کینڈی لینڈ

تحریر: انور ساجدی
میرے خیال میں حلقہ این اے 249 میں اہمیت اس بات کی نہیں کہ پیپلزپارٹی غیر متوقع طور پر یہ نشست جیت گئی ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحریک لبیک نے تحریک انصاف،پی ایس پی اور ایم کیو ایم سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں 2018ء کے انتخابات میں بھی اس جماعت نے سندھ اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کی تھیں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل میں جب بھی انتخابات ہوئے تو یہ جماعت ”بزرگوں“ کے لئے بڑااثاثہ ثابت ہوگی خاص طور پر پنجاب میں ٹی ایل پی کے ذریعے کسی بھی جماعت کو شکست سے دوچار کیاجاسکتا ہے کیونکہ اس کے امیدوار ہر حلقے میں کافی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے اگرخود نہ جیت سکے تو ہروانے میں اہم کردارادا کریں گے حالیہ تحریک پارٹی پرپابندی حافظ سعد رضوی کی گرفتاری سے اس جماعت کی حمایت اور فعالیت میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا اگراسٹریٹجک پارٹنر شپ جاری رہی تو یقینی طور پر یہ جماعت پنجاب میں ق لیگ کی جگہ لے گی حتیٰ کہ اس کے بغیر پنجاب میں حکومت سازی مشکل ہوگی غالباً اس کے پیچھے بڑی گہری سوچ کارفرما ہے ماضی میں سیاسی اعتبار سے دیوبندی مکتبہ فکر کوفضیلت حاصل رہی ہے متحدہ ہندوستان سے لیکر پاکستان کے70سالوں میں اس مکتبہ فکر نے پہلے جمعیت علمائے ہند اور بعدازاں جمعیت علمائے اسلام کی صورت میں بڑا فعال کردار ادا کیا ہے۔ جے یو آئی وقتاً فوقتاً اقتدار میں رہی ہے 1970ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد مولانا مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کے منصب پرفائز ہوئے تھے لیکن 15 فروری 1973ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیب کی وزارت برطرف کردی تو مفتی صاحب نے بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا۔1980ء کی دہائی میں جب سوویت یونین کی افواج افغانستان آگئیں تو جنرل ضیاء الحق نے جہاد شروع کردیا اگرچہ اس جہاد کو امریکہ کی براہ راست سرپرستی حاصل تھی لیکن دیوبند طبقہ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا افغان جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین مسلکی اعتبار سے دیوبندی تھے اس جہاد میں مولانا سمیع الحق کے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک نے کلیدی رول ادا کیا تھا ضیاء الحق نے ساری دنیا سے جہاد میں حصہ لینے والے گروپوں کو پاکستان آنے کی اجازت دی تھی عرب اور افریقی ممالک سے آنے والے مجاہدین مسلکی اعتبار سے سلفی اور حنبلی تھے چونکہ سعودی عرب اس میں نمایاں کردارادا کررہا تھا اس لئے سلفی یا اہل حدیث فرقہ کو بھی اچھاخاصا فروغ حاصل ہوا پھر جب1996ء میں طالبان کا ظہور ہوا تو اس میں جے یو آئی کے مدارس کے طالب بڑی تعداد میں شامل تھے یہ لوگ کوئٹہ اور اکوڑہ خٹک سے افغانستان کی جانب روانہ ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان پر قابض ہوگئے اگرچہ ان کے ہر اول دستور میں کرنل امام جیسے لوگ بھی شامل تھے جو انتہائی تربیت یافتہ تھے۔جنگ افغانستان کے دوران سعودی عرب نے دوصوبوں کے اندر بڑی تعداد میں مدارس اور مساجد قائم کرنے میں مدد دی تھی حال ہی سعودی ولی عہد محمدبن سلمان نے مغربی میڈیا کو بتایا کہ ہم نے جو مدارس قائم کئے تھے اس کے لئے فنڈز امریکہ نے فراہم کئے تھے تاکہ ان مدارس کے طالبان کے ذریعے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیاجاسکے ولی عہد محمد نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب نے اب یہ کام ترک کردیا ہے بلکہ وہ اپنی حکمت عملی اور نصاب مکمل طور پر تبدیل کررہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سعودی عرب نے درسی کتب میں دیگر مذاہب کا تقابلی جائزہ شامل کیا ہے جس کے تحت مہابھارت اور رامائن کے حصے شامل کئے گئے ہیں۔
نہ صرف یہ بلکہ کچھ ہفتہ قبل مدینہ کی جامعہ اسلامیہ میں ایک سیمینار ہوا جسکا موضوع قادیانیت تھا وہاں پر اظہار خیال کرتے ہوئے مذہبی اسکالروں نے کہا کہ قادیانیت اور دیوبندی مکتبہ فکر دونوں ایک طرح کے فتنے ہیں اور دونوں ارتداد کے زمرے میں آتے ہیں انہوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی سمیت کئی دیوبندی اکابرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریر کردہ کتابوں سے ہر چیز واضح ہے اس کے ساتھ ہی بریلوی مکتبہ فکر کو بھی مرتدین کی صف میں شامل کیا گیا اور کہا گیا کہ پیرپرست بھی تکفیر کے ضمن میں آتے ہیں۔
سوچا جانا چاہئے کہ سعودی عرب کی سرپرستی ہٹ جانے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے دینی حلقوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے سعودی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہل دیوبند اہل سنت نہیں ہیں اس بارے میں مزید تفصیلات اور بحث علماء ہی کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کے اپنے حالات ہیں یہاں پر دیوبند کی سامراج دشمن تحریک کو ڈیڑھ صدی سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے اس تحریک کی سرشت ہی وطنی قومیت اورسامراج دشمنی پراستوار تھی لہٰذا سعودی عرب کے جو بھی حالات ہوں بے شک وہ ہندومت،بدھ مت،جین مت،جوڈا ازم اور کرسچینیائی کو اپنے نصابوں میں شامل کرے پاکستان اور افغانستان پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہونگے یہاں پر اہل دیوبند اور بریلوی مکتبہ فکر اپنے اپنے انداز میں کام جاری رکھیں گے بریلوی مکتبہ فکر تو 1970ء میں پہلی بار مولانا نورانی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی قیادت میں سیاست میں آئی اور 1970ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی نورانی میاں کی رحلت کے بعد بریلوی مکتبہ فکر فعال قیادت سے محروم رہا کافی عرصہ بعد علامہ خادم رضوی میدان میں آئے دونوں مکاتب فکر میں سیاسی اعتبار سے کیا فرق ہے یہ سبھی جانتے ہیں جمعیت کو سیاست کا طویل تجربہ ہے وہ حکومتوں میں بھی شامل رہی ہے2002ء کے انتخابات میں جب جنرل مشرف نے دست شفقت رکھا تو ایم ایم اے کو دوصوبوں کی حکومت مل گئی جبکہ مرکز کی حکومت میں بھی وہ حصہ دار بن گئی اسی زمانے میں مخالفین نے کہا تھا کہ ایم ایم اے کا مطلب
ملا ملٹری الائنس
لیکن مشرف کے بعد یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا البتہ زرداری اور نوازشریف کے دور میں جے یو آئی مرکزی حکومتوں میں شامل یااسکے قریب رہی اب وقت بدل چکا ہے 2018ء کے انتخابات میں ٹی ایل پی پر دست شفقت نظرآیا جس کی وجہ سے وہ چوتھی بڑی پارٹی بن گئی۔حال ہی میں اس پر پابندی عائد کی گئی لیکن آرمی چیف محترم قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ٹی ایل پی ایک اپیل کے نتیجے میں جلد دوبارہ قومی دھارے میں شامل ہوجائے گی چنانچہ گزشتہ روز ٹی ایل پی نے اپیل دائر کردی ہے جس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہوگا ٹی ایل پی جیسے قیمتی اثاثہ کو برقراررکھنا ریاست کے مفاد میں ہے وہ اثاثہ کو ضائع نہیں کرے گی۔
جہاں تک این اے249 کے انتخابات کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی نے اس مرتبہ بہت محنت کی تھی کچھ آراوز ضرور اس سے ہمدردی رکھتے ہونگے لیکن ن لیگ کی منصوبہ بندی میں تھوڑی سی کسر رہ گئی تھی اس کے امیدوار مفتاح اسماعیل کراچی کے بڑے سیٹھ ہیں اور ان کی انڈسٹری حب میں قائم ہے انہوں نے بلدیہ کے علاقے کودیکھا تک نہیں ہے البتہ حب جاتے ہوئے ہائی وے پر اس کی نظرضرور پڑی ہوگی انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کینڈی لینڈ بنانے والی اپنی اسماعیل انڈسٹریز کی ٹافیوں پر اپنی تصاویر لگاکر تقسیم کیں لیکن یہ بھی کارکن ووٹروں تک پہنچانے کی بجائے خود ہی کھاگئے۔پی ٹی آئی نے چونکہ کوئی کام ہی نہیں کیا تھا اور اس کے سابق سرمایہ دار ایم این اے فیصل واؤڈا نے کبھی شکل نہیں دکھائی تھی اس لئے اسے تو ووٹ ملنے نہیں تھے ایم کیو ایم کا جو حشر ہوا وہ ان کے لئے نوشتہ دیوار ہے جبکہ مصطفی کمال نے اپنے ہاتھوں ہی بے عزت ہوکر اپنی دقعت کھودی ان کے مقابلہ میں قادر مندوخیل ایک فعال کارکن تھے ان کی برتری کی وجہ یہ تھی کہ باقی جماعتیں اپنے ووٹر پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں ناکام رہیں جبکہ بلوچ اور پشتون ووٹروں نے پولنگ اسٹیشن پہنچ کر اپنے ووٹ ڈالے جہاں تک دھاندلی کا الزام ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہوگا لیکن اس کی تحقیقات الیکشن کمیشن کا کام ہے تمام شکست خوردہ جماعتوں کو نتائج تسلیم کرنے چاہئیں قادر مندوخیل کی کامیابی طویل عرصہ کے بعد پیپلزپارٹی کو ملنے والی پہلی خوشی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں