ایک اللہ کا ہی سہارا

تحریر: انور ساجدی
برصغیر کے دونوں بڑے ممالک انڈیا اور پاکستان میں کرونا بے قابو ہوگیا ہے جبکہ چھوٹے ممالک جن میں بنگلہ دیش،نیپال،سکم اور بھوٹان شامل ہیں وہاں پر وبا کی شدت کافی کم ہے انڈیا کی آبادی چونکہ سوا ارب سے زیادہ ہے اس لئے وہاں پر اسکے تدراک کے انتظامات کرنا بہت مشکل ہیں دو روز سے آکسیجن کی کمی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے نریندرمودی نے اپنی نگرانی میں ایک خصوصی آپریشن شروع کردیا جس کے تحت گاڑیوں، ٹرینوں اور ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے جنگی بنیادوں پر اسپتالوں کو آکسیجن فراہم کی گئی ایک قومی کانفرنس میں دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے مودی کو سخت تنقید کانشانہ بنایا تاہم اجلاس کے آخر میں انہوں نے معافی مانگی مودی نے اس تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا اس کے باوجود کہ اس وقت انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین تیار کررہا ہے وہاں پر کرونا کی وبا آؤٹ آف کنٹرول ہوگئی ہے اس کی وجہ برصغیر کا بے ہنگم اورڈسپلن سے عاری طرز زندگی ہے اور ہزاروں سال سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے اسی طرح کا لائف اسٹائل پاکستان میں بھی ہے جو1947ء تک برصغیر کا حصہ تھا کہیں پر بھی ایس او پیز کاخیال نہیں رکھاجاتا حکومت جو کہے اس کا مطلب الٹا لیاجاتا ہے جیسے کہ پاکستان میں پولیو ویکسین کے خلاف دینی حلقوں نے طویل عرصہ سے ایک محاذ کھول رکھا ہے اور طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں مثال کے طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ پولیو کے قطرے بچوں کو نامرد کردیتے ہیں انکے خیال میں بے شک بچے بڑے ہوکر اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہ ہوں لیکن ان کی مردانہ قوت برقرار رہنی چاہئے۔
کرونا ویکسین کے بارے میں بھی ایک حلقہ منفی پروپیگنڈہ کررہا ہے ایک وہ لال ٹوپی والے دانشور ہیں جو روز بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑادیتے ہیں وہ کافی عرصہ سے عوام کو گمراہ کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کرونا مغرب کی ایک سازش ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے اسی طرح کے کلمات کااظہار چندماہ قبل پاکستان کے مقبول ترین مبلغ طارق جمیل نے بھی کیا تھا لیکن جب انہیں کرونا ہوگیا تو انہوں نے عوام سے معافی مانگی۔
بدقسمتی سے عالم اسلام کادینی حلقہ اس بارے میں بے غم اور بے خبر ہے کہ ایک ارب سے زائد آبادی پرمشتمل امت سائنس اور ٹیکنالوجی میں کتنا پیچھے ہے سینکڑوں سال سے کسی مسلمان نے کوئی سائنسی ایجاد نہیں کی بلکہ مغرب کی ایجادات سے بھرپور استفادہ کیاجارہا ہے مختلف بیماریوں کاعلاج بھی کافروں نے دریافت کیاہے۔
ان بیماریوں کی تحقیق اور علاج کیلئے مشینیں بھی انہی کی ایجاد کردہ ہیں بلکہ نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر تک تمام علماء ہرروز امت کودرس دیتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے اپنا وقت دنیوی مسائل پر ضائع نہیں کرنا ہے بلکہ اپنے دائمی مقام آخرت کابندوبست کرنا چاہئے ان مبلغین نے کوشش بیسار کے بعد امت کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہت دورکردیاہے اور پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
آج کی دنیا پر نظردوڑائیں تو حیرت ہوگی اور مسلمان ممالک کی پسماندگی دیکھ کر مزید حیرت ہوگی ہوائی جہازوں نے سفر کو کتنا آسان کردیا ہے لیکن کسی مسلمان ملک نے آج تک کوئی مسافرطیارہ نہیں بنایا برق رفتار ٹرینوں کی رفتار ہوائی جہاز کے برابر ہوگئی ہے لیکن کسی مسلمان ملک نے کوئی ٹرین نہیں بنائی دنیا کے تمام مسلمان انٹرنیٹ سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بھی کافروں کی ایجاد ہے کس کس چیز کی بات کی جائے دنیا اور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے عہد جدید میں مسلمانوں کی واحد اور موثر ایجاد خودکش حملہ آور ہیں جو ایک ہی حملے میں درجنوں اور سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو لقمہ اجل بناتے ہیں۔اگرچہ شروع سے ہی مذہب اور سائنس کے درمیان کھلا تضاد موجود تھا لیکن کافروں کی دنیا نے یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کردیا سائنس کو جدا کردیا اس کے قدرتی فارمولے اوراسلوب اپنالئے جس ی وجہ سے وہ ترقی کی معراج پرپہنچے مسلمان ممالک کا یہ عالم ہے کہ سائنس ابتدائی تعلیم میں محض ایک سبجیکٹ ہے اور سائنس کے اسرارورموز کو خدائی اختیار میں مداخلت تصور کیاجاتا ہے تمام اسلامی ممالک نے صرف ڈاکٹر اورانجینئرپیدا کئے ہیں کوئی عظیم سائنس دان پیدا نہیں کیا اس شعبہ میں کسی شخصیت نے آج تک نوبل انعام حاصل نہیں کیا پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے پہلا انعام حاصل کیا لیکن قادیانی ہونے کی وجہ سے اسے مسلمان شمار نہیں کیاجاتا۔
پاکستان کا نصاب تو اور تباہ کن ہے جنرل ضیاء الحق نے سائنس کے مضمون کو تقریباً خارج کردیا تھا ان کے خیال میں سائنس الہامی کتابوں کی تعلیمات کے برعکس ہے حالانکہ فرقان مجید نے زور دیا کہ دنیا کو مسخر کرو اور اسکے اسرار ورموز سے آگاہی حاصل کرو۔
مقام افسوس ہے کہ ضیاء الحق کی پیروی میں آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ عمران خان نے سائنس کے شعبے کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے حالانکہ وہ روزانہ بھاشن دیتے ہیں مغرب کی ترقی کی مثال دیتے ہیں وہاں کی اعلیٰ انسانی اقدار اور نظام انصاف کے گن گاتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ایک نمبر کے قدامت پسند واقع ہوئے ہیں انہوں نے جس قسم کے نصاب کی تیاری کا حکم دیا ہے وہ نہ صرف ضیاؤ الحق کے نصاب کی کاپی ہے بلکہ اس سے بھی گیا گزراہے اس لئے پاکستان میں ایک طرف سے سائنس اور جدید تحقیق کا دروازہ بند کردیا گیا ہے جن لوگوں نے کچھ کرنا ہے لازمی طور پر وہ کافروں کے ملکوں کارخ کریں گے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دونوجوانوں نے امریکہ اور یو اے ای میں خلائی تحقیق میں نمایاں کامیابی حاصل کی ان میں سے ایک کو کراچی کے تعلیمی اداروں نے داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا اگرسائنسی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹرعطاء الرحمن ہونگے تو وہ ملک کیسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرسکے گا۔اگرفزکس کے استاد ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جدید سائنس پرزور دیتے ہیں تو انہیں کافر اور ملک دشمن قراردیاجاتا ہے چند سال قبل ایک ٹی وی پروگرام کے دوران موجودہ وزیرداخلہ شیخ رشید نے ہودبھائی کی طرف دیکھ کر کہا کہ اگرمجھے معلوم ہوتا کہ اس پورگرام میں ملک دشمن شریک ہیں تو وہ کبھی نہ آتے اگر محب وطن اس طرح کے شمس الجہلا ہونگے تو وہ اپنے ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پستیوں کی جانب دھکیل دیں گے ایک افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ74سالوں سے عوام کو صحیح تعلیم دینے کی بجائے ایک خیالی دنیا میں لے جایا گیا ہے جو علامہ اقبال کے فکشن شاعری اور نسیم مجازی کے ناولوں پر مبنی حصار میں مقید ہے گویا پاکستان کے عوام حقائق سے بہت دور ہیں ان کی ذہن سازی اس طرح کی گئی ہے کہ وہ مخالف رائے رکھنے والوں کو کافر زندیق اور ملک دشمن تصور کرتے ہیں اسی طرح اقلیتوں کو زمی اور ترڈکلاس شہری کہتے ہیں۔حالانکہ ان میں اعلیٰ صلاحتیں موجود ہونگی موجودہ وزیراعظم مغرب کے نظام مساوات اور نظام انصاف کاروزحوالہ دیتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا لوگ ذہن نشین کرلیں کہ ان کا ملک معاشی جمہوری عدالتی معاشرتی اور سائنسی اعتبار سے کبھی ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی بنیاد اور ساخت اس طرح رکھی گئی ہے کافی عرصہ سے دینی حلقے کادباؤ ہے کہ سود کاخاتمہ کیاجائے جبکہ پاکستان اور سارے مسلمان ملکوں کا معاشی نظام سود کے نظام پر استوار ہے دنیا کے تمام2سوممالک مجبور ہیں کہ موجودہ معاشی نظام سے وابستہ رہیں جو سودی نظام سے منسلک ہے کوئی ایسا معاشی ماہر نہیں آیا جو متبادل نظام تشکیل دے سکے ایران کے علی شریعتی نے ایک نظام تجویز کیاتا جو قابل عمل نہیں ہے ورنہ ایران اس پر عمل کرتا جو اپنے آپ کو اسلامی ملک کہتا ہے اگر متبادل نظام ہوتا تو مسلمانوں کا مائی باپ سعودی عرب ضرور اسے اپناتا عمران خان ریاست مدینہ کا نعرہ صرف سیاسی فائدہ اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے لگاتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ نظام موجودہ حالات میں نافذ نہیں ہوسکتا پاکستان میں صرف ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو دو ایسے حکمران تھے جنہوں نے سائنسی تحقیق کی بنیاد رکھی اس کے بعد کوئی کوشش نہیں کی گئی نہ آئندہ ہوگی کیونکہ ریاست کا جو نظریہ وضع کردیا گیا ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ریاست کے چلانے کے ذمہ دار طاقتور حلقے خیالی دنیا کے مضبوط حصار کو توڑنے پر آمادہ ہیں لہٰذا اگر کرونا جیسی وبائیں پھیلتی ہیں تو ان کی بلا سے ایک اندازہ کے مطابق خیبرپختونخوا اور بالائی پنجاب کی30فیصد آبادی کرونا کی زد میں ہے جبکہ طبی سہولتیں ناکافی ہیں آکسیجن کی کمی ہے۔ویکسین خریدنے کی استطاعت نہیں ہے لہٰذا عوام کو اپنے حال پر چھوڑدیا گیا ہے یہ وقت اپنے آپ کو بچانے کا ہے معیشت چلنا یا روزگار کے ذرائع بڑھانا تو دور کی بات ہے اگر لوگ اپنی زندگیوں کو بچائیں تو یہ انکی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں