سب کچھ لٹا کے

تحریر: انور ساجدی
لگتا ہے کہ خان صاحب تین سال بعد پہلی مرتبہ ہوش میں آئے ہیں ورنہ ایسی باتیں یا تو باہوش وحواس کی کی جاتی ہیں مدہوشی کے عالم میں گلگت کی خنک فضاؤں نے خان صاحب کی وہ کیفیت ہوا کردی ہوگی جو 2018ء سے ان پرطاری تھی ورنہ وہ اپنی کی گئی غلطیوں کاکبھی اعتراف نہ کرتے ٹکٹوں کے غلط اجرا سے لیکر وزارتوں کی غلط تقسیم تک خان صاحب نے اپنی ساری غلطیاں تسلیم کی ہیں تاہم یہ نہ بتاسکے یہ غلطیاں کس نے سرزدکروائیں یہ بات تو سب کو پتہ ہے کہ جب جہانگیر خان ترین ان کے دست راست تھے تو انہوں نے ہی خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ جب تک آپ ملک بھر کے الیکٹیبلز یعنی معروف لوٹوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کریں گے تو آپ انتخابات میں کبھی اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے چنانچہ خان صاحب نے تمام پارٹیوں کے سکہ بند لوٹوں کو اپنی جماعت میں شامل کیا اور انہیں ٹکٹ جاری کردیئے ایک تو ”اوپر“ کی نظر بھی نیک تھی ایک تبدیلی کے وعدے نے ان کی جیت کویقینی بنایا اور وہ وزیراعظم بن گئے انکو وزیراعظم بنوانے میں جہانگیر ترین اسکے طیارے اورفیاضی نے بہت اہم رول ادا کیا وزیراعظم بننے کے بعد جہانگیرترین سمجھے کہ عمران خان انکے بڑے ممنون اور مشکور ہونگے لہٰذا وہ جو بھی کریں کوئی ان سے پوچھے گا نہیں چونکہ نودولیتئے سیٹھ تھے اس لئے انہوں نے سوچا کہ جو ایک لگایا ہے اس کا سو واپس لینا ہے پہلے ہی ہلے میں انہوں نے پنجاب کے معصوم وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدار کو بہلا پھسلا کر شوگرمافیا کیلئے اربوں روپے کی سبسڈی حاصل کرلی یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھا چنانچہ انہوں نے چینی کامسئلہ پیدا کردیا۔ مارکیٹ میں زائد پیداوار کا واویلا مچایا اور حکومت کو مجبور کیا کہ فاضل پیداوار باہر بھیجی جائے ان کا مشورہ مان لیا گیا لیکن چند ماہ کے اندر چینی کی قلت پیداکردی گئی پھر انہوں نے وزیراعظم پر زور دیا کہ چینی امپورٹ کی جائے لیکن ہوا یہ کہ چینی کی قیمت 55 روپے سے100روپے ہوگئی یہ ایک بڑی گیم تھی جس کے ذریعے 3کھرب روپے کمائے گئے یا لوٹے گئے جب چینی کی قیمت نیچے نہ آئی تو خان صاحب طیش میں آگئے اور انہوں نے ایک کمیشن بناکر تحقیقات کا حکم دیا اسی دوران جب خسروبختیار خوراک کے وزیر تھے تو لاکھوں ٹن گندم طورخم کے راستے افغانستان اوروہاں سے تاجکستان تک اسمگل کی گئی جس کی وجہ سے گندم کی قلت پیدا ہوگئی اس وقت سے اب تک پاکستان گندم امپورٹ کررہا ہے لیکن خان صاحب کو جتنا غصہ جہانگیر ترین پر آیا اتنا خسروبختیار اورانکے بھائی پر نہیں آیا اس کی کیا وجہ ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
جہاں تک کابینہ کا تعلق ہے تو وزراء کی بار بار تبدیلی سے خان صاحب کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ وزراء کے انتخاب میں ان سے غلطیاں ہوئی ہیں پہلا غلط فیصلہ اسد عمر کو وزیرخزانہ بنانا تھا انکو معیشت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا انہوں نے عملی زندگی کا آغاز اینکرو میں نوکری سے کی تھی اورا س کمپنی کو کھاد کے علاوہ خوراک کے شعبے میں لے آئے تھے جب وہ ناکام ہوئے تو زرداری کے پہلے دور کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو لائے آئی ایم ایف کے جال میں انہوں نے پھنسایاان کی پالیسیوں سے مہنگائی بے قابو ہوگئی جاتے جاتے انہوں نے آئی پی پیز کو کھربوں روپے فائدہ پہنچانے کا معاہدہ کیا بالآخر وہ بھی ناکام ہوگئے خان صاحب نے زرداری کے ایک اور وزیرخزانہ شوکت ترین کو وزارت خزانہ کا عہدہ پیش کیا وہ اتنے مجبور تھے کہ ان پرنیب کے جو کیسز تھے ان کو بھی سردخانے میں ڈال دیا شوکت ترین جن کا تعلق ملتان سے ہے اپنے دو بینک بھی ڈھنگ سے نہ چلاسکے پہلے یونین بینک بنایا اسے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کو بیچ دیا بعدازاں انہوں نے سلک بینک بنایا جو ابھی تک قائم ہے لیکن اس کا شمار بڑے بینکوں میں نہیں ہوتا اس کے باوجود معیشت ان کے حوالے کی گئی ہے ان کا انجام بھی زیادہ کامیابی کی صوت میں نہیں نکلے گا لیکن وہ حفیظ شیخ اور اسد عمر سے بہر حال بہترثابت ہونگے۔
کرونا کے نازک دور میں جبکہ بڑے بڑے ممالک کی معیشت سکڑ گئی ہے پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک کی معیشت کوچلانا واقعی جان جوکھوں کا کام ہے خاص طور پر ایسی صورتحال میں جبکہ امریکہ پاکستان سے بے اعتنائی برت رہا ہے اور یورپی یونین نے بھی فرانس سے یکجہتی کی خاطر پاکستان کاہاتھ جھٹک دیا ہے چندسال پہلے یورپی یونین نے پاکستان کو بعض مراعات دی تھیں جو پہلے انڈیا اور بنگلہ دیش کو حاصل تھیں لیکن تین روز قبل یونین نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت پاکستان سے عدم تعاون بڑھایا جائیگا یہ صورتحال ٹی ایل پی کی حالیہ تحریک کے تناظر میں پیداہوئی جب فرانس کے سفیر کی بے دخلی کامطالبہ کیا گیا اس سلسلے میں حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان جو تحریری معاہدہ ہوا یورپی یونین کواس پر سخت اعتراض ہے اس کے علاوہ یونین کوبعض سخت مطالبات پیش کردیئے ہیں جن میں ایک توہین مذہب کے پاکستانی قوانین میں تبدیلی بھی شامل ہے یورپی اقوام اس بات سے نابلد ہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ توہین رسالتؐ کے قوانین میں کسی قسم کی تبدیلی کرسکے یہ پاکستانی عوام کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جس بھی حکومت نے یہ کام کیا چند ہی دنوں میں اس کا تیاپانچہ ہوجائے گا اس سے قطع نظرفرانس سے تعلقات کی خرابی کاپاکستان کو بہت نقصان ہوگا کیونکہ وہ سب سے زیادہ پاکستان کو فوجی سازوسامان فراہم کرتا ہے جن میں میراج طیارے سب میرین کی آلات اور نہ جانے کیا کیا فرانس نے اچھی خاصی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے ٹوٹل پارکو اس کی ملکیت ہے اس کے علاوہ وہ جرمنی کے بعد یورپی یونین کا سب سے بااثر رکن ہے جبکہ جرمنی کے بعد وہ یورپ کی دوسری معیشت ہے سب سے زیادہ مسلمان بھی اسی ملک میں رہتے ہیں لیکن چارلی ایبڈو کے سانحہ کے بعد دنیا کے کئی اسلامی ممالک کے فرانس سے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔لیکن اس دوران سعودی عرب نے فرانس سے بہت قریبی تعلقات پیدا کئے ہیں تمام واقعات اور سانحات کے باوجود ولی عہد محمد کی صدر میکروں سے ذاتی دوستی ہے پالیسیوں میں تبدیلی کے بعد جو کچھ فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے سعودی عرب اس پر صرف نظرکررہا ہے اور اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے چونکہ سعودی عرب میں مطلق العنانیت اور ملوکیت ہے اس لئے وہاں کے عوام حکومت کیخلاف اس طرح اٹھ کھڑے نہیں ہوتے جس طرح پاکستان کے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں فرانس سے تعلقات کی خرابی تجارتی رخنہ اندوزیوں سے خان صاحب کی حکومت کیلئے کافی مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
کروناایک غیبی امداد بن کر وارد ہوا ہے ایک طرف پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد ملی ہے تو دوسری جانب تمام بڑے ممالک نے قرضوں کی ادائیگی معطل کررکھی ہے ورنہ ڈیفالٹ کرجانے کی نوبت زیادہ دور نہیں تھی خان صاحب کے دور میں موجودہ خارجہ پالیسی بہت ناکام جارہی ہے ملتانی گدی نشین پاکستانی تاریخ کے ناکام ترین وزیرخارجہ ثابت ہوئے ہیں اگرتقابلی جائزہ لیاجائے تو وزرائے اعظم کی صف میں یہی مقام خان صاحب کابھی بنتاہے۔
کہاں تبدیلی کے نعرے کہاں کرپشن کا خاتمہ کہاں 200ماہرین پرمشتمل ٹیم سارے غلط اور جھوٹ ثابت ہوئے اب وہ خوداعتراف کررہے ہیں کہ ان سے بہت ساری غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان کی ناتجربہ کاری کا یہ عالم ہے کہ اپنے اختیارات کاصحیح استعمال کرنے کا ادراک بھی نہیں رکھتے ان کی حیثیت ایک فرنٹ میں اور شوبوائے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ان کے وزیر باتدبیر اسدعمر نے اشارہ دیا ہے جو ایک مشورہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ خان صاحب کسی وقت بھی اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کی طرف جاسکتے ہیں ان کاخیال ہے کہ اس وقت اپوزیشن کمزور ہے اس کی کوئی تیاری نہیں ہیے ن لیگ کا لشکر منتشر مولانا تتر بتر اور پیپلزپارٹی خواب خرگوش میں مبتلا ہے لہٰذا اگرعام انتخابات کروائے جائیں تو تحریک انصاف نہ صرف کامیابی حاصل کرے گی بلکہ اسے دوتہائی اکثریت بھی مل جائے گی۔
یہ ایک خوش فہمی اور خام خیالی ہے بلکہ ایک طرح سے جوا ہے1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا تھا ان کے مشیروں نے مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ قبل ازوقت انتخابات کروائیں تو انہیں مزید پانچ سال بیٹھے بھٹائے مل جائیں گے لیکن وہ انتخابات ان کے اقتدار اور زندگی کے خاتمہ کا باعث بن گئے۔
اگر خان صاحب نے وہی غلطی دہرائی تو ان کا وہی حشر ہوگا جو این اے249کراچی ڈسکہ اورنوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں ہوا ان کی سب سے بڑی اورآخری کامیابی یہی ہوگی کہ وہ جیسے تیسے کرکے باقی کے دوسال پورے کریں اور عزت سے بنی گالا چلے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں