عورت دشمن ہر دستور!

تحریر؛۔ کلثوم بلوچ
ایک دو دن سے سوشل میڈیا پر عورت مخالف قراردادجو کہ بلوچستان اسمبلی میں پیش اور منظور کرا دی گئی زیر بحث ہے مگر ایک طرفہ۔ دوسری جانب سیکولر بلوچ ہونے کا دعوی کرنے والے کافی آوازیں اس قرارداد پر خاموش ہیں۔ یہ خاموشی بتاتی ہے کہ وہ خود بے بس اور لاچار ہیں، شاید!۔ البتہ، قرارداد میں جن جن باتوں کو زیر غور لایا گیا وہ کبھی بلوچستان میں پیش آئے ہی نہیں اور نہ ہی وہاں اس سال عورت مارچ منعقد ہوا۔ اِس قرارداد پر سوال اور مخالفت کیلئے بہت سے جواز موجود تھے مگر حیرت کی بات ہے کہ یہ قرارداد بہ آسانی اور متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔یہ قرارداد بروز جمعرات 29 اپریل کو منظور ہوئی، جس کے مطابق؛ عورت مارچ جو بلوچستان میں منعقد ہی نہیں ہوئی، وہ اسلامی معاشرے کو تباہ کرنے اور جنسی بے راہ روی پھیلانے میں مصروف ہے، لہذا، اِس قرارداد کے مطابق صوبے کو فحاشی اور بے حیائی سے پاک رکھنے کے لیے عورت مارچ پر پابندی لگا کر اسلامی معاشرے کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ مزید اِس قرارداد میں کسی یونیورسٹی میں ایک نوجوان طالب علم اور ایک طلبہ کی وائرل ویڈیو کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا، جس کا اس تحریک اور مارچ سے کیا تعلق ہے وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔یہ قرارداد عورت دشمن رویہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں سماج عورت کے وجود اور سوال پر ہمیشہ خوفزدہ نظر آتی ہے کہ کہیں یہ عورتیں پدرسری نظام پر اعتراض کرکے ہماری اِس تسلط اور صدیوں پرانی بالادستی کو خطرے میں نہ ڈال دیں۔ لہذا کسی اور صوبے میں عورت مارچ سے بلوچستان کے لوگوں میں بے حیائی پھیل سکتی ہے تو عورت پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ جبکہ باقی صوبوں میں جہاں حقیقت میں عورت مارچ منعقد ہوا وہاں اس پلیٹ فارم سے جبری گمشدگیوں اور عورت پر دوطرفہ ظلم اور جبر کو اہم موضوع کے طور پر پیش کیا گیا, جس میں ہر طبقے سے عورت اپنے اپنے مسائل کو لے کرشامل ہوئیں۔ اس تمام صورت حال کو دیکھنے کے بعد اس طرح کے قرارداد کا پیش ہونا وہ اِس غیر حقیقی بیانیہ کے ساتھ اسمبلی میں منظور ہونا، بہت سے سوالات پیدا کرتی ہیں کہ یہ قرارداد عورت کا سیاست میں شمولیت کے خلاف ہے؟ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں موجودہ سیاسی نظام میں عورت کی شمولیت اور فیصلہ سازی کو لے کر تبدیلی کاایک دور شروع ہوا ہے۔اس کے علاوہ عورت مارچ کا جو دوسرا پہلو ہے وہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ہے، کیا جبری گمشدگیوں کے متاثرین اور لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے سے یہ عورتیں بے حیا ثابت ہوئی؟ یا پھر یہ ایک بلاواسطہ اشارہ ہے ان عورتوں کے لئے کہ آپ اس بار جبری گمشدگیوں پر بات کرکے ریڈ لائن کراس کر چکے ہو۔ان تمام پہلوں کو دیکھنے کے بعد بھی یہ قرارداد اور اس کا بیانیہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ قرارداد واضع طور پر ایک عورت دشمن قرارداد ہے جس کا مقصد عورت کے سیاسی و سماجی اشتراک کو روکنا اور مردانہ بالادستی کے سماج کو قائم اور دائم رکھنا ہے۔ اسی موضوع پر مختلف لوگوں کی رائے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کاکا موقع ملا کہ پاکستان میں موجود سیاسی پارٹیز اور اسمبلی میں موجود خواتین کا فیصلہ سازی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ پدر سری نظام ہے جہاں عورت کہیں بھی قابل قبول نہیں۔اس کی مثال کچھ سال پہلے پیش آئے ایک واقعہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے جب بلوچستان میں راحیلہ درانی اسپیکر اسمبلی بنیں، تو وہاں موجود اراکین کا رویہ اور عورت سے نفرت کا انداز کافی واضح تھا یہاں تک کہ ایک نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا، کہ ” آپ عورت ہیں آپ سے کیا بات کروں "یہاں صرف میں نے ایک مثال پیش کی اس کے علاوہ ایسے ہزاروں مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں جہاں ہمیں اس عورت دشمن دستور کا سامنا ہے۔ بہرحال، اس طرح کی قرارداد کی مذمت جتنی بھی کی جائے اتنی کم ہے، کیونکہ اس طرح کے خیالات اور بیانیہ جس ذہنیت کو فروغ دے رہا ہے اس کے اثرات عورتوں پر ہونے والے مظالم کی شکل میں ہمیں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں