حوادث ہی حوادث

تحریر: انور ساجدی
بدقسمتی سے حوادث واقعات اور سانحات بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عمران خان کی حکومت شکستہ اور زخموں سے چور چور ہے لیکن جتاتی نہیں گزشتہ ہفتہ تحریک لبیک کے سلسلے میں حکومت سے کافی بلنڈرز ہوئے پہلا بلنڈرمولانا سعد رضوی کی اچانک گرفتاری تھی اسکے بعد جو احتجاج شروع ہوا تین دن ایسا لگا کہ کوئی حکومت ہے ہی نہیں خونین واقعات کے بعد حکومت کو سرنڈر کرنا پڑا لیکن اس نے ٹی ایل پی سے کئے گئے معاہدہ کے سلسلے میں دھوکہ دہی سے کام لیا اشک شوئی کے لئے قومی اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مسئلہ پر بحث کی جائے جبکہ مذاکرات کے دوران حکومت ٹیم نے کہا تھا کہ اخراج کی قرارداد پیش کی جائے گی ٹی ایل پی کو لیکر کافی ابہام ہے کیونکہ حکومت نے نئے معاہدہ کو خفیہ رکھا ہے اس کی کیا وجہ ہے ضرور اس میں حکومت کی کمزوریاں ہونگی جو آئندہ چل کر پتہ چلے گا البتہ دینی امور کے وزیر نورالحق قادری جب اپنے گاؤں پہنچے تو ہزاروں افراد نے اکٹھے ہو کر انکے خلاف نعرہ بازی کی اسی طرح راولپنڈی کے راجہ بازار میں شیخ رشید کی لال حویلی کا گھیراؤ کیا گیا اور انتہائی توہین آمیز نعرے لگائے گئے جیسے کہ شیخ رشید نے خود کہا ہے کہ ٹی ایل پی پنجاب کی تیسری بڑی پارٹی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور ٹی ایل پی کے پاس ہے یہ جماعت ایک نئے سیاسی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے جو ممتاز قادری کے واقعہ کے نتیجے میں ابھری بوجوہ اسکی سرپرستی کی گئی جس کے نتیجے میں اس نے2017ء کو فیض آباد میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اس وقت کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو بھی عمران خان کی طرح سرنڈر کرنا پڑاتھا حالیہ واقعات بھی پراسرار نوعیت کے تھے کیونکہ سعدرضوی کوگرفتاری کے بعد جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کا ایک مقصد معلوم ہوتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹی ایل پی کا ”فنامنا“ بڑھتا جائیگا جسے کسی بھی سیاسی قوت کیخلاف استعمال کیاجاسکتا ہے خاص طور پر 2023ء کے انتخابات میں یہ جماعت اہم کردارادا کرے گی اگر اس پر سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو یہ نئے نام کے ساتھ جلوہ گر ہوگی اور کئی جماعتوں کے راستے میں رخنہ انداز ہوگی جس طرح علامہ خادم رضوی دیگر بریلوی علماء سے مختلف تھے اسی طرح ان کا صاحبزادہ بھی روایتی بریلوی علماء سے مختلف ہیں اگر وہ ثابت قدم رہے یا یہ جماعت اندرونی خلفشار کاشکار نہ ہوئی تو یہ اپنے ”پاور فل نعرہ“ لبیک یارسول اللہؐ کے ذریعے کافی اثرات ڈالے گی چونکہ اس وقت پنجاب میں ایک خلا ہے لاکھوں اسٹریٹ چائلڈ بیروزگاری اور بھوک سے تنگ ہیں اس لئے انہوں نے ٹی ایل پی کارخ کیا ہے جس کی وجہ اس کا اسٹریٹ پاور بہت زیادہ ہوگیا ہے اور وہ کسی وقت بھی حکومت کیلئے مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں انکے جذبات ابھارنے کیلئے سعد رضوی جیسے کہ شعلہ بیان خطیب موجود ہے جن کااظہار یہ یا انداز بیان اپنے والد سے زیادہ جذباتی ہے ان کے کہنے پر اشرافیہ کے ہاتھوں فاقہ زدہ لاکھوں نوجوان کٹ مرنے کو تیار ہونگے پاکستان کی نام نہاد سیاسی اشرافیہ اوراسٹیٹس کو کی علمبردار مقتدرہ کو سوچنا چاہئے کہ انہوں نے کوئی مثبت تبدیلی برپا نہ کی تو یہ بپھرے ہوئے نوجوان اگرچہ انقلاب تو نہیں لاسکتے لیکن اسٹیٹس کو کے نمائندوں کو ایک بار ضرور تہہ وبالا کردیں گے یہ ضروری نہیں کہ یہ نیا سیاسی اور دینی فیکٹر آئندہ پھراستعمال میں آئے اگر یہ اپنے مقرر کردہ راستہ اور اہداف پر چل پڑی تو بہت مشکل حالات پیداہوجائیں گے کیونکہ یہ کسی وقت بھی اپنے مشکل مطالبات لیکر میدان میں آجائیں گے اور جس کی بھی حکومت ہو اسے چلنے نہیں دیں گے ریاست کا موجودہ نظام گل سڑچکا ہے یہ نہ جمہوری نہ اسلامی ہے بلکہ یہ اہداف اور اصولوں سے عاری ہے پارلیمنٹ اپنی دقعت کھوچکی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اسپیکر کے روسٹرم کے سامنے جاکر ان سے کہا کہ میں آپ کو جوتا ماروں گا اس کے بعد اسپیکر ایوان کی کیا ڈیکورم اور عزت رہ جاتی ہے۔
