تعلیم کا اولین مقصد تربیت ہے

تحریر:ابوبکردانش بلوچ
یہ حقیقت ہے انسان کا امتیاز علم کی وجہ سے ہےـ امام غزالی فرماتے ہیں ” وہ خاصہ جس کے ذریعے انسان کو جانوروں سے امتیاز حاصل ہوتا ہے وہ علم ہے، اور انسان تبھی انسان کہلائےگا کہ جس سے اسے شرف و امتیاز حاصل ہے، وہ اس میں موجود ہے-"

(احیاءالعلوم)
لوگوں کا زیور علم سے آراستہ ہونا معاشرہ کو لالہ زار بناتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گود سے گور یعنی لحد تک علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے، اس لیے سرچشمہ تربیت کا علم سے آراستہ ہونا بھی ایک امر لازم ٹھہرا، مادر علمی کی اصطلاح بھی اسی افادیت کی آئینہ دار ہے کہ علم گاہ ماں کی طرح پروقار اور عظمت والی ہو،

تعلیم کا اولین مقصد تربیت ہے :
تربیت ہی سلیقہ اور قرینہ عطا کرتی ہے، اس کے بغیر تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑ ہی نہیں سکتی۔ تربیت ہی آدمی کو انسان بناتی ہے۔ تربیت فکر کو جنم دیتی ہے اور فکر کردار کی تشکیل کرتی ہے، مگر جدید دور نے تعلیم کو معاش سے جوڑ دیا ہے لہذا تعلیم کا رخ بھی اسی کے مطابق طے ہونے لگا، آج اچھے سے اچھے روزگار کا بنیادی مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ آج کے دور کے طلبہ اپنے تعلیمی سفر کا آغاز ہی معاش اور روزگار کی منزل پر پہنچنے کے لئے کرتے ہیں، اس لئے تعلیم کا مقصد ” تعلیم برائے خدمت” کی جگہ "تعلیم برائے روزگار” میں تبدیل ہو گیا ہے، اسی سوچ نے طلبہ کو تعلیم کے حقیقی تصور کی طرف رخ کرنے نہیں دیا،

انسانیت سازی :
آج تعلیم کے حقیقی تصور کو طلبہ کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا مقصد روزگار نہیں بلکہ انسان سازی ہے، جس میں انسان کے کردار،اخلاق اور اس کے ظاہر و باطن کو سنوارا اور تراشا جاتا ہے،علم ہی کی بنیاد پر حق و باطل میں فرق، صحیح و غلط میں تمیز اور عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرتا ہےتعلیم کا مقصد انسان کی شخصیت کو متوازن انداز پر نشو و نما دیتا ہےـتعلیم کا مقصد انسان کو بتانا نہیں ہے بلکہ انسان بنانا ہےتعلیم کا مقصد حصول زر نہیں بلکہ انسان سازی ہے-

علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسباب تقویم خودی است

آج ہماری قوم کا اولین مقصدِ تعلیم حصول مال و زر رہ گیا اس لئے ہماری قوم کا زوال شروع ہوا، ہمارے اسلاف بھوک سے نڈھال ہو کر، اپنی قیمتی نیند کو قربان کرکے انسان سازی میں لگے ہوئے تھے، ان کے در سے تربیتی پیغام ملتا تھا،قوم کے رہنما پیدا ہوتے تھے. مگر اب مشینیں تیار کرتے ہیں، ہماری قوم کو رہنما کی ضرورت تھی مگر ہم اپنی قوم کو مشینیں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں
ہماری نظریں صرف حصول زر پہ ٹکی ہوئی ہیں اس لئے ہماری قوم کا زوال شروع ہوا، اور جس قوم کے لوگ تعلیم کو سرمایہ حیات سمجھتے ہوئے تعلیمی میدان میں کود پڑے تو آج وہ قوم بام عروج پر ہے، اور لوگ ان سے ان کے علم و فن کی خیرات مانگتے پھرتے ہیں-

فکری اصلاح کی ضرورت :
اگر اب بھی ہم نے تعلیم کو حصول مال و زر سمجھ کر حاصل کیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم پر مغربیت چھا جائے اور انسان سازی کے لئے کوئی رہنما نہ ملے-آج ہمارے معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسے مل جائینگے جن کی سوچ ہی ایسی ہے کہ علم حاصل کرو اور بینک بیلنس جمع کرو، بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارے آس پاس ہی ایسے ذہن کے لوگ مل جائینگے، چاہے وہ دنیوی تعلیم کے میدان کے ہوں یا دینی تعلمی سے آراستہ لوگ ہوں، آپ اس کو ایک نظر سے دیکھئے ؛ چاہے وہ طب کی لائین کا ہو یا وکیل ہو یا حکمران ہوں بہت سے لوگ ایسے مل جائینگے جو فرضی ڈگریاں لیکر ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں، سرکاری نوکری میں فرضی ڈگری والے پائیں جاتے ہیں، انسان سازی بنانے کے بجائے انسانیت سے بھی گراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی مل جائینگے جو دین کے نام پر، اصلاح کے نام پر اپنا بینک بیلنس جمع کرنے پہ تلے ہوئے ہیں، ایسے
ذہن کے لوگ بھی ملیں گے جب تک آپ ان کے اکاؤنٹ میں پچیس سے پچاس ہزار نذرانہ پیش نہ کردو، وہ دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے نہیں آ سکتے،(الاماشاء اللہ) اس لئے ہماری قوم کا زوال شروع ہوا، جب سے ہم نے تعلیم کا مقصد حصول مال و زر سمجھا، اس وقت سے ہماری قوم میں ملازم ہی پیدا ہوئے، رہنما و امام و قائد نہیں-
علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسباب تقویم خودی است

اپنا تبصرہ بھیجیں