پنجاب سے پہلاغدار

تحریر: انورساجدی
تین دن میں بڑے واقعات ہوئے ہیں شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایم این اے میاں جاوید لطیف کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے غالباً وہ پنجاب کے پہلے رکن پارلیمنٹ ہیں جنہیں غدار کا ٹائٹل دیا گیا ہے دوسرا واقعہ جہانگیر ترین گروپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہے فریقین نے ملاقات کے بعدالگ الگ مگر متضاد بیانات دیئے مثال کے طور پر وزیراعظم کے ترجمان فوادچوہدری نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ وہ جہانگیر ترین ہوں یا کوئی اور کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کریں گے جبکہ راجہ ریاض نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کی ازسرنوتحقیقات کا حکم دیا ہے اور سینیٹرعلی ظفر کوذمہ داری سونپی ہے رات گئے معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے نہ صرف دباؤ قبول کیا ہے بلکہ جہانگیر ترین کیخلاف کارروائی روک کرایک طرح سے جھک گئے ہیں کیونکہ جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے اندر الگ گروپ بنالیا ہے جب اس گروپ کا وزن زیادہ ہوگا تو پی ٹی آئی کی حکومت اس وزن کی وجہ سے گرجائیگی حال ہی میں ایک اعلیٰ ترین شخصیت نے فرمایا تھا کہ ہم کسی کو گرانا نہیں چاہتے تاہم بعض اوقات حکومتیں اپنے وزن سے گرجاتی ہیں یعنی انہوں نے فارمولہ بتادیا تھا لہٰذا عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان ٹکراؤ بڑھ جائے تو امپائر جس کیخلاف اپنا وزن ڈالیں گے وہ گرجائے گاجہاں تک میاں جاوید لطیف کی گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کیونکہ ابتک غداری کے تمغے بلوچستان،پختونخوا اور سندھ کے حصے میں آئے ہیں یہ پہلا واقعہ ہے کہ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار وسطی پنجاب کی سرزمین سے کسی سیاسی شخصیت کو غداری کا ٹائیٹل دیا گیا ہے جاوید لطیف جب2018ء کو ایم این اے منتخب ہوئے تھے تو انہیں ملک میں کوئی نہیں جانتا تھا تاہم جب وہ تواتر کے ساتھ ٹی وی شوز میں آکر بولتے تو محسوس ہوتا تھا کہ ان کا بیانیہ دلیرانہ انداز بیان پنجابیوں والا مگر مختلف ہوتا تھا وہ پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کے ساتھ بحث میں حصہ لیتے تھے اور عام طور پر کامیاب ہوتے تھے۔
ہوا یوں کہ
کچھ عرصہ پہلے ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف نے لندن سے ایک بیان جاری کیا کہ انکی بیٹی مریم نواز کودھمکی آمیز فون کالز آرہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے انہوں نے چند شخصیات کا نام لیکر کہا تھا کہ اگر مریم نواز کو کچھ ہوا مذکورہ شخصیات ذمہ دار ہونگی اسی دوران ن لیگ سوشل میڈیا ونگ نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ کسی نے کہا ہے کہ مریم نواز کو کچل دو یا اس کا قصہ تمام کردو اس واقعہ کے فوراً بعد جاوید لطیف میدان میں آئے اور انہوں نے بینظیر کے قتل کے تناظر میں کہا کہ اگر ہماری لیڈر شپ کوکچھ ہوا
تو ہم صرف پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے بلکہ ذمہ داروں کیخلاف سخت ردعمل دیں گے
میاں جاوید لطیف نے کہا کہ 18 اکتوبر 2007ء کووطن واپسی سے قبل بینظیر نے نشاندہی کی تھی کہ فلاں فلاں شخصیات سے ان کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ ان کا تحفظ کرتی لیکن یہ ذمہ داری پوری نہیں کی گئی نہ صرف یہ بلکہ بینظیر کے ورثا نے ان لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جنہیں بینظیر نے نامزد کیا تھا ان کا اشارہ ق لیگ کی جانب تھا جس کے لیڈر پرویز الٰہی کو زرداری نے ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا تھا شواہد موجود ہیں کہ زرداری نے حکومت لینے اور چلانے کی خاطر بہت زیاہ مصلحت سے کام لیا تھا کئی مشکوک کردار ان کی حکومت کا حصہ بنے تھے اور عجیب بات ہے کہ انہوں نے ایک مشکوک کردار کو اپنا وزیرداخلہ بنایا تھا جس نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو پہلے سے ایک تحریر تھمادی تھی کہ یہ آپ کی رپورٹ ہونی چاہئے ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کافی عرصہ بعد معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ محترم کی موت کس ہتھیار سے ہوئی یہ درخواست نہیں کی گئی تھی کہ ان کے بھیانک قتل کے محرکات او اسباب وعوامل کی تحقیقات کی جائے۔
محترم کے قتل کے بعد غالباً 28دسمبر کونوڈیرو میں پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کااجلاس ہوا تھا جس کے اختتام پر زرداری نے مشہورنعرہ ”پاکستان کھپے“ لگایاتھا۔یہ ایک بڑا نازک دور تھا بینظیر کے قتل کے بعد سندھ کے طول وعرض میں شدید ردعمل ہوا تھا اور مشتعل لوگوں نے گھیراؤ جلاؤ کے ذریعے املاک کو نقصان پہنچایا تھا راولپنڈی،کراچی،حیدرآباد اور پنوعاقل میں ریاست الرٹ تھی کیونکہ ایسی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ شائد زرداری ”نہ کھپے“ کا نعرہ لگائے لیکن زرداری نے سوچ سمجھ کر کھپے کا نعرہ لگایا وہ جانتے تھے کہ اس کے بغیر اقتدار نہیں ملے گا بلکہ سوئے دار جانا پڑے گا چنانچہ انہوں نے ”کوئے یار“ کاانتخاب کیا جوان کا مقصد اور منشا تھا چنانچہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملا اور اس وقت سے اب تک پیپلزپارٹی سندھ میں حکمران ہے اپنے مشہور نعرہ کے باوجود کبھی طاقتور حلقوں نے زرداری کو محب وطن تسلیم نہیں کیا بلکہ میمواسکینڈل کھڑا کرکے انہیں غدار قراردیا گیا لیکن مصلحت سے کام لیکر تحقیقاتی رپورٹ میں ان کی جان بخشی کی گئی میمواسکینڈل کے مدعی میاں نوازشریف بنے کیونکہ اگلی باری لینے کیلئے ان کے سامنے یہ شرط پیش کی گئی تھی حال ہی میں ملک کے اصلی حکمران نے واضح طور پر کہا ہے کہ گزشتہ انتخاب نوازشریف اور موجودہ عمران خان ہیں زرداری کے پیچھے چوہدری افتخار کو بھی لگایا گیا جو ہرروز ”سوموٹو“ لیکر حکومت کو چلنے نہیں دیتے تھے غالباً کسی کے کہنے پر انہوں نے شریف فیملی کے تمام مقدمات کو یک جاکرکے انہیں تمام مقدمات سے بری کردیا تھا حتیٰ کہ ضبط کی گئی کروڑوں روپے بھی اس خاندان کو لوٹائے افتخار چوہدری نے زرداری کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو بھی بے عزت کرکے عہدے سے فارغ کردیا۔
2013ء کو جب نوازشریف وزیراعظم بنے تو وہ1997ء کے بعد اقتدار میں آئے تھے یہ طویل وقفہ تھا جوں جوں صورتحال انکے سامنے کھلتی گئی تو انہوں نے ایک اسٹینڈلینے کافیصلہ کیا انہوں نے آزادانہ خارجہ اختیارکرنے کی کوشش کی اور بھارت سے تعلقات بہتربنانے کاسوچا لیکن جس طرح کہ مشرف نے اس کی اجازت نہیں دی تھی انکے جانشینوں نے بھی وزیراعظم کے بااختیار ہونے کی کوششوں کوپسند نہیں کیا پہلے انکے خلاف ”ڈان لیکس“ کااسکینڈل بنایا گیا حالانکہ نوازشریف نے ایک میٹنگ کے دوران یہ کہا تھا کہ اگر ہم نے اپنے گھر پر توجہ نہ دی تو ہم دنیا میں تنہا رہ جائیں گے اور دنیا ہمارے بات نہیں سنے گی ان خیالات کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا واضح رہے کہ اپنے دور کے تیسرے اقتدار میں نوازشریف بدل چکے تھے انہوں نے نریندر مودی کو رائے ونڈ بلایا تھا لیکن اس دورہ کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا چنانچہ حکومت ملنے کے صرف ایک سال بعد عمران خان کو تراش خراش کرسلیکٹ کیا گیا انہوں نے2014ء کو پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرکے طویل دھرنا دیا عمران خان نے نوازشریف اور زرداری کے کرپشن کومدعا بنایا اور ایک پاورفل بیانہ ایستادہ کردیا۔لیکن حادثات وواقعات نے یہ دھرنا ناکام بنادیا اس مہم کی ناکامی کے بعد پانامہ کااسکینڈل لایا گیا اور نوازشریف پرایون فیلڈ کے اپارٹمنٹ اور ہائڈ پارک ون کے فلیٹ کی منی لانڈرنگ اور رشوت کے پیسوں سے خریدنے کا الزام عائد کیا گیا بالآخر عدلیہ کے ذریعے انہیں سزا دے کرجیل میں ڈال دیا گیا اس طرح2018ء کے انتخابات میں عمران خان کیلئے راہ ہموار کی گئی اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ نوازشریف تو اقتدار سے چلے گئے عمران خان کیا کریں انہوں نے کرپشن کے بیانیہ کو جاری رکھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے ساتھ آنے والے بیشترالیکٹیبل کرپٹ تھے اور وہ ہر حکومت میں شامل ہونیوالے دائمی لوٹے تھے جہانگیر ترین کی مثال سامنے ہے خسروبختیار اور خاندان بھی اس قبیلہ سے تعقل رکھتے تھے جنہوں نے حکومت کو دھوکہ دے کر پہلے چینی کی قلت پیدا کی پھر چینی درآمد کی اس کے بعد فاضل پیداوار ظاہر کرکے برآمد کی اس طرح ایک گورکھ دھندا چلایا گیا جس سے اس گروپ نے کھربوں روپے کمائے اسی طرح گندم کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا ایک دفعہ گندم باہر فروخت کردی گئی جب قلت پیداہوئی تو لاکھوں ٹن زیادہ قیمت پر منگوائی گئی اب یہ عالم ہے کہ دینا کا 10واں بڑا زرعی ملک گندم چینی اور روئی باہر سے منگوانے پر مجبور ہے اس طرح عمران خان پر دباؤ بنایا گیا اسی دوران جب عمران خان نے دیکھا کہ ان کی ڈھائی سالہ قابل فخر کارکردگی تو زیرو ہے اس لئے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے انہوں نے زرداری اور ن لیگ کیخلاف نئے مقدمات بنائے چینی کمیشن بھی بنایا گیا ان کا مقصد صرف عوام کی توجہ حکومتی کارکردگی سے ہٹانا تھا جاوید لطیف کی غداری کے الزام میں گرفتاری ہو یازرداری کیخلاف8ارب کے نئے ریفرنس کی سلسلہ تیز کردیا گیا ہے لیکن اصل مسائل جوں کے توں ہیں ہوسکتا ہے بہت جلد رانا ثناء اللہ سردار ایاز صادق اور احسن اقبال کو بھی دھرلیا جائے تاکہ سیاسی شور شرابہ زیادہ ہو اور لوگ ہنگامی اورقیمتوں کو بھول کر اس طرف دھیان دیں۔
جہاں تک جاوید لطیف پر غداری کے الزام کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ بار کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ان پر غداری کا مقدمہ نہیں بنتا وہ اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجائیں گے اگر حکومتی الجھنیں بڑھ گئیں تو سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو بھی دھرلیاجائیگا حکومت جو بھی کرے اس کی کارکردگی تو اسی طرح رہے گی وہ دعوے سے قابل فخر تو نہیں بن سکتی اور اگر ”گھر کے اندر“ اختلاف زیادہ ہوگئے تو جہانگیر ترین کا گروپ مزید وزنی ہوجائیگا اور اگر یہ وزن حکومت پر گرادیا گیا تو وہ گرجائیگی لیکن شائد اس کی نوبت نہ آئے کیونکہ کوئی متبادل دستیاب نہیں ہے صرف کان کھینچ کر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے چلی آرہی روایت ہے وزیراعظم نے شروع میں خود کو بھٹو سمجھ کر عالمی قد کاٹھ کی شخصیت بتانے کی جو کوشش کی تھی وہ اب اس سے تائب ہوگئے ہیں ان کا جو واحد مقصد رہ گیا ہے وہ اپنی باقی کے دوسال پورے کرنے ہیں ان کے سارے دعوے ارادے اور تبدیلی کے نعرے ہوا ہوگئے ہیں البتہ مزید ہلچل پیدا کرنے کیلئے محترمہ مریم نوازکو بھی گرفتار کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے اوپر سے اجازت لینے پڑے گی محترمہ کی گرفتاری سے اچھا خاصا ہنگامہ مچے گا اور پنجاب کے لوگ اپنے مسائل بھول کر زندہ باد مردہ باد کے گردان میں مصروف ہوجائیں گے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے میاں جاوید لطیف کوراتوں رات ایک بڑا لیڈر بنادیا ہے پہلے انہیں صرف ن لیگی حلقہ جانتا تھا لیکن گرفتاری کے بعد جوں جوں انکا مقدمہ آگے بڑھے گا وہ زیادہ مشہور ہوجائیں گے اگرپھانسی نہ چڑھے تو ان کا قدکاٹھ اور بڑھ جائیگا اور اگر معافی نہیں مانگی جیسے کہ انہوں نے اعلان کیا ہے تو ان کا اور کوئی مدمقابل نہیں ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں