کرپشن،کرونا اور مہنگائی

پاکستان کوآج جو مسائل درپیش ہیں ان میں سرفہرست کرپشن (بچاؤ)ہے ورنہ 11اراکین قومی اسمبلی اور 19اراکین پنجاب اسمبلی پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کی حمایت میں وزیر اعظم عمران خان کے پاس فریادی بن کر نہ جاتے۔مذکورہ اراکین گزشتہ کئی ہفتوں سے وزیر اعظم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ تک پہنچانے اور اعتماد کا ووٹ دلوا کر اس عہدے کو بچانے کا سہرا جہانگیر ترین کے سر ہے۔مستقبل کے حوالے سے انہوں پورے وثوق سے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ اجلاس میں سب کو معلوم ہو جائے گا حکومت بنانا اور بچانا کس کا کارنامہ ہے؟دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملاقات سے ایک روز قبل ہی مطالبہ کیا:یہ تیتر بٹیر والا کھیل بند کرو، رہنا ہے تو رہنے والوں میں اٹھو بیٹھو، اور جانا ہے تو چلے جاؤ۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک بار پھر یاد دلایا کہ حکومت اگر کل جاتی ہے تو آج ہی چلی جائے،مافیاز سے لڑائی نہیں رکے گی۔اقتدار میں رہنے کے لئے حق کاساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ایف آئی اے کی تحقیقات نہیں روک سکتا۔ انہوں نے ملاقاتیوں سے پوچھاچینی کی اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کیا ہمیں پوچھنے کا حق نہیں؟ البتہ یہ یقین دلایا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔کمیشن بنانے کی درخواست وزیر اعظم نے مسترد کر دی کہ اس سے یہ تأثر جائے گا دوسروں کے ایک فارمولہ ہے اور اپنے کے لئے دوسرا! نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی ہمدردیاں جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں،ان کی نگاہ میں عمران خان نے اپنی دوستی کاحق ادا نہیں کیا۔ مریم نوازکا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین نے ابھی اپنے آدمی شو نہیں کئے،ان کا گروپ بہت بڑا ہے۔ ویسے بھی وزیر داخلہ شیخ رشیداحمدہر دوسرے ٹی وی ٹاک شو میں یاد دلانا نہیں بھولتے کہ پی ٹی آئی صرف عمران خان کا نام ہے، عمران خان سے شروع ہوتی ہے اور عمران خان پر ختم ہوتی ہے۔یہی حال مسلم لیگ نون اور پی پی پی کا ہے۔شریف اور بھٹو فیملی نکل جائے پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔نون لیگ نواز شریف کا نام ہے اور پی پی پی بھٹو خاندان کا نام ہے۔ بلاول اور زرداری کے بیچ میں ’بھٹو‘ اسی مجبوری کا مظہر ہے۔نواز شریف جب ہری جھنڈی لہراتے ہیں حکومت گراؤ تحریک شروع ہو جاتی ہے اور جیسے ہی سرخ جھنڈی لہراتے ہیں تحریک رک جاتی ہے، دوسرے درجے کی قیادت کے نعرے تبدیل ہو جاتے ہیں،یوں لگتا ہے جیسے نون لیگ ’حکومت بچاؤ‘ تحریک چلا رہی ہے۔بعض مبصرین رویہ کی تبدیلی کو کرپشن بچاؤ نفسیات کا حصہ سمجھتے ہیں،جو سیاست دانوں کو یکجا کرتی ہے،ان کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ عمران خان کا مزاج روایتی سیاسی گھرانوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ اول و آخر سوشل ریفارمر ہیں،نچلے طبقے کو معاشی پسماندگی سے نکال کر معاشی آسانیاں فراہم کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔لنگر خانے، پناہ گاہیں،احساس کفالت،صحت کارڈ اور کسان کارڈ اسی سوچ کو آگے بڑھانے کا عملی مظاہرہ ہے۔مولاناعبدالستار ایدھی دنیا میں سب سے زیادہ ایمبولنس رکھنے والی عالمی تنظیم ورثے میں چھوڑ کر گئے ہیں، دہائیوں سے یہ ریکارڈ اسی ادارے کے پاس ہے۔ عمران خان خود کہتے ہیں انہیں ہر طرح کی دنیاوی آسائش حاصل تھی،شہرت انہیں پہلے ہی مل چکی تھی۔شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے ان کی روحانی تسکین کے لئے کافی تھے۔کرپشن کے خلاف جدوجہدان کا آخری مشن ہے۔وزیر اعظم رہیں یا نہ رہیں یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔جہانگیر ترین کی چھتری تلے جمع ہونے والے طاقت کا سر چشمہ جہانگیر ترین کو سمجھتے ہیں اور انہیں ذہنی آسودگی بھی وہیں ملے گی۔وہ جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر کو وزارت عظمیٰ کی سیڑھی مانتے ہیں۔گزشتہ چار دہائیوں کی سیاست موقع پرستی کی سیاست رہی،اس دوران جن لوگوں نے سیاست کی وہ موقع پرستی کو سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں کہ کتنے بڑے خسارے کاسودا کر رہے ہیں۔کرپشن کے الزامات اٹھائے شخص سے یہ نہیں کہتے:”عدالتوں میں اپنی صفائی کے شواہد پیش کرو“۔بلکہ اسے اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہر پیشی پر عدالت جاتے ہیں۔ اپنی پسند کا کمیشن بنوانے کی خواہش رکھنے والے شخص کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کو چاہیئے کہ ایک نظر عالمی منظر پر بھی ڈالیں۔برطانیہ کے وزیر اعظم لندن میں مجرموں کا بڑھتااجتماع دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ دنیا ہمیں طعنہ دے رہی ہے؛ برطانیہ مجرموں کی جنت بن گیاہے۔واضے رہے اس اجتماع میں زیادہ چہرے جانے پہچانے ملیں گے۔جہانگیرترین کا شمار بھی انہیں کیا جائے۔مہنگائی اور کرپشن ایک دوسرے کے کزن یا جڑواں بھائی ہیں۔کرپشن تمام سماجی بیماریوں کی جڑ ہے،ادارے تباہ کر دیتی ہے۔اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیتی ہے۔تاہم یہ دیکھ کر اچھے دنوں کی امید بندھتی ہے کہ دنیا میں آج کرپشن ناپسندیدہ عمل سمجھی جاتی ہے۔اس لئے جہانگیر ترین جیسے لوگوں کو فیصلہ کرنا ہو گا پارسائی کے دعویدار ہیں تو اپنی پارسائی عدالت کے روبروثابت کریں،اس پر پھول نچھاور کئے جائیں اور اگر یہ نہ بتا سکیں ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا تھا،تو ان کے گرد جھمگٹا لگانے والے نہیں اپنے اعمال کا کفارہ ادا کرنے کے لئے تنہاجیل روانہ کر دیں۔کرپشن کے برعکس کرونا قدرتی آفت ہے، سیانے کہہ گئے ہیں جب آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے تو قدرت توازن برقرار رکھنے کے لئے ایسی ہی کوئی آفت بھیج دیتی ہے۔برطانیہ،امریکہ اور دیگر ملکوں کے بعد بھارت میں کورونا کی تباہ کاری دیکھ کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔امریکی میڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کورونا کے 50کروڑ کیسز اور روزانہ ہلاکتیں 13ہزار تک جا سکتی ہیں۔اس وقت بھی صورت حال حد درجہ خراب ہے،مریض رکشوں، گاڑیوں میں دم توڑنے لگے، ڈاکٹر،نرسیں تھک گئے۔ہلاکتیں 2لاکھ سے بڑھ گئیں۔لیکن سچ یہ ہے کہ کرپشن کورونا سے بڑا عذاب ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا بے قابو ہوتا نظر آتا ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور وہیں کورونا نے مورچہ لگا لیا ہے۔عوام ماسک جیب میں ڈالے گھومتے ہیں، منہ پر نہیں لگاتے۔ماکیٹوں میں ہجوم امڈآتا ہے۔حفاظتی فاصلہ ممکن ہی نہیں۔حکومت کے اعلانات اور ہدایات پر عمل نہیں کیا جارہا۔عید کی تعطیلات بڑھانے اور ٹرانسپورٹ بندرکھنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔لیکن عوامی تعاون کے بغیر کورونا کو پیچھے دھکیلنا ممکن نہیں۔عوام تعاون کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں