آئی اے رحمن(یکم ستمبر 1930۔ 12 اپریل 2021)

تحریر:شاہ محمد مری
محترم آئی اے رحمن پاکستان کانامور روشن خیال و ترقی پسند صحافی ، لکھاری اور انسانی حقوق کا علمبردارتھا ۔ وہ 12اپریل 2021بروز سوموار 90برس کی عمر میں لاہور میں فوت ہوگیا۔ آئی اے رحمان رند بلوچ تھا ۔اس کا خاندان ہندوستان میں ضلع گڑ گاﺅں کے قصبہ حسن پور میں آباد تھا۔بلوچوں کے اس گاﺅں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو ﺅں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔وہاں کے بلوچوں کی مادری زبان اردو ہے ۔

میری دوستی رحمن صاحب سے شناسائی سے بیس پچیس برس قبل اس کے قریبی رشتہ دار سعید احمد خان سے تھی۔ پکی ، بھائیوں جیسی دوستی۔یہ لوگ پاکستان آکر ملتان کے شجاع آباد ( سُج باد ) مین زمین داری کرنے لگے ۔ سعید احمد خان اپنی پوری زندگی ملتان رہا۔ وہ ہر ویک اینڈ پہ شجاع آباد اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے جاتا۔ عمر کے آخری سالوں میں اپنی زمینیں بیچ کر وہ لاہور شفٹ ہواچونکہ پورا خاندان شجاع آباد آیا تھا اس لیے ابن عبدالرحمن بھی پہلے پہل انڈیا سے ملتان کے شجاع آباد ہی آیا تھا۔ مگر پھر لاہور منتقل ہوگیا۔
سعید احمد کے علاوہ رحمن صاحب کا قریبی ساتھی حسین نقی بھی بلوچستان آشنا ہے ۔ وہ انسان حقوق کے سمیناروں ورکشاپوں کے حوالے سے یہاں آتا رہا ہے۔ رحمن کے دیگر رفقا مثلاًنثار عثمانی اور احمد بشیر سے تو بے شمار ملاقاتیں لاہور میں اُس وقت ہوتی رہیں جب میں تعلیم کے لیے لاہور میں تھا ۔

آئی اے رحمان یعنی ابن ِ عبدالرحمن ،عبدالرحمان خان ایڈووکیٹ کا سب سے بڑا بیٹا تھا ۔ اس نے ابتدائی تعلیم حسن پور کے سکول میں حاصل کی۔ پھر اپنے والد کے پاس پل ول چلا گیا ۔ جہاں سے اس نے میٹرک کیا۔ آئی اے رحمن کے والد نے اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیج دیا۔ یوں وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں انٹر سائنس کا طالب علم ہوگیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی مسلم لیگ کا گڑھ تھی مگر یونیورسٹی میں کانگریس کے حامی اور کمیونسٹ پارٹی سے متاثر طالب علم بھی زیر تعلیم تھے ۔

آئی اے رحمان کی ملاقات کمیونسٹ پارٹی کے رہنما مطلبی فرید آبادی سے ہوئی تھی ، یوں آئی اے رحمن علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے آغاز پر ہی کمیونسٹ نظریے سے بندھ گیا تھا ۔ وہ زندگی بھر اپنے نظریات سے وابستہ رہا ۔جس وقت حسن پور پر مذہبی بلوائیوں نے حملہ کیا تو آئی اے رحمان علی گڑھ یونیورسٹی میں مقیم تھا ۔ اسے ایک سامان فروخت کرنے والے شخص کے ذریعے علم ہوا کہ حسن پور کے مکینوں کو بلوائیوں نے شہید کردیا تھا۔

میرے دوست سعید احمد خان ایڈووکیٹ کا والد اور سارے قریبی رشتہ دار اس فساد کی نذر ہوگئے تھے ۔ آئی اے رحمان نے گاﺅں جانے کے لیے ہاسٹل کے وارڈن سے اجازت طلب کی مگر وارڈن نے مخدوش امن و امان کی صورتحال کی بناءپر اسے ہاسٹل چھوڑنے کی اجازت نہیںدی۔ آئی اے رحمان کے پاس اخراجات کی رقم ختم ہوگئی تھی مگر ہاسٹل وارڈن نے اس سے کہا کہ اب سے یہ اخراجات طلب نہیں کیے جائیں گے۔ ایک ماہ بعد آئی اے رحمن کا والد عبدالرحمان ایڈووکیٹ فوجی ٹرک میں علی گڑھ آیا اور اُسے ساتھ لے گیا۔یوں وہ پاکستان آئے ۔

آئی اے رحمان نے لاہور کے اسلامیہ کالج سول لائنز سے سائنس میں گریجویشن کیا۔ اس نے پنجاب یونیورسٹی سے فزکس میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی مگر فزکس میں آگے بڑھنے کے بجائے وہ صحافت کی طرف آیا ۔ رحمن صاحب نے اپنا پہلا مضمون لاہور سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ آفاق میں لکھا۔ اور یہی صحافت دراصل اُس کی زندگی کا سب سے اہم کام اور صفت رہی ۔ اس نے اپنی طویل زندگانی میں آگے چل کر خواہ جن بھی شعبوں میں شہرت حاصل کی تھی ،مگر وہ پوری زندگی ایک مجسم صحافی ہی رہا ۔

رحمان صاحب نے شاید مطلبی فرید آبادی کے ایماءپر پاکستان ٹائمز میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت عظیم شاعر فیض احمدفیض پاکستان ٹائمز کا ایڈیٹر تھا ۔ مظہر علی خان،احمد ندیم قاسمی، سید سبط حسن ، حمید اختر اور حمید ہاشمی کی قیادت میں ترقی پسند صحافت کے اہم ستون پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز میں موجود تھے ۔ بعد میں معروف دانشور سبط حسن ہفت روزہ لیل و نہار کا ایڈیٹر مقرر ہوگیاتھا ۔
فیض احمد فیض کی زیر نگرانی آئی اے رحمان نے پاکستان ٹائمز کے فلمی صفحے سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ فلموں پر تبصرہ کرتا تھا ۔ اس نے اپنے قارئین کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ فلم ایک موثر ترین ذریعہِ اظہار ہے ۔ آئی اے رحمان واحد مثال ہے جس نے فلمی صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ، اور پھر قومی اور بین الاقوامی مسائل، کلچر، معیشت اور مزاحمتی تحریکوں پر اتھارٹی بن گیا ۔ آئی اے رحمان صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک ہوا۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا اور مظہر علی خان پاکستان ٹائمز کا ایڈیٹر مقرر ہوگیا۔ رحمن صاحب اس زمانے میںپاکستان ٹائمز کے اداریہ لکھنے والی ٹیم میں شامل ہوا۔

آئی اے رحمن 70سال تک ممتاز صحافی رہا۔ وہ فلم ، لٹریچر ، تاریخ ، سیاست او رانسانی حقوق کے لیے لکھتا رہا۔ بہت واضح اور شفاف ۔وہ بہت عرصے سے ڈان کا ریگولر کالم نویس تھا۔ بہت نپے تلے مضامین ۔ لفظ اور اُس کی حرمت کا مکمل خیال رکھنے والا آئی اے رحمن انگریزی صحافت میں بلند ترین کردار تھا ۔ وہ ٹھوس بات کرتا تھا ۔ اعداد و شمار اور حقائق پہ مبنی صحافت ۔ ایک اچھے دانشور کی طرح اس کی یادداشت بہت اچھی تھی ۔وہ صرف جرنلسٹ نہ تھا ۔ وہ تو جرنلزم کی روح تھا ۔ اپنی رائے رکھتا تھا ۔ اور دوسروں کی رائے کا احترام کرتا تھا ۔ اسی لیے وہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے سرگرم علمبرداروں میں سے ایک تھا ۔ وہ 90کی دہائی میں ایچ آر سی پی جوائن کرنے سے پہلے پاکستان ٹائمز کا ایڈیٹر تھا۔ 1978سے 1988تک وہ مظہر علی خان کے ترقی پسند ہفت روزہ ویوپوائنٹ کا ایڈیٹر رہا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ضیا کے زمانے میں یہی ہفت روزہ سیاسی کارکنوں کا استاد ہوا کرتا تھا ۔ پورے ملک کے جمہوری لوگوں کو لاہور کے عوامی جمہوریت اور لاہور ہی کے ویوپوائنٹ کا انتظار ہوتا تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں