الگ الگ نہیں ساتھ ساتھ

تحریر: انورساجدی
یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ”انہوں نے“ ساتھ جاناہے مخالفین نے جلد کسی معجزے کی جو توقع باندھی تھی وہ ”کافور“ ہوگئی ہے ساتھ یہ عندیہ بھی ملا ہے کہ تحریک لبیک کو30دنوں کے اندر بحال کردیاجائیگا اور پابندی ہٹادی جائے گی اس بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دینی جماعت جلد دوبارہ قومی دھارے میں آجائیگی یہ ”قومی دھارا“ نئی اصطلاح ہے یعنی جو لوگ کسی وجہ سے سرکش ہوجائیں اور دوبارہ مطیع اور فرمان بردار ہوجائیں تو انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ قومی دھارے میں آگئے ہیں یہ قومی دھارا کیا ہے یہ بڑے طے کرتے ہیں اور اس پر ہمیشہ تنازع رہتا ہے کئی اور باتوں کا بھی پتہ چلا ہے مثال کے طور پر پی ڈی ایم کی دوبڑی جماعتوں کوایک بار پھر الگ الگ الو بنالیا گیا ہے ن لیگ سے چند مراعات کے بدلے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ عمرانی حکومت کو مدت پوری کرنے دے گی اس دوران صرف زبانی کلامی حکومت کی مخالفت کی جائے گی کوئی تحریک نہیں چلائی جائے چند ایسے اقدامات ضرور کئے جائیں گے کہ کارکن مصروف رہیں اور مایوسی کا شکار نہ ہوں پیپلزپارٹی بس سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر اکتفا کرے گی اور سندھ میں اس کی حکومت کو برقرارہنے دیا جائیگا زرداری کیخلاف کیسز چلتے رہیں گے خورشیدشاہ کافی عرصہ تک قربانی کا بکرا بنے رہیں گے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر نوازشریف درخواست کریں تو ان کا نیا پاسپورٹ بناکر دیاجائیگا رہائی کے بعد شہبازشریف کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کریں گے خاقان عباسی کو زرا پرے کرنا پڑے گا اس دوران مریم بی بی زور دار بیانات جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی منصوبہ یہی ہے کہ جب 2023ء میں انتخابات ہونگے تو ایسا بندوبست کیاجائیگا کہ ٹی ایل پی اور دوسرے گروپ ن لیگ کے زیادہ سے زیادہ ووٹ کاٹیں تاکہ یہ جماعت وسطی پنجاب میں اتنی نشستیں حاصل نہ کرسکے جواسے گزشتہ انتخابات میں ملے تھے ظاہر ہے کہ پیپلزپارٹی کو حسب حال سندھ تک محدود رہنے دیا جائیگا اگر ساؤتھ پنجاب میں اس نے چند مزید نشستیں حاصل کرلیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ طے نہیں ہے کہ اگلی ”کنگز پارٹی“ کونسی ہوگی ظاہر ہے کہ تحریک انصاف دوبارہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی بے شک عمران خان کو اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہو لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی اس کارکردگی کی بدولت دوبارہ اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے البتہ سارا دارومدار 2022ء کو آنے والی ایک بڑی تبدیلی پر ہوگا اگر یہ تبدیلی آگئی تو ریاست کا موجودہ بندوبست بدل جائیگا اور آنے والے کی مرضی کو وہ کس جماعت کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے کنگز پارٹی کا درجہ دے۔
اگرفیصلے کااختیار عمران خان کے ہاتھ ہوا تو وہ ایک بڑی بازی کھیل سکتے ہیں اور پی ڈی ایم کی ناقص حکمت عملی سے فائدہ اٹھاکر بازی پلٹ سکتے ہیں ہاں آئندہ چند ماہ حکومت کیلئے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ اس دوران امریکہ افغانستان سے انخلا کرے گا اس کیلئے امریکہ نے کئی مطالبات پیش کردیئے ہیں پہلا مطالبہ امریکی اور نیٹو افواج کیلئے سپلائی کی بحالی ہے وفاقی کابینہ نے یہ مطالبہ فوری طور پر منظور کرلیا ہے دوسرا مطالبہ پاکستانی فضائی حدود کا استعمال اور خلیج میں ساحل بلوچستان کے قریب امریکی بحری بیڑے کو لنگرانداز ہونے کی اجازت ہے تاکہ انخلا کی حفاظت کی جاسکے تیسرا مطالبہ ایک دو ایئربیس استعمال کرنے سے متعلق ہے توقع یہی ہے کہ یہ تمام مطالبات کسی چوں چراں کے بغیرمان لئے جائیں گے جیسے کہ جنرل پرویز مشرف نے آنکھیں بند کرکے مان لئے تھے امریکی صدر بائیڈن کوفکر ہے کہ انخلا کے دوران کوئی گڑبڑ یاانہونی نہ ہوجائے انخلا کے بعد اس کی کوشش ہوگی کہ طالبان ممکنہ افغان انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہوجائیں اگر انکو کامیابی ملی تو اقتدار کی پرامن منتقلی ہوسکتی ہے اور اگرطالبان نے انتخابات میں حصہ نہ لیا یاانہوں نے نتائج تسلیم نہ کئے تو ایک خوفناک خانہ جنگی منتظر ہوگی آثار بتارہے ہیں کہ عبوری مدت کیلئے اشرف غنی انڈیا سے مدد طلب کریں گے لیکن امکانی طور پر انڈیا افغانستان میں کوئی بڑا کردارادا نہیں کرسکے گا کیونکہ حالات اسکے حق میں نہیں ہیں اگر اشرف غنی نے کچھ ایسا کیا تو طالبان اور اس کے پاکستانی اتحادی افغان حکومت اور اس کی فورسز کاحشر نشر کردیں گے۔
یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ صدر بائیڈن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرے گا اس مقصد کیلئے یو اے ای کو کردار سونپا گیا ہے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے خفیہ مذاکرات کی تردید کی تھی لیکن یو اے ای جاکر انہیں اعتراف کرنا پڑا دراصل مودی نے کشمیر میں جو کچھ حاصل کرنا تھا کرلیا جبکہ پاکستان کو کچھ ملنے والا نہیں ہے لہٰذا سوچا گیا ہے کہ بلاوجہ کی کشیدگی اور تناؤ کاکوئی فائدہ نہیں ہے بہتر ہے کہ بھارت سے تجارت کی جائے۔پاکستانی بڑوں کی مرضی ہے کہ کبھی بھارت کو اذلی دشمن قراردیں اور پھر یوٹرن لیکر اس سے تعلقات بڑھائیں غریب عوام کا کیا انہیں جو کہا جائیگا وہ مان لیں گے کیونکہ ریاست میں عوام جس مخلوق کا نام ہے اسے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے نہ اس کے ووٹوں کی دقعت ہے اور نہ ہی اس کی مرضی اور منشا کو اہمیت دی جاتی ہے تمام فیصلے ”رولنگ ایلیٹ“ کرتی ہے اور اس اشرافیہ کو آج تک اپنے غلط فیصلوں پر کوئی افسوس اور پشیمانی نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس بات کی پرواہ ہے کہ وہ دنیا کی چھٹی بڑی ریاست کو کسی مقام پر لے آئے ہیں ظاہر ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں عام پبلک کی کیا اہمیت ہوگی جو صاحب رائے لوگ ہیں فیصلے کااختیار انہی کو ہے چاہے وہ سیاہ کریں یا سفید کریں عوام کو پوچھنے کا حق حاصل نہیں ہے بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کا ادارہ ناکارہ ہوگیا ہے سیاسی جماعتوں کا یہ حال بنادیا گیا ہے کہ کوئی بڑی این جی او اورکوئی چھوٹی این جی او بن کر رہ گئی ہے۔اپوزیشن بھی برائے نام اور نام نہاد ہے جو سب سے بڑی جماعت ہے ”ن لیگ“ اسکے بارے میں بڑوں نے کہا ہے کہ ہم نے اسے کئی مواقع دیئے لیکن وہ اپنے بوجھ سے خود گرگئی ہے یہی بات انہوں نے تحریک انصاف کے بارے میں کی ہے اور کہا ہے کہ ہم اسے وقت سے پہلے گرانا نہیں چاہتے اگر وہ اپنے بوجھ سے خود گرگئی تو اس میں ہمارا کیا دوش یعنی تحریک انصاف سے پہلے ن لیگ کو تین بار کنگز پارٹی کا درجہ دیا گیا اس سے مایوسی کیوں ہوئی یہ صرف بڑے ہی جانتے ہیں اگر ن لیگ صحیح اپوزیشن کا کردارادا نہ کرے تو اس سے گلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی سرشت میں حکومت مخالفانہ تحریک شامل نہیں ہے لیکن افسوس کہ پیپلزپارٹی بھی ن لیگ جیسی ہوگئی ہے اس نے اپنا روایتی سیاسی کریکٹر قربان کردیا ہے وہ اب ایک مزاحمتی تحریک نہیں رہی اس کے پروگرام میں محنت کشوں،کسانوں اور چھوٹے سرکاری ملازمین کی حمایت کاباب ختم کردیا گیا ہے وہ مصالحت اورمصلحت سے کام لے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ملک گیر جماعت سے بدستور سکڑتی جارہی ہے پیپلزپارٹی کی طرح پشتونخواء اور بلوچستان کی جماعتوں کوبھی زبردستی کنٹرول کرکے انہیں مذاق بنادیا گیا ہے یہ قوم پرستی کی اصطلاح استعمال کررہی ہیں لیکن مقتدرہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے سیاسی تو کجااہل بلوچستان کا فوری مسئلہ یہ ہے کہ انہیں زندہ رہنے کا حق دیاجائے گزشتہ کئی عشروں سے بلوچستان میں ایک انسانی المیہ موجود ہے جس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ادھر فاٹا کو پشتونخواء میں شامل کردیا گیا ہے لیکن اس کے لوگوں سے ابھی تک براری کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا لہٰذا جو حقائق ہیں وہ یہی ہیں کہ ایک ہائبرڈ گماشتہ سسٹم چلتا رہے گا عوام پارلیمنٹ اور آئین کی بجائے شخصی فیصلوں کو بالادستی حاصل رہے گی تاوقتیکہ کوئی بڑی انہونی نہ ہوجائے چونکہ ہمارا ماڈل اور آئیڈیل چین، سعودی عرب اور ترکی ہیں جہاں عوام کو ایسی مخلوق سمجھاجاتا ہے جن کی ضرورت محض پیٹ بھرنا ہے ان ممالک میں انسان کو اشرف المخلوقات نہیں سمجھا جاتا بادشاہ صدر یااداروں کو”حکم الامر“ کی حیثیت حاصل ہے لہٰذا اس ریاست میں کبھی جمہوریت نہیں آسکتی اور نہ ہی پارلیمنٹ اور آئین کو اہمیت دی جائے گی پس لوگوں کو چاہئے کہ وہ ”پیٹ بھرنے“ کواولین ترجیح سمجھیں کیونکہ ایسے حالات میں پیٹ پرستی ہی بڑی کامیابی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں