پاکستانی سیاست پر کڑا وقت

تحریر: انورساجدی
یہ تومعلوم نہیں کہ امریکہ اور چین ایک دوسرے کیخلاف کیا کررہے ہیں ہاں یہ طے ہے کہ دنیا کے یہ دوبڑے سپرپاور سائنس تحقیق زمینی اور فلائی تسخیر کے معاملات میں مصروف عمل ہیں یہ ایک طرف خطرناک اسلحہ بنارہے ہیں تو دوسری جانب معاشی طور پر دنیا کو اپنا غلام بنانے کی تگ ودو کررہے ہیں امریکہ کو صدر ٹرمپ کافی پچھے لے گئے تھے خاص طور پر انہوں نے کرونا کی پہلی لہر کے دوران جس لاپرواہی اور غلطیوں کا ارتکاب کیا اس سے امریکہ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے عذاب میں مبتلا ہوگیا اسی دوران ایک طرف امریکہ نے جرمن کمپنی کے تعاون سے کرونا کی پہلی ویکسین بنائی تو دوسری جانب چین نے بھی سائنوفارم کے نام سے اپنی ویکسین بناکر اپنی دھاک بٹھادی ابتک کروڑوں ویکسین لگ چکے ہیں لیکن طب کے ماہرین بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ کرونا کے تدراک میں کس حد تک موثر ہیں ایک ویکسین انگلینڈ نے بھی آکسفورڈ میں بنائی لیکن اسکو زیادہ پذیرائی نہیں ملی جب ایک طاقت زوال پذیر ہوتو اسکے حصے میں ناکامیاں ہی آتی ہیں چند روز قبل برطانیہ نے پاکستانیوں کی آمد پر پابندی لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں پر ویکسین لگانے کا عمل غیر تسلی بخش ہے پاکستان دنیا کے ان چند غریب ممالک میں شامل ہے جو اب تک ویکسین خرید نہیں سکا۔بلکہ اسے چین اور اقوام متحدہ کی طرف سے جو ویکسین عطیہ کے طور پر ملے ان سے گزارہ چلارہا ہے اگر دیکھاجائے تو چین ویکسین کے معاملے میں بھی امریکہ سے آگے نکل چکا ہے اور وہ سائنو فارم کے ذریعے اربوں ڈالر کمارہا ہے گزشہ ایک عشرے کے دوران چین بیلٹ اینڈ راڈ پروگرام کے ذریعے دنیا پر حملہ آور ہے یہ پروگرام آسٹریلیا سے لیکر جنوبی امریکہ پر محیط تھا لیکن امریکہ کے زیر اثرچند ممالک نے یہ پروگرام ترک کردیا ان ممالک میں آسٹریلیا اور ملائیشیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں بظاہر یہ معاشی ترقی کاایک بے مثال پروگرام ہے لیکن دراصل دنیا پرغلبہ پانے کا ذریعہ ہے مشرقی ایشیاء میں برما واحد ملک ہے جو اس پروگرام میں شامل ہے جو انڈیا سے پرے بنگال کی کھاڑی میں واقع ہے دوسری جانب ہمالیہ سے لیکر گوادر تک یہ پروگرام سی پیک کے نام سے چل رہا ہے ہمالیائی ریجن میں انڈیا اور چین کی سرحد ملتی ہے جہاں پچھلے سال ڈوکلام کے مقام پر دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا گویا چین نے تین طرف سے بھارت کو گھیررکھا ہے ادھر سرمایہ دار دنیا کے سرخیل امریکہ کی تمام تر امیدیں انڈیا سے وابستہ ہیں اس کا خیال ہے کہ انڈیا میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ چین کا ہاتھ روک سکے۔نئے امریکی صدر جوبائیڈن کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ ایک پڑھے لکھے جمہوریت پسند اور فہمیدہ انسان ہیں اور وہ صدر ٹرمپ کے مقابلے میں جنگ کے مخالف ہیں حالانکہ ٹرمپ نے بھی کوئی جنگ نہیں چھیڑی تھی وہ صرف بڑھکیں مارتے تھے انہوں نے ہزار بار ایران پر حملے کی دھمکی دی تھی لیکن جب اسرائیل نے بھرپور حملے کاپروگرام بنایا تو اس کا ہاتھ جھٹک دیا جو بائیڈن زیادہ عملی انسان ہیں وہ جلد ساؤتھ چائنا سی کا معاملہ اٹھانے والے ہیں جبکہ افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں افغانستان کے حوالے سے پاکستان آزمائش سے دوچار ہے کیونکہ بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد دائمی امن قائم کرنے میں پاکستان اپنا کردارادا کرے امریکہ سی پیک سے بھی ناخوش ہے کیونکہ اسے چین کی خلیج میں موجودگی ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن وہ کیاکرے اس کی مجبوریاں بہت ہیں چین بحرہند میں برما میں اڈہ بنارہا ہے وہ جیوتی میں اڈہ بناچکا ہے گوادر میں پورٹ تعمیر کررہا ہے مبصرین کے مطابق عمران خان کے دور میں سی پیک اس لئے رک گیا تھا کہ امریکہ ناراض تھا لیکن چین امریکہ سے بھی بڑا چالاک اور سود خور ہے۔جب اس نے محسوس کیا کہ کام رک گیا ہے تو اس نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں کام کی رفتار تیز کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن کام تیز نہیں کیاگیا۔
چین کی بلوچستان میں سرگرمیوں پربلوچ ”میلٹینٹس“ کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں اس لئے چند سالوں میں جو بھی کارروائیاں کی گئیں وہ انہی عناصر نے کیں حال ہی میں سریناہوٹل میں جو ہولناک دھماکہ ہوا اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی دھماکہ کے بعد وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے بھارت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ان کے خیال میں بھارت کو پاکستان اور چین کے تعلقات اچھے نہیں لگتے اور وہ سی پیک کا بھی مخالف ہے کوئٹہ دھماکہ ضرور اسکی کارستانی ہوگا۔
دھماکہ کے بعد جہاں عالمی سطح پر اسکی مذمت جاری ہے وہاں چین کے سفیر نے سیاسی لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا کچھ عرصہ قبل چین نے بعض بلوچ رہنماؤں سے براہ راست رابطے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی لیکن جمعرات کو نیشنل پارٹی کے ایک وفد نے سابق سینیٹرمیرکبیر محمد شہی کی قیادت میں چینی سفیر سے ملاقات کی بظاہر یہ ایک علامتی ملاقات تھی جس کا مقصد دہشت گردی کے واقعہ بھی چینی سفیر سے اظہار ہمدردی جتانا تھا لیکن یہ واقعہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلوچستان کی کسی سیاسی جماعت سے یہ چین کا پہلا باضابطہ رابطہ ہے اور یقینا اس ملاقات کی اجازت دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے دی ہوگی کیونکہ حکومتوں کی اجازت کے بغیر ایسی ملاقات ناممکن ہے معلوم نہیں کہ چین آئندہ بھی صوبے کی سیاسی قیادت سے رابطوں کاسلسلہ جاری رکھے گا یا یہ رابطے صرف گورنمنٹ کے ایما پر ہی ہوسکیں گے نیشنل پارٹی بلوچستان کی ایک نمایاں پارلیمانی اور وفاق پرست جماعت ہے اس کا شروع سے موقف رہا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہے وہ ہمیشہ تشدد سے دوررہی ہے اصولاً تو صوبے کی ایک اور پارلیمانی جماعت بی این پی کو بھی چینی سفیر سے اظہار یکجہتی کیلئے جانا چاہئے تھا لیکن تادم تحریر انکی چینی سفیر سے ملاقات کاکوئی پروگرام نہیں تھا۔نیشنل پارٹی کی طرح بی این پی بھی عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے اور پرامن ذرائع سے بلوچستان کی ترقی چاہتی ہے اگرچہ بلوچستان کے مسائل کے بارے میں بی این پی کی آہنگ بلند تر ہے لیکن اس نے آج تک کوئی غیرآئینی اور غیر قانونی کام نہیں کیا اس کے تمام مطالبات بشمول 6نکات آئین کے دائرہ کار کے اندر ہیں دونوں جماعتیں قوم پرستی کی دعویدار ہیں اور آئندہ حکومت بنانے کی امیدوار بھی ہیں یہ تومعلوم نہیں کہ نظرانتخاب کس پر ٹھہرے گی لیکن بعض عناصر چاہتے ہیں کہ دونوں جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں اور مل کر حکومت بنائیں کیونکہ کسی ایک جماعت کیلئے اکیلے حکومت بنانا آسان نہیں ہے چونکہ دونوں پارلیمانی جماعتوں کامقصد الیکشن میں زیادتی کامیابی حاصل کرنا اور حکومت بنانا ہے لہٰذا ان کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے جہاں تک نظریہ کاتعلق ہے تو اس وقت پاکستان کی کسی جماعت کے پاس اقتدارکے حصول کے سوا کوئی نظریہ نہیں ہے اور ویسے بھی سارا نظام ہائبرڈ اور ریموٹ کنٹرول سے چل رہا ہے یہاں پر نظریہ کاکیا کام بلکہ اب تو سیاسی جماعتیں سیدھی سادھی جمہوریت کی بحالی کے مطالبہ سے بھی ڈرتی ہیں حقیقت یہ ہے کہ قومی سطح کی تمام جماعتوں نے اپنا پولیٹیکل کریکٹر رضاکارانہ طور پر سرنڈر کردیا ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اپنی دقعت کھوبیٹھی ہے پہلے کہاجاتا تھا کہ یہ ”ڈیبیسٹگ کلب ہے“ لیکن اب یہ وہ بھی نہ رہی ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے اسپیکر کیخلاف بات جوتا مارنے سے بھی آگے جائیگی اسپیکر کا یہ عالم ہے کہ وہ سرکاری جماعت کے اراکین کے سوا کسی کو بات کرنے نہیں دیتے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اسمبلی کے قواعد وضوابط پڑھے ہی نہیں ہیں 2018ء کے الیکشن کے وقت تحریک انصاف کے تاحیات چیئرمین عمران خان صبح وشام نظریہ نظریہ کا ورد کرتے تھے لیکن تین سال کے دوران ان کا نظریہ بھی نکل گیا ہے حکومت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف این جی او کی طرح کام کررہی ہے اور چیئرمین کے ذاتی اداروں کیلئے زیادہ سے زیادہ عطیات اکٹھا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عوام مہنگائی اور عزت وآبرو کی دہائی دے رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔
اگر ن لیگ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سنجیدہ ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے کردارپرغورکریں اور کوشش کریں انکی بحیثیت جماعت سیاسی کریکٹر بحال ہو ورنہ وہ عوام کو دھوکے میں نہ رکھیں بدقسمتی سے پاکستانی سیاست پر اس طرح کاکڑاوقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں