کہاں سے لائیں وہ استاد

شبیر رخشانی

آج بیٹھے بیٹھے ماسٹر نزیر احمد صاحب یاد آگئے عجب انسان تھے روٹھ کر چلے گئے رب غریق رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ بطور شاگرد ان سے بہت کچھ سیکھا۔ علم بانٹنے میں کبھی بھی کنجوسی نہیں کی۔ سیکھنے کا رجحان بڑھ جائے، نئے نئے آییڈیاز تخلیق کرتے۔ تین سالہ تعلیمی دورانیے میں، میں نے اسے درسگاہ سے کبھی لاتعلق نہیں پایا۔ ایک دن طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اس دن حاضری نہیں لگی بلکہ رخصتی کی درخواست آئی۔ اب جب یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ضمیر کا یہ قیدی اپنے آپ کو اس قید سے کبھی بھی آزاد نہیں کر پایا اور نہ ہی ایسا کرنا کی چاہ لے کر آیا۔ ریٹائر ہوئے ایسے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ 2019 کے آخر میں یادیں سمیٹنے سکول چلا آیا۔ تو بڑا بیٹا شکیل احمد نظر آیا والد کی تربیت کا عملی جھلک اسی میں نظر آتا ہے والد کا پوچھا کہنے لگے گھر پر ہیں ہم نے ملاقات کرنی تھی سو خود ہی چلے آئے۔

طالب علمی کے زمانے میں سکول پرائمری ہوا کرتا تھا۔ کھیلنے کے لیے سکول کا ایک بڑا میدان ہوا کرتا تھا جس کی سرحدیں امام کی دوکان تک جاتی تھیں امام اس زمانے میں سیٹھ ہوا کرتا تھا دوکان کی بیرونی دروازے کو اب مٹی کے گارے سے بند پایا امام دنیا سے رخصت ہوا تو ان کے جانے کا دکھ دوکان کو بند ہونے کی صورت میں سہنا پڑا۔ اب فقط وہاں یادیں ہیں۔ سکول کا وہ گراؤنڈ اب غائب ہے اب وہاں کھڑی عمارتیں ہیں میں نے پوچھا کہ سر سکول تو مڈل ہوا مگر سرحدیں چھوٹی ہو گئیں۔ زمین کون کھا گیا۔ ماسٹر صاحب کے آنکھوں آنسو آگئے کہنے لگے کہ اپنوں کے علاوہ اور کون کھا جاتا ہے۔

ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک گھڑی ہوتی تھی چھٹی کا ٹائم ہوتے ہی گھڑی کی گھنٹی خود بخود بجنے لگتی۔ ہمیں چھٹی کا بڑا انتظار رہتا۔ مگر گھڑی کی سوئی جب تک سکول ٹائم کو پار نہ کر جائے اس وقت تک چھٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کی کس قدر شان و شوکت رہتی تھی اگر وہ وقت سے آدھا گھنٹہ قبل چھٹی کر لیتے تو بھی انہیں کون پوچھتا۔ شاگردوں سے لے کر اہل محلہ جو اس کی حاضر باشی اور ایمانداری کی گواہی دینے کے لیے کافی تھے۔۔ اس کی زندگی کے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول تھے ان اصولوں پر کبھی بھی وہ سمجھوتا نہیں کر پایا۔

جس خاموشی سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اسی خاموشی کے ساتھ انہوں نے دنیا سے رخصتی لے لی۔ ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا مگر کبھی بھی ان کے تجربات سے استفادہ کرنے کی جسارت زمہ داران نے نہیں کی۔ یہ ان سے آخری ملاقات ہی ثابت ہوئی کہنے لگے کہ طالبعلموں کی ایک طویل فہرست ہے رجسٹر میں ان چند ناموں کو دیکھتا ہوں جو آج ڈاکٹرز ہیں ٹیچرز ہیں دیگر شعبہ جات میں فرائض انجام دے رہے ہیں انہیں اہم مقام پر دیکھتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں۔

ایک اور استاد تھے ماسٹر محمد علی صاحب۔ بڑے ہی قابل اور فرض شناس استاد ماسٹر محمد علی صاحب کا تعلق مشکے سے تھا مگر ضلع کا ایک بھی ہائی سکول ایسا نہیں تھا جہاں محمد علی صاحب نہیں رہے اور شاگرد پیدا نہیں کیے۔ انہیں کلاس کے اندر اونگھنے پہ چڑھ تھی۔ اونگھنے کو وہ اپنی کلاس کی توہین سمجھتے تھے عمر کے 37 سال کا آنکڑہ پار کرنے کے بعد اب سمجھ میں آتا ہے کہ طالبعلم اونگھنے پر ان کے ہاتھ کا چاک کا نشانہ کیوں بن جاتے تھے۔

اُس زمانے میں ادارے کم تھے مگر اساتذہ حاضرباش تھے اساتذہ فراہم کرنے میں مشکے پیش پیش تھا تحصیل مشکے کا واحد ہائی سکول ایک کھلی درس گاہ ہوا کرتا تھا۔ مگر مشکے اب وہ مشکے نہیں رہا وہاں کی زیادہ تر سکول بند ہیں۔ رئیس خداداد، ماسٹر رحمت اللہ ساجدی، محمد انور شاہوانی، غلام مصطفیٰ کلملی، ماسٹر محمد حسین ہیبوانی، شوکت صحرائی، حضوربخش ساجدی، ماسٹر احمد جان، ماسٹر گل محمد اور نجانے کتنے نگینے تھے جنہوں نے مشکے کی نظام تعلیم کو سنبھالا اور اسے آگے بڑھایا۔

محمد انور شاہوانی سن 1967 میں بطور پرائمری سکول ٹیچر مشکے میں تعینات ہوئے اور بطور ایجوکیشن آفیسر محکمہ تعلیم سے رخصت ہوئے۔ تعلیمی تباہ حالی کے دو اسباب بتاتے ہیں ایک وہ اساتذہ جن میں پڑھانے کی صلاحیت موجود ہی نہیں انہیں تعینات کیا گیا۔ دوئم وہ افسران جو درسگاہوں کا دورہ ہی نہیں کرتے۔ ماضی کو یاد کرکے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ٹیچر ہونا کوئی عام بات نہیں تھا سکول کے اندر مقامی ٹیچر میں اور رحمت اللہ صاحب تھے جب پڑھانے گئے تو غیر مقامی اساتذہ نے کہ کہ مشکل ہے ہائی سکول میں چل پائیں مگر میں نے اور رحمت اللہ صاحب نے محنت کی اور اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔ اس زمانے میں قلات، خاران اور کچھی کا ایک ہی ڈسٹرکٹ انسپکٹر ہوا کرتا تھا جس کا اسٹیشن مستونگ تھا۔ سالانہ یہ پورے ضلع کی تمام سکولوں کا دورہ کرتا تھا جو شکایات ہوتی تھیں ان کا ازالہ کیا جاتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہر ضلع کے اندر زمہ داران کی ایک ٹیم بیٹھی ہوئی ہے مگر کوئی بھی سکولوں کا دورہ کرنا گوارا نہیں کرتا۔

پروفیسر صدیق بلوچ نے تدریس کا آغاز سن 1988 میں گورنمنٹ ہائی سکول لنجار جاہو (اس وقت سکول مڈل تھا) سے بطور جے ای ٹیچر کیا۔ اِس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ موجودہ تعلیمی صورت حال کی وجہ وہ شعبے پر سیاسی غلبے کو قرار دیتے ہیں کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی تک تعلیمی ادارے کسی حد تک سیاسی مداخلت سے آزاد تھے۔ اسی دوران شعبہ تعلیم کو پرائیوٹائز کیا گیا۔ میر معتبرین اور جاگیرداروں کے بیٹوں کو کیڈٹ کالجز اور دیگر پرائیوٹ تعلیمی اداروں تک رسائی مل گئی۔ مقامی سکولوں میں تعلیم کا نظام تباہ کرنے کے لیے اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں شروع کی گئیں۔

آج نظر دوڑائیں تو سکولوں کا ایک وسیع جال نظر آتا ہے سکولوں کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ کا ایک بہت بڑا نظام بھی۔ آفیسران سے لے کر ان کے ماتحت تک، سرکل سپروائزرز سے لے کر کلسٹر ہیڈز تک، انتظامیہ سے لے کر آر ٹی ایس ایم ٹیم تک یہ سب موجود ہیں مگر یہ سب کے سب اس نظام کو ٹھیک کرنے میں ناکام ہیں۔ کیوں ناکام ہیں؟ کیوں کہ نظام سیاسی قیدی بن چکا ہے بیچارہ اب اتنا کمزور ہو چکا ہے فقط سانسیں باقی رہ گئی ہیں۔ تعیناتیاں، تبادلے سب کے سب سیاسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں یہ نظام ماسٹر نزیر احمد اور اس جیسے سیکڑوں باضمیر استاد پیدا کرنے سے تو قاصر ہے تو ایسے میں سیاسی بنیادوں پر متعین افسران کی کیا مجال کہ وہ غیر حاضر اساتذہ کی ڈوری کو ہلائے جنہیں سیاسی پناہ حاصل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں