کتاب: افریقہ کے بلوچ

تبصرہ: ڈاکٹر اصغر دشتی

اس کتاب کے مصنف معروف علمی و ادبی شخصیت یارجان بادینی ہیں۔ 188صفحات پر مشتمل یہ کتاب یارجان بادینی کی اعلیٰ تحقیقی کاوش ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ غلام فاروق بلوچ صاحب نے کیا ہے۔ یہ کتاب ان مختلف مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو مختلف افریقی ممالک میں آباد بلوچوں کی تاریخ، ثقافت، سماجی اور معاشی حالات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ کتاب کے انتساب میں بھی لکھا گیا ہے کہ ”یہ کتاب افریقہ میں بسنے والے بلوچوں کے نام منسوب ہے جنہوں نے تقریباً چار سو سال گزرنے کے باوجود اپنی شناخت کو برقرار اور موروثی سرزمین کو یاد رکھا ہے۔“
کتاب میں شامل تمام مضامین بلوچی ادبی رسالہ ”لبزانک“ میں شائع کیے جاچکے ہیں۔ لبزانک کا نام میں نے پہلی دفعہ کامریڈ واحد بلوچ سے سناتھا جو طویل عرصہ لبزانک سے وابستہ رہے تھے۔ وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں تاہم لبزانک کی بندش بلوچی ادب کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر تمام مواد کو دوبارہ اردو میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا تاکہ وہ افراد جو بلوچی نہیں پڑھ سکتے ان تک بھی یہ معلومات پہنچائی جاسکے۔ کتاب میں مختلف افریقی ممالک کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا، زائرے، روانڈا اور برونڈی جہاں بلوچ آباد ہیں ان کا مختصر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ (محتاط اندازہ کے مطابق) افریقہ میں بلوچوں کے دس ہزار کے قریب خاندان آباد ہیں۔ مصنف کے مطابق بلوچوں کے تین گروہ اس وقت مشرقی اور وسطی افریقہ میں آباد ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو اپنا منبع و ماخذ عمان (مسقط) کو قرار دیتا ہے جو عمان سے ہجرت کر کے افریقہ میں آباد ہوئے۔
دوسرا گروہ مغربی (ایرانی) اور مشرقی (پاکستانی) مکران بلوچستان کے علاقوں نیک شہر، گہہ، قصرقند، چاہ بہار، سرباز اور مند وغیرہ سے ہجرت کر کے وہاں آباد ہوئے۔
تیسرے گروہ کا تعلق برصغیر ہندوستان کے گجرات کے علاقوں سے ہے۔ (واضح رہے کہ مکران کے بلوچوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی دہلی، بمبئی، جونا گڑھ اور جام نگر میں آباد ہے۔)
مصنف عمان میں بلوچوں کے آباد ہونے کی وجہ ان کی جنگی و فوجی خدمات کو قرار دیتا ہے۔ 16ویں صدی میں جب پرتگیزیوں نے عمان پر قبضہ کیا تو سلطان عمان نے مکران کے مقامی حاکموں سے بلوچ جنگجو اور کشتیاں وغیرہ اکٹھی کر کے دوبارہ پرتگیزیوں پر حملہ کر کے پرتگیزیوں کو نکال باہر کیا۔ اس طرح سلطان عمان کی جانب سے مشرقی افریقہ پر قبضہ کے لیے بڑی تعداد میں بلوچ سپاہیوں کا استعمال کیا گیا۔ مشرقی افریقہ پر قبضہ کے لیے سلطان عمان اور پرتگیزیوں کے درمیان کافی جنگیں ہوئیں جن میں بلوچ سپاہی پیش پیش تھے۔ 1698ء میں جب مشرقی افریقہ میں عمانی عملداری مستحکم ہوئی تو بلوچ سپاہی اور ان کے خاندان وہاں آباد ہوگئے۔ مقبوضہ علاقوں کی حفاظت کے پیش نظر علاقوں کے فوجی کمانڈر بلوچ مقرر کیے گئے جبکہ سیاسی، انتظامی اور مالی اختیار عرب والیوں کے سپرد کیے گئے۔ تاہم زیر تبصرہ کتاب اس حوالہ سے خاموش ہے کہ
مشرقی افریقہ میں عمانی قبضہ کی کیا وجوہات تھیں۔ میری دانست میں ایک طرف وہ مشرقی افریقہ پر قبضہ کر کے حکمران بننا چاہتے تھے اور دوسری طرف ساحلی علاقوں سے بھاری