پاکستانی قیادت کیا دے کر آ رہی ہے
تحریر: انور ساجدی
سعودی عرب سے جو بھی معاملات تھے وہ پہلے طے ہو چکے تھے وزیراعظم کا صرف ولی عہد کے ساتھ ون آن ون ملاقات کا محض ایک فوٹو سیشن ہوا معاملات کیا طے ہوئے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن لگتا ہے کہ ایک کئی جہتی ایجنڈے کو فائنل کیا گیا ہے جسے صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے رفتہ رفتہ عالمی میڈیا ضرور اسے طشت ازبام کر دے گا تب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ
ہمارے حکمران کیا دے کر آئے ہیں
او رکیا لے کر آئے ہیں
سعودی عرب اس وقت ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے نئے امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں پرانی پالیسی تبدیل کر دی ہے جس کی وجہ سے اس ریاست کو سیکورٹی اور مالیاتی مسائل درپیش ہیں یمن میں اسے حوثیوں کے ہاتھوں بدترین ہزیمت کا سامنا ہے کئی سال پہلے اسے شام میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا چند روز قبل شام نے پہلی بار اسرائیل کی ایٹمی سائٹس کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد کہا گیا کہ یہ حملہ دراصل ایران نے شام کی سرزمین سے کیا تھا اسرائیل کو فلسطین اور لبنان سے حملوں کا بھی خطرہ ہے سعودی ولی عہد اور اسرائیل کے اقلیتی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے چند ماہ قبل سعودی عرب کے نئے زیر تعمیر جدید شہر ”نیوم“ کے مقام پر خفیہ ملاقات کی تھی جس سے سعودی عرب کے بارے میں شکوک و شبہات نے جنم لیا تھا اسرائیل سے قربت نے وقتی طور پر سعودی عرب کے مسائل میں اضافہ کیا ہے اندازہ ہے کہ سعودی عرب نے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان سے از سر نو تعلقات استوار کئے ہیں ورنہ جب عمران خان نے یو این جنرل اسمبلی سے جو تاریخی خطاب کیا تھا اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کافی خراب ہو گئے تھے سعودی ولی عہد اتنے جلال میں آگئے تھے کہ انہوں نے اپنے جس طیارے سے پاکستانی وزیراعظم کو نیو یارک بھیجا اسے چھین لیا جس سے پاکستان کی کافی سبکی ہوئی تھی نہ صرف یہ بلکہ سعودی عرب نے جو قرضہ ہنگامی بنیادوں پر دیا تھا وہ بھی واپس مانگ لیا اور ادھار پر تیل کی فراہمی بھی بند کر دی تھی سوال یہ ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران ایسا کچھ کیا ہوا کہ سعودی عرب کو دوبارہ پاکستان کی ضرورت پڑ گئی آیا اسے اپنی سلامتی کیلئے پاکستانی دستوں کی ضرورت ہے یا ایران سے مذاکرات کا جو خفیہ سلسلہ شروع کیا ہے اس میں مدد دینے کیلئے اسے پاکستان کی عسکری قیات کا تعاون درکار ہے ہنوز معاملات دھند میں چھپے ہوئے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ سعودی عرب کو کسی خاص وجہ سے پاکستان کی دوبارہ ضرورت آن پڑی ہے۔
پاکستانی سرکاری میڈیا آرمی چیف اور وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقاتوں کو بہت کامیاب قرار دے رہا ہے لیکن ”سنگ برسر یتیم“ کے مصداق سعودی عرب کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان کی حد درجہ تضحیک کا پہلو بھی سامنے آیا ہے ایک طرف کئی معاہدے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سعودی حکومت نے اپنے شہریوں سے پاکستان کی امداد کیلئے زکواۃ جمع کرانا شروع کر دیا ہے جبکہ ایک پاکستان فنڈ بھی قائم کر دیا گیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر 50کروڑ ڈالر فراہم کئے جائیں گے سوچنے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کا رویہ دوستانہ ہے یا تضحیک آمیز کیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک برادر ملک پاکستان جیسے بڑے ملک کی امداد کیلئے زکواۃ اور خیرات جمع کر کے دے گا؟ سوچنے کی بات ہے کہ ”بڑوں“ نے اسی دن کیلئے جناب عمران خان کو اقتدار دلایا تھا کہاں خان صاحب نے شروع میں بلند و بانگ دعوے کئے تھے اور کہا تھا کہ ان کے دور اقتدار میں بیرون ملک سے لوگ کاروبار اور نوکری کیلئے پاکستان آئیں گے اور کہاں وزیراعظم اپنے ذاتی اداروں کے علاوہ ملک کیلئے بھی دوست ممالک کے آگے جھولی پھیلائے نظر آتے ہیں گوکہ خان صاحب کو کورونا کی وجہ سے انتہائی نامساعد حالات کا سامنا ہے لیکن ان کے پاس اس ناگہانی آفت سے نکلنے اور معیشت کو چلانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے خان صاحب کے تیسرے وزیر خزانہ شوکت ترین منصب سنبھالنے کے بعد معیشت کی ایک خوفناک منظرکشی کی انہوں نے فرمایا کہ اگر آئندہ چار برس تک معیشت کی نمو کو چار یا پانچ کی شرح سے آگے نہیں بڑھایا گیا تو ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائیگی بلکہ وہ رہے گا نہیں مقام افسوس ہے کہ ایک طرف خان صاحب اور ان کا طرفدار درباری میڈیا مسلسل دعوے کر رہا ہے کہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے اور گزشتہ دو حکومتوں کی وجہ سے ملک کا جو دیوالیہ نکل گیا تھا وہ خطرہ ٹل گیا ہے لیکن دوسری جانب معیشت کی جو حقیقی صورتحال ہے وہ بہت گھمبیر اور تشویشناک ہے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا معاشی سہارا غیر ممالک میں مقیم پاکستانی محنت کشوں کی جانب سے بھیجا گیارہ 24ارب ڈالر ہے جس کے بغیر یہ ریاست ایک دن بھی نہیں چل سکتی گوکہ کورونا کے باوجود برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن روپے کی قدر گر جانے کی وجہ سے اس کا حجم زرداری کے دور سے کم ہے حالانکہ کورونا کی وجہ سے پاکستان کو کئی فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں نے اپنے قرضوں کی وصولی موخر کی ہے جبکہ ان اداروں نے پانچ ارب ڈالر سے زائد رقم بطور امداد بھی دی ہے ایک مشکل یہ ہے کہ ناکامی کے باوجود پاکستانی عوام کو مزید دو سال موجودہ حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا تحریک انصاف کا تو اپنا پلان یہ ہے کہ وہ اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان کے ایک ملین ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی پارٹی قیادت کے خیال میں ان ووٹوں کی مدد سے وہ دوبارہ اکثریت حاصل کر لے گی اور عمران خان 2028ء تک وزیراعظم رہیں گے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان بے جگری سے اعلان کرتے کہ وہ ناکام ہوئے ہیں اس لئے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں گے تاکہ ملک کو موجودہ مسائل سے نکالا جا سکے لیکن موصوف بضد ہیں کہ وہ مزید سات برس تک اقتدار نہیں چھوڑیں گے الفرض محال اگر خان صاحب مزید سات برس تک اقتدار پر براجمان رہے تو ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کی وجہ سے یہ ملک کہاں پہنچے گا؟ اس بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اگر سعودی عرب نے کوئی بڑا مالیاتی پیکیج دیا ہے تو چندہ ماہ سکون سے گزر جائین گے لیکن اس ریاست کے جو اخراجات ہیں انہیں پورا کرنا مشکل ہے اور معاملہ دوبارہ اسی مقام پر جائیگا جہاں پہلے تھا اس میں قصور صرف خان صاحب کا نہیں ہے جو ریاستی ڈھانچہ ہے اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں جبکہ آمدنی کم ہے اتنی بڑی ریاست اتنے خسارے میں کیسے چل سکتی ہے اگر منصوبہ بندی نہ کی گئی اور آمدنی کے ٹھوس ذرائع پیدا نہ کئے گئے تو دیوالیہ ہو جانا نوشتہ دیوار ہے خان صاحب کے اعلان کے باوجود بے تحاشا حکومتی اخراجات میں کمی لانے میں ناکام رہے مہنگائی کی وجہ سے ان میں 28فیصد اضافہ ہو گیا ہے یعنی لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب سے سرمایہ کاری کے معاہدوں کا کوئی علم نہیں لیکن مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ وہ کئی منصوبوں پر سرمایہ کاری کرے گا موجودہ حکومت کے ابتدائی دور میں سعودی عرب نے گوادر میں ایک آئل ریفائنری لگانے کا اعلان کیا تھا لیکن تعلقات کی خرابی کے بعد خاموشی اختیار کی گئی۔
ایک اطلاع کے مطابق ”ریکوڈک“ کو چلانے کیلئے خفیہ سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن یہ معلوم نہیں یہ منصوبہ پرانی کمپنی کے ذریعے چلایا جائیگا یا سعودی عرب اس میں دلچسپی رکھتا ہے اس سلسلے میں آئندہ کچھ عرصہ میں بات واضح ہو جائیگی لیکن یہ بات طے ہے کہ حکمرانوں کے پاس بلوچستان کے ساحل وسائل کے علاوہ دینے کیلئے کچھ اور نہیں ہے جو بھی معاہدے سرمایہ کاری یا سودے طے کئے جائیں گے ان میں بلوچستان کے قدرتی اثاثے ہی مارکیٹ کر دیئے جائیں گے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت مسلسل محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے جب اندرونی اختلافات زیادہ ہوں تو سیاسی استحکام کبھی نہیں آ سکتا بد قسمتی سے حکومت کو اس کی پرواہ نہیں ہے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ن لیگ اس وقت رعائتیں لینے کیلئے بے تاب اور خفیہ ڈیل کیلئے تیار ہے کچھ حلقوں سے اس کی بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن حکومت نے شہباز شریف کو لندن جانے سے روک کر حالات کو محاذ آرائی کی طرف لے گئی ہے حالانکہ شہباز شریف خفیہ مذاکرات کی تفصیلات دینے بڑے بھائی اور پارٹی کے سپریم لیڈر نواز شریف کو آگاہ کرنے کیلئے جا رہے تھے اگر وہ فرصت کے چند لمحات اپنے لندن کے محل میں گزار کر اور مزید سمجھوتے کیلئے تیار ہو کر آتے تو کیا مضائقہ تھا کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان نے انا اور ضد میں کمی نہ لائے تو ریاست کے معاملات کو چلانے کیلئے ان کی قربانی ناگزیر ہو جائیگی کیونکہ سعودی عرب بھی اپنے مطلب کی صورتحال دیکھنا چاہتا ہے وہ ہمارا علاقائی ”باس“ ہے جبکہ امریکہ ”مائی باپ“ اگر امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کے حالات ٹھیک نہ ہوئے تو امریکہ کے تیور بدل جائیں گے اور وہ پاکستانی حکومت کیلئے مسائل پیدا کرے گا ان چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے جو کہ حکومتی حلقوں میں نظر نہیں آتی۔