وزیراعظم کوتین سال بعد پتہ چلا ہے کہ اس ریاست پر حکومت کرنا کس قدرمشکل ہے ایک طرف وہ شوگرمافیا اور پی ڈی ایم کی بلیک میلنگ کارونا رورہے ہیں تو دوسری جانب جہانگیر ترین سے ملاقات پر بھی آمادہ ہیں کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ سرائیکی بیلٹ کے40لوٹے الگ گروپ بناکر حکومت کو گراسکتے ہیں کئی حوالوں سے دیکھا جائے تو وزیراعظم کے ہاتھ پیر بندھے نظرآتے ہیں کہاجاتا ہے کہ جب سعد رضوی کوگرفتار کیا گیا تو وزیراعظم بے خبر تھے اور شیخ رشید اور نورالحق قادری نے ٹی ایل پی سے ایک اور خفیہ معاہدہ کیا تو وزیراعظم سے اجازت نہیں لی گئی۔شوکت ترین کو وزیرخزانہ مقرر کیا گیا تو وزیراعظم سے ان کی ملاقات نہیں تھی اور وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کیلئے گئے یہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم اپنے پرائے دوست نما دشمنوں اور مخالفین کے نرغے میں ہے وہ کرپشن کا روناروتے ہیں لیکن ان کے اپنے وزیر اور مشیر وہی کام کررہے ہیں جو سابق وزراء کرتے رہے ہیں حال ہی میں انہوں نے پشتونخوا میں جو خطاب کیا اس سے وزیراعظم کی بے بسی باالکل عیاں تھی وہ تیزی کے ساتھ ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں بدقسمتی سے وہ اپنی ٹیم نہیں بناسکے اور بار بار کابینہ میں تبدیلی کرکے یہ تجربہ کررہے ہیں کہ شائد کامیابی ملے لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہورہی ہے۔
پورے ملک میں امن وامان کی صورتحال درست نہیں ہے بدھ کی شب کوئٹہ کے مشہور فوراسٹارہوٹل سرینا کی پارکنگ میں ہولناک دھماکہ ہواشکر ہے کہ چینی سفیر اور ان کا وفد اس وقت ہوٹل میں موجود نہیں تھا۔یہ ٹوٹل سیکیورٹی لیپس تھا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے تھا کہ چینی سفیر کی موجودگی میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرتے لیکن بوجوہ اس میں کامیابی نہ ہوسکی حتیٰ کہ بارود سے بھری ایک گاڑی پارکنگ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئی جس سے جانی نقصان تو ہوا لیکن ساری دنیا میں بدنامی ہوئی ایسے حالات میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے آئیگی اور لوگ ان مشکل حالات میں کیسے رسک لیکر بلوچستان میں آئیں گے اگرچہ کوئٹہ دھماکہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ طالبان کا چین سے کیا اختلاف ہے جو انہوں نے چینی سفیر کی کوئٹہ میں موجودگی کے دوران ایسا گھناؤنا کام کیا ہوسکتا ہے کہ طالبان نے کوراپ کے طور پر اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے اسی دوران بلوچستان کے وزیرداخلہ میرضیالانگو نے الزام عائد کیا ہے کہ دھماکے میں انڈیا کاہاتھ ہے انہوں نے بعدازاں چینی سفیر سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ پرعزم ہیں۔کراچی میں چینی قونصل خانہ پرحملہ کے بعد چینی سفیر پہلی بار کوئٹہ آئے تھے چونکہ سی پیک چین کا منصوبہ ہے اس لئے وہ اس کی تکمیل کا خواہش مند ضرور ہے لیکن رکاوٹیں کافی ہیں اور حکومت ابھی تک ان رکاوٹوں کودور نہ کرسکی سی پیک کے روٹ پر واقع مقام ہوشاب میں جو سانحہ پیش آیا اس کی حساسیت سرینا دھماکہ سے بھی زیادہ ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ قیام امن کیلئے اپنی موجودہ حکمت عملی تبدیلی کردے جوکہ ناکام ہوچکی ہے ترقیاتی عمل کیلئے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کو مطمئن کیا جائے یک طرفہ کارروائیوں سے ترقیاتی عمل کو کوئی مدد نہیں ملے گی حکومت نے اپنے تئین بلوچستان کو دو انتظامی حصوں میں تقسیم کرکے ساؤتھ کو ریڈزون قراردیا ہے اورافرادی قوت کے حوالے سے اقدامات کئے ہیں لیکن قلات سے لیکر جیونی تک زمین پر کوئی ایسے کام نظر نہیں آتے کہ جس سے یہاں رہنے والے انسانوں کی حالت تبدیل ہو۔اگر لاکھوں لوگ بھوک وافلاس بیماریوں اور فاقوں کا شکار ہوں تو آپ مثبت نتائج حاصل نہیں کرسکتے ایک بڑی آبادی زندہ رہنے اور جینے کے آبرو مندانہ حق سے محروم ہے اگر ان لوگوں کو اس ریاست کا باشندہ سمجھا جاتا ہے تو انہیں بنیادی انسانی حقوق دینے ہونگے اس کے بغیرحالات کی سمت درست کرنا ممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں