انصاف اسی کا نام ہے

تحریر: انور ساجدی
10سال قبل امریکہ نے ایبٹ آباد کے حساس مقام پر ایک بھیانک اور پراسرار آپریشن کے ذریعے اسامہ بن لادن کو قتل کردیا آپریشن میں حصہ لینے والے دو ہیلی کاپٹروں میں سے ایک گرکر تباہ ہوگیا جبکہ دوسرا اسامہ کی لاش اور امریکی حملہ آور ٹیم کو لیکر بہ خیروعافیت افغانستان پہنچ گیا اس آپریشن کی کامیابی کا اعلان امریکی صدر بارک اوبامہ نے کیا اور یہ بھی کہا کہ اسامہ کی لاش سمندر برد کردی گئی پاکستانی حکام اتنے حواس باختہ تھے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک مضمون کے ذریعے اسے اپنی کامیابی قراردیا حالانکہ جس طرح امریکہ نے پاکستانی حکومت کے منہ پر کالک مل دی تھی وہ شرمندگی کامقام تھا صدر اور وزیراعظم دونوں کو جرأت نہ تھی کہ وہ پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کی مداخلت اور پاکستان کے اندر کا کول کے مقام پر گھس کرکارروائی پر امریکہ سے احتجاج کرتے الٹا انہوں نے صدر اوبامہ کے قصیدے گائے امریکہ نے جس طرح پاکستان کی خودمختاری کوتارتار کردیا تھا بجائے کہ اس پرتشویش اوردکھ کااظہار کیا جاتا کچھ عرصہ بعد سب نے چپ سادھ لی۔
ایبٹ آباد آپریشن ایک پراسرار کارروائی اس لئے تھا کہ آج تک اسکی تفصیلات سامنے نہ آسکیں افواہوں کے سوا کسی نے اس کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ نہیں کیا بس میڈیا یہ دور کی کوڑی لایا تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹر رات کی تاریکی میں پہلے غازی بروتھا پراترے تھے یہ جگہ تربیلا کے قریب ہے اور یہاں پر بینظیر نے ایک ہائڈرو پلانٹ لگایا تھا جو کافی مقدار میں بجلی پیدا کرتا ہے سوال یہ ہے کہ وہاں سے امریکی کاپٹر کیسے ایبٹ آباد آئے وہ پاکستانی ریڈاروں پر کیوں نہیں دکھائی دیئے ایبٹ آباد جیسے حساس مقام پرہیلی کاپٹروں کی آواز سن کر پاکستانی حکام نے ان کا نوٹس کیوں نہیں لیا اگر وہ چاہتے تو مداخلت کرکے ان ہیلی کاپٹروں کو کارروائی سے روک سکتے تھے آپریشن کے وقت بجلی کس نے بند کی تھی اس طرح کے سوالات سے اس آپریشن کی پراسراریت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ یہ گماں کرتے ہیں کہ کہیں بعض اعلیٰ حکام تو اس میں شامل نہیں تھے پاکستانی صدر زرداری کوآپریشن کی کامیابی کے بعد جنرل کیانی نے ٹیلی فون پر اس کی اطلاع دی اس وقت کہا گیا تھا کہ ڈاکٹرشکیل آفریدی نے مخبری کی تھی جسے فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا تھا جو ابھی تک جیل میں ہے جبکہ اس کا انعام یا اس کا کچھ حصہ ایک اہل کار کو ملا تھا جسے امریکہ نے فوری طور پر بمع اہل وعیال اپنے ہال شفٹ کردیا تھا جہاں پر وہ پرتعیش زندگی کا لطف اٹھارہے ہیں یہ بھی ایک سوال ہے کہ 5کروڑ ڈالر کاانعام اکیلے اس اہلکار کو ملا تھا یا یہ تقسیم ہوا تھا اس بارے میں آج تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔
پاکستانیوں کی وقعت کیاہے؟ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں بتادیا ہے انکے بقول انہوں نے پیسے لیکر پانچ سو مطلوب افراد امریکہ کے حوالے کردیئے تھے ظاہر ہے کہ امریکیوں سے زیادہ پاکستان کے حکمرانوں کو کون جانتا ہے کئی اعلیٰ اہلکار دوران نوکری امریکہ میں وقت گزارکراپنا گرین کارڈ پکاکرتے ہیں جس کی بدولت انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد امریکی شہریت مل جاتی ہے خاص طور پر پنجاب کے لوگوں کا دیرینہ خواب ہے کہ انہیں پرانی یا نئی ولایت کی شہریت مل جائے حالانکہ ان ممالک میں جاکر یہ لوگ معدوم ہوجاتے ہیں وہاں پر کوئی کسی کو پوچھتا تک نہیں ہے کوئی کسی کی دولت اور شان وشوکت سے مرعوب نہیں ہوتا وہاں پر جاگیرداری وڈیرہ شاہی چوہدراہٹ اور قبائلی نظام نہیں ہے ”ریڈانڈین“ کے سوا باقی تمام لوگ برابر ہیں کسی کو کسی پرفضیلت حاصل نہیں ہے حالانکہ یہ لوگ ایک چمکتی دنیا کی بجائے اپنے ملک میں رہ کر اپنے علاقہ اور لوگوں کی خدمت کرتے تو انہیں زیادہ سکون مل جاتا اور وہ اچھی زندگی گزارسکتے تھے لیکن کیا کریں کوئی امریکہ دوڑرہا ہے کوئی آسٹریلیا کارخ کررہا ہے کسی کو انگلینڈ پسند ہے اور کوئی کینیڈا کو پسند کرتا ہے یہ ساری خرمستیاں دولت کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے سروس کے دوران بے تحاشا دولت اکٹھی کی ہوتی ہے جسے وہ باہر جاکر ٹھکانہ لگاتے ہیں اور چند سال کے بعد سب کچھ انکے بچوں کے ہاتھ میں چلاجاتا ہے اور وہ آخری زندگی انتہائی کسمپرسی اورلاچاری میں گزارتے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان ایئرفورس کے ایک سابق سربراہ ایئرمارشل انورشمیم کی مثال سامنے ہے2003ء میں صدر مشرف کے دورہ امریکہ کے دوران موصوف فورسینز ہوٹل آئے تھے تاکہ مشرف سے ملاقات کرسکیں کافی ضعیف دکھائی دے رہے تھے لیکن مشرف نے انہیں وقت نہیں دیا حالانکہ وہ کافی رئیس کبیر شخص تھے امریکہ سے جو ایف16طیارے خریدے گئے تھے انورشمیم نے ان کا پیشگی کمیشن وصول کرلیا تھا اور امریکہ میں یہ رقم لگاکر وہ زمینداری کررہے تھے غالباً موصوف دارمفارقت دے چکے ہیں اور حیات نہیں ہیں اگر وہ اپنے علاقہ میں رہتے تو زیادہ پرسکون زندگی گزارسکتے تھے۔
افواہ ہے کہ ایک صاحب نے آسٹریلیا میں ایک جزیرہ خریدا ہے یقینا موصوف وہاں پر تنہائی کاشکارہونگے اور اپنے جزیرے کے پرندوں اور جانوروں سے ہی باتیں کرتے ہونگے کس کس کی بات کی جائے پرویز مشرف نے8برس تک راج کیا لیکن تخت سے اترتے ہی سارا مال ومتاع لیکر لندن اور دوبئی میں جائیدادیں خریدیں فائدہ کیا وہ ایک اسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں بے شمار مال ومتاع انہیں تندرستی اور زندگی دینے سے رہا زرداری دور کا ایک بڑا اہل کار جو ریٹائر ہوا تو آج تک اپنے ملک نہیں آیا حالانکہ دوران اقتدار یہ حب الوطنی کے ٹھیکہ دار تھے تاریخ سے ثابت ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے جن مخالف سیاستدانوں کو غدار قراردیا ان میں سے کوئی بھی اپنا ملک چھوڑکر باہر نہیں گیا۔
میں آج ہی اس ریاست کے سب سے بڑے غدار بادشاہ خان کی ایک کلپ دیکھ رہا تھا جس کے مطابق وہ جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ ایک پوٹلی ہوتی اور وہ کسی کو بھی ہاتھ لگانے نہ دیتے وہ بھارت جاکر گاندھی جی کے آشرم میں رہتے لیکن گاندھی کو بھی نہیں دکھایا کہ پوٹلی میں کیا ہے ایک مرتبہ جب وہ انڈیا گئے تو اندرا گاندھی استقبال کیلئے ایئرپورٹ گئیں انہوں نے بادشاہ خان سے کہا کہ لایئے یہ پوٹلی میں اٹھادیتی ہوں اس پر خان صاحب نے کہا کہ یہ آپ لوگوں نے اس پوٹلی کے سوا مجھ سے سب کچھ چھینا اسے رہنے دیجئے اس پر اندرا کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق راجیوگاندھی کے دور میں جب وہ دہلی گئے تو وزیراعظم انہیں خود لینے ایئرپورٹ گئے لیکن انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ بادشاہ خان اس پوٹلی کے اندر کیا ہے آپ نے گاندھی جی میرے نانا اور میری ماں کو نہیں دکھایا لیکن میں دیکھ کر رہوں گا خان صاحب نے پوٹلی انکے سامنے رکھ دی جس میں دو جوڑے شلوار قمیض کے تھے اس طرح پشتون تاریخ کے سب سے عظیم لیڈر بس دو جوڑوں پر ہی اکتفا کرتے رہے اپنے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر دیارغیر جاکر آباد ہونے والوں کی طویل فہرست ہے یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ آج بھی ان کا ذکر کرنا یا ان پر انگلی اٹھانا بے حد خطرناک ہے۔
آج نہ سہی لیکن30سال بعد جب امریکہ ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات کو طشت ازبام کرے گا تو کافی طاقتور لوگ بے نقاب ہوجائیں گے اور ان کے سیاہی زدہ چہرے عوام کے سامنے آجائیں گے لیکن اس وقت دولت کی خاطر اپنے ملک کوبیچنے والے نہیں ہونگے۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بحریہ ٹاؤن ملیر سے لیکر دامان کیرتھر تک پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اور جدید شہر بسارہا ہے گزشتہ روز ملک ریاض کے فرزند علی ریاض کی جانب سے سوشل میڈیا پر بحریہ ٹاؤن کراچی کی چمک دمک جدید عمارتوں اور چوڑی شاہراؤں کو دکھاکر فرمارہے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن عوام کی بڑی خدمت کررہا ہے دوسری طرف عین اسی روز بحریہ ٹاؤن کی ہیوی مشینری ملیر کے قدیم گوٹھوں کومسمار کرنے اور زمینوں پر قبضہ میں مصروف تھی مقامی لوگوں نے گھروں سے نکل کر احتجاج کیا لیکن بحریہ ٹاؤن کے مسلح بندوق برداروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی بے تحاشہ دولت کی بڑی طاقت ہوتی ہے ملک ریاض نے نہ صرف حکمرانوں کو اپنا زرخریدغلام بنایا ہے بلکہ اس نے انصاف کو بھی مہنگے داموں خریدلیا ہے۔گزشتہ کئی سال سے بحریہ ٹاؤن نے ملیر کے دیہات کو غزہ کی پٹی میں تبدیل کردیا ہے لیکن غریبوں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے ان کے گوٹھ مسمار کئے گئے انکے قبرستانوں پر بلڈوزر چلائے گئے انکے ندی نالے چراگاہیں اورجنگل سب کچھ ملک صاحب ہڑپ کرگئے لیکن اور تو اور سندھ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی لوگ ملیر کوغزہ کی پٹی سے تعبیر کررہے ہیں لیکن وہاں پر2ہزار سال پہلے زمین یہودیوں کی ملکیت تھی جن کا قبضہ انہوں نے دوبارہ حاصل کیا ہے لیکن ملیر کی زمین کونسے ملک ریاض کے آبائی واجداد کی تھی جس پر انہوں نے قبضہ کیا ہے کہنے دیجئے کہ زرداری صاحب نے اپنے ہی لوگوں اپنے ووٹروں کو ایسے زخم دیئے ہیں جو کبھی کسی نے نہیں دیئے تھے۔
ایک حیران کن بات سندھ کی دیگرسیاسی جماعتوں اور خود کو قوم پرست کہنے والے نام نہاد لیڈروں کی خاموشی ہے اتنے مظالم اور زیادتی پر ان کے لبوں پر مہر لگی ہوئی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مہر ملک صاحب نے لگائی ہو جو اس کام کے ماہر ہیں کراچی کے میڈیا کا کیا ذکر کہ یہ کارپوریٹ میڈیا ہے جو اسپیس بھیجتا ہے اور ملک صاحب منہ مانگے دام دیتا ہے اس لئے وہ خاموش ہے حالانکہ خاموشی اختیار کرنا جرم ہے اور میڈیا نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس جرم میں برابر کاشریک ہے ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے ذریعے مقامی لوگوں کو دربدر کرکے ڈیموگرافک تبدیلی لارہے ہیں ایک طرف وہ زمینیں کوڑی کے مول حاصل کرکے پاکستان کا نمبر ایک دولتمند سیٹھ بن رہے ہیں دوسری طرف کراچی کی ہئیت تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس طرح انکو دوہرا فائدہ حاصل ہورہاہے۔
ملیر کی زمینوں کو ”انصاف“ نے جس طرح ملک ریاض کو بخش دیا اس کی مثال امریکہ کے سوا کہیں اور نہیں ملتی گورے جب وہاں پر طاقتور ہوگئے تو انہوں نے انڈین سرداروں کو بلاکر پوچھا تھا کہ اگرآپ کے پاس ملکیت کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کرو ورنہ زمین ہماری ہوگی بھلا جو لوگ ہزاروں سال سے وہاں پر رہ رہے تھے انکے پاس کیا دستاویزی ثبوت ہونگے بحریہ ٹاؤن بھی یہی حربہ آزما رہا ہے حالانکہ ملیر کے لوگوں کے پاس انگریز اور اس سے پہلے کے بھی ثبوت موجود ہیں ثاقب نثار نے عجیب فیصلہ کیا کہ ہزاروں لوگوں کی زمین ملک صاحب کو دیدی زمین اور کی اسے بخشنے والا اور اسے خریدنے والا شخص دوہزارکلومیٹر دور تلہ گنگ سے آیا ہوا اس کو کہتے ہیں انصاف

اپنا تبصرہ بھیجیں