک میں صرف دو ریاستیں شامل ہیں عراق اور شام اور اندرونی شورشوں کی وجہ سے یہ ریاستیں مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں۔اس لئے پاکستانی مقتدرہ نے ایران کو نظر انداز کر کے سعودی کی طرف جانے کا فیصلہ بہتر سمجھا ہوگا۔
ایران نے مغربی بلوچستان میں موجود مسلح تنظیموں کو امریکہ اور سعودی عرب کا پراکیسی گروپ قرار دیا ہے اور ان گروپس کو سپورٹ کرنے کا الزام عائد کیا ہے پاکستان چونکہ مالی حوالے سے خودمختار نہیں اور اگر معاشی حوالے سے کوئی ملک خود مختار نہ تو اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا اس لئے ایران یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان سعودی اور امریکہ کے دباؤ میں آ کر ایرانی بلو چ باغیوں کی مدد کررہا ہے حالانکہ ایران کو اس بات کا علم ہے کہ بلوچ شورش مغربی بلوچستان کے امن کے لئے بھی خطرہ ہے اور پاکستان میں اگر بلوچ قومی تحریک مضبوط ہو گی تو اس کے اثرات مغربی بلوچستان پر بھی پڑینگے لیکن پاکستان کو شاید دباؤ میں ڈالنے کے لئے ایران یہاں کی بلوچ باغیوں کی مدد کرنا اپنی مجبوری سمجھتا ہو۔لہذا دونوں ممالک عدم تحفظ کا شکار ہیں لیکن دونوں ممالک کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرحد کی بندش سے دونوں مغربی اور مشرقی بلوچستان کی غربت میں اضافہ ہوگا اور ممکن ہے کہ لوگ معاشی بدحالی سے تنگ آکر انتہا ء پسندی کی طرف چلے جائے۔چینی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ وہ شخص جس کے پاؤں میں ایک بھی جوتی نہ ہو تو وہ اس شخص سے بلکل بھی نہیں ڈرتا جس کے پاؤں میں دو جوتیاں ہوں۔لہذا اگر دونوں ممالک شورش پر قابو پانے کے لئے سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اندر مقیم بلوچوں کو ان کے جائز معاشی،سیاسی اور سماجی حقوق دیں۔سرحد کی بندش سے شورش میں مزید اضافہ ہونے کے خدشات ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں