سات سمندر پار

تحریر: انور ساجدی
قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یایوں کہا جاسکتا ہے اس کی مثال اس سے پہلے موجود نہیں ہے یہ فیصلہ حکومت پر بجلی بن کر گرا ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرے اور کیسے اس کا ازالہ تلاش کرے حالانکہ مقدمے کے دوران یہ ثابت ہوچکا تھا کہ جج صاحب کی اہلیہ نے لندن میں ایک سے زائد فلیٹ خریدے تھے لیکن فیصلے کے مطابق یہ ثابت نہ ہوسکا کہ انہوں نے فلیٹوں کی خریداری میں کوئی بے قاعدگی کی تھی اگرچہ منی ٹریل موجود تھا لیکن یہ ثبوت نہیں تھا کہ لاکھوں ڈالر کہاں سے آئے محترمہ سرینا قاضی اسپین کی شہری ہیں لیکن انہوں نے اپنے اصلی ملک کی بجائے مستقبل کیلئے لندن شہر کا انتخاب کیا غالباً جب قاضی صاحب اپنے منصب سے ریٹائرہونگے تو فراغت کی زندگی اپنے خاندان سمیت لندن میں گزاریں گے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کہ برصغیر سے تعلق رکھنے والے اکثر صاحب ثروت لوگ اپنے سابق آقا کے پایہ تخت لندن کو پسند کرتے ہیں اور وہیں مہنگی جائیدادیں خریدکر پرسکون زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں اس وقت سینکڑوں یا ہزاروں ایسے پاکستانی ہیں جنہوں نے لندن کے پوش علاقے کو اپنا مسکن بنا کر رکھا ہے ایک طویل فہرست ہے اس میں جنرل پرویز مشرف آفتاب شیرپاؤ،جہانگیر ترین،رحمن ملک،علیم خان،شوکت عزیز اور شریف فیملی شامل ہے۔
میاں نوازشریف کو لندن اتنا پسند ہے کہ وہ رائے ونڈ کی اپنی وسیع وعریض جاگیراور مغلئی محلات کی بجائے ایون فیلڈ کے فلیٹ میں رہنما زیادہ پسند کرتے ہیں انہوں نے کئی فلیٹوں کویک جا کرکے لندن کے سب سے مہنگے ڈیزائنر سے ایک فلیٹ آراستہ کیا ہے حالانکہ بنیادی طور پر ان کے ایک فلیٹ کا رقبہ محض8سوفٹ ہے اگرچارکو ملادیاجائے تو یہ رقبہ3200فٹ بنتا ہے لندن جیسے شہر میں یہ شاہانہ رہائش ہے کیونکہ جس جگہ یہ فلیٹ واقع ہیں وہاں پر زمین کا ریٹ ایک گز نہیں ایک فٹ نہیں بلکہ ایک انچ ایک لاکھ روپے کا ہے اس طرح اس علاقے میں اتنی بڑی اور پرتعیش رہائش کا حصول دنیا بھر کے لوگوں کیلئے ایک خواب ہے پاکستانی وزیراعظم عمران خان گزشتہ چند روز سے متواتر نوازشریف کے لندن کے فلیٹوں کا ذکر کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم بھی اس علاقہ میں جائیداد خریدنے کا سوچ نہیں سکتے ان کی بات درست ہے لیکن اس علاقہ میں خود ان کا ایک بیڈروم کا فلیٹ بھی تھا جو ان کے دعوے کے مطابق وہ 6لاکھ پاؤنڈ میں فروخت کرچکے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم راجیوگاندھی کے دور کی بات ہے کہ انہوں نے سوئیڈن سے جوبورس گنیں یعنی توپیں خریدی تھیں یہ کروڑوں ڈالر کا سودا تھا اس سودے کا انتظام بھارت کے ایک مشہور رئیس خاندان ہندوجا برادرز نے کیا تھا خریداری کے بعد سوئیڈن کی فرم نے یہ خبر لیک کی تھی کہ سودے میں لاکھوں ڈالر کا کمیشن وصول کیا گیا تھا خبر عام ہونے کے بعد راجیوگاندھی پر کرپشن کا الزام لگا تھا اور یہ باقاعدہ ایک اسکینڈل بن گیا تھا راجیوگاندھی کے قتل کے بعد ہندوجا برادرز لندن فرار ہوئے تھے جہاں انہوں نے شہریت کی درخواست دی تھی یہ ٹونی بلیرکا زمانہ تھا ٹونی بلیر نے اپنے امیگریشن کے وزیرسے کہا تھا کہ ہندوجا برادرز کا کیس جلدی نمٹایاجائے اس وقت کیس فائنل ہونے میں 6ماہ باقی تھے چنانچہ وزیر نے کام کردیا لیکن فوری طور پر ایک پریس کانفرنس بلا کر مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور الزام عائد کیا کہ وزیراعظم نے ان پر دباؤ ڈالا تھا بعدازاں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ ٹونی بلیر نے ہندوجا برادرز سے ساڑھے چھ لاکھ پاؤنڈ بطور رشوت وصول کئے ہیں اگرچہ یہ الزام ثابت نہ ہوسکا البتہ کچھ عرصہ کے بعد ٹونی بلیر نے برسٹل شہر کے پوش علاقہ کلفٹن میں دوفلیٹ خریدے تھے دونوں کی مالیت ساڑھے6لاکھ پاؤنڈ بنتی تھی یعنی رشوت کے بغیر برطانوی وزیراعظم بھی ساری عمر بے گھر رہتے اور کرایہ کے مکانوں میں دربدر ہوتے ٹونی بلیر کی یہ جائیداد آج بھی موجود ہے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نواب رئیسانی کے دور میں ریکوڈک کیس میں ٹونی بلیرکی اہلیہ شیری بلیر کی بطور وکیل خدمات حاصل کی گئی تھیں یہ خاتون کوئی پائے کی وکیل نہیں تھی معلوم نہیں کہ کس کی سفارش پر انہیں ہزاروں پاؤنڈ دے کر وکیل رکھا گیا تھا ایسے ہی وکلا کی وجہ سے پاکستان یہ کیس ہارگیا تھا۔
ریکوڈک کامعاملہ ایک لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح ہے جس کا عالمی ثالثی عدالت سے حتمی فیصلہ آچکا ہے اور فریقین آؤٹ آف کورٹ مفاہمت کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ہرجانہ کی رقم کم دیناپڑے۔
برطانیہ اس لئے پاکستانی روسا کو پسند ہے کہ وہاں پر زبان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے انگلینڈ کی پہلی بڑی زبان ظاہرہے کہ انگلش ہے مشہور ہے کہ اگر کسی کو پنجابی آئے تو اسے انگلینڈ میں کوئی دقت نہیں ہوگی کیونکہ وہ برطانیہ عظمیٰ کی دوسری بڑی زبان ہے پاکستان اورانڈیاکو ملاکر کل20لاکھ پنجابی انگلینڈ میں مقیم ہیں بریڈ فورڈ شہر میں پنجابیوں کی تعداد نصف ہے اور وہاں جاکر گماں ہوتا ہے کہ آپ لاہور میں گھوم رہے ہیں سارے بزنس ہوٹل اور شاپس پنجابیوں کے ہیں ہر طرف پنجابی زبان سننے کو ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف لندن میں خوش وخرم رہتے ہیں ایک تو فضا قاتلانہ ہے غذا خالص ہے اور پاکستان سے زیادہ خوراک کی ورائٹی وہاں پر موجود ہے ایک مرتبہ ہائڈ پارک کی سیر کرتے ہوئے ہمیں بھوک گلی تو میاں صاحب کے گھر کے قریب ایک عراقی ریستوران پرنظر پڑی ہم اس کے اندر چلے گئے ریستوران عربوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا میزوں پر سالم بکروں کی سجی یاکھڈی کباب سجائے جارہے تھے گوشت کے انواع و اقسام کے کھانے تھے جن کا پاکستان میں تصور نہیں کیاجاسکتا ہرملک کے کھانے موجود ہیں لبنان کے نان بہت مقبول ہیں جبکہ ایجوئیر روڈ عربی کھابوں کا بہت بڑا فوڈ اسٹریٹ ہے جب جنرل مشرف صحت مندتھے تو ان کھانوں سے ضرور استفادہ کرتے ہونگے جن کے اوپر ان کا فلیٹ ہے البتہ رحمن ملک تو بلا کے کنجوس ہیں جب محترمہ بینظیر جلاوطن کی زندگی گزاررہی تھیں تو وہ اجلاس ملک صاحب کے فلیٹ پر بلاتی تھیں یہاں پر کبھی کسی کو کھانا نہیں ملا رحمن اسی فلیٹ کی بدولت محترمہ سے نتھی ہوگئے تھے اورابھی تک پیپلزپارٹی کی جان نہیں چھوڑرہے ہیں حالانکہ ان کا پیپلزپارٹی سے کیا تعلق؟ وہ2007ء میں محترمہ کی واپسی پر ان کے سیکیورٹی انجارج مقرر ہوئے تھے لیکن لیاقت باغ کے جلسے کے دوران اپنی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ دھماکے کے بعد بھاگ کر اسلام آباد گئے جہاں انہوں نے غلط بیان جاری کردیا کہ محترم خیریت سے ہیں انہوں نے دو ادوار سینیٹ میں گزارے۔معلوم نہیں کہ زرداری انہیں کن خوبیوں اور خدمات کی وجہ سے اتنا قریب رکھتے تھے اس وقت زرداری واحد سیاسی لیڈر ہیں کہ ان کالندن میں کوئی فلیٹ نہیں ہے سرے محل ضرور ان سے منسوب تھا لیکن کبھی ثابت نہیں ہوا یہ معلوم نہیں کہ لندن میں محترمہ کا جومعمولی سا فلیٹ تھا وہ ترکہ میں زرداری کومنتقل ہوا کہ نہیں یا یہ بلاول کے حصے میں آیا ہے محترمہ اگرچہ خاندانی رئیس تھیں لیکن وہ شان وشوکت سے نہیں رہتی تھیں سادگی اختیار کررکھی تھی کراچی کا جو بلاول ہاؤس ہے یہ بننے کے بعد مستقل زیرتعمیر ہے کیونکہ بلڈرز جمانی سے اس کی اچھی پلاننگ نہیں کی تھی محترمہ کے بعد زرداری نے اسے ڈھنگ کامکان بنادیا ہے محترمہ کے مقابلے میں زرداری بہت ہی طمطراق سے رہتے ہیں انہوں نے لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں ملک ریاض سے جو محل بنوایا لاہور شہر میں اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اس کا پرتعیش فرنیچر ہی کروڑوں روپے کا ہے زرداری کو یہ سلیقہ میرحاکم علی سے ملاتھا جس کااندازہ پیرس کے نواح میں واقع خوبصورت محل سے لگایا جاسکتا ہے جسے حاکم علی نے خریدا اور زندگی کے آخری ایام اس میں گزارے یہ محل بھی زرداری کو ترکے میں ملا ہے جبکہ برٹش کونسل کراچی کے پاس حاکم علی نے جو دوعالیشان مکانات بنائے تھے وہ بھی زرداری کی ملکیت میں آگئے ہیں یہ مکانات بلاول ہاؤس سے زیادہ خوبصورت ہیں معلوم نہیں کہ حاکم علی نے اپنے چھوٹے بیٹے ”ٹپی“ کو بھی کچھ دیا یا نہیں کیونکہ اپنی زندگی میں وہ انہیں بیٹا ماننے سے انکاری تھے۔
پاکستانی سیاستدانوں میں شہبازشریف اور ان کی چوتھی اہلیہ تہمینہ درانی کو اچھی رہائش کا شوق ہے لندن میں تہمینہ نے اپنا فلیٹ بہت سلیقہ سے سجارکھا ہے اسی شہر میں ان کی پہلی فیملی کاالگ مکان ہے جس پر ابھی تک نیب نے کوئی کیس نہیں بنایا ہے لندن میں میاں نوازشریف کے دونوں صاحبزادے الگ الگ فلیٹوں میں رہتے ہیں جن کی مالیت کئی ملین پاؤنڈ ہے جبکہ محترمہ مریم نواز کا فلیٹ نہیں بہت بڑا محل ہے جس کی دیکھ بھال آج کل انکے صاحبزادہ جنیدصفدر کررہے ہیں مریم کو اس محل کی یاد ضرور ستارہی ہوگی کیونکہ وہ کافی عرصہ سے لندن نہیں گئیں وہ اپنے بھائیوں کے کروڑوں پاؤنڈ کی جائیدادوں کے ٹرسٹ کی سربراہ بھی ہیں ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے کافی کاکام رکے پڑے ہونگے لیکن جب تک ضدی مزاج عمران خان برسراقتدار ہیں وہ مریم کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گے انہیں خدشہ ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح واپس نہیں آئیں گی کیونکہ ان کا سب کچھ باہر ہے پاکستان میں ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جسے مسلسل ظاہری اور مخفی حکمران لوٹ رہے ہیں خاص طور پر جوکسر رہ گئی تھیں وہ موجودہ دور میں پوری ہورہی ہے کیونکہ جہانگیر ترین کا جومحل ہے وہ بہت ہی قیمتی ہے۔علیم خان نے جو چھ فلیٹ خریدے ہیں اس کا تعلق بھی موجودہ دورسے ہے اور تو اور فیصل واؤڈا نے بھی کئی ملین پاؤنڈ کی جائیدادیں خریدی ہیں اپنے وقت کے طاقتور سیاسی عناصر سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بھائی صاحب یہ اربوں کھربوں روپے کہاں سے اکٹھے کئے ہیں آخر وہ دن بھی ضرور آئیگا کہ عمران خان کے تخت سے اترنے کے بعد درجنوں اسکینڈل سامنے آئیں گے اور کرپشن کیخلاف ان کا بیانیہ دفن ہوجائے گا اور لوگ عش عش کراٹھیں گے کہ کرپشن کیخلاف جہاد کے باوجود انکے دور میں بھی وہی ہوا تھا جو سابقہ ادوار میں ہوتا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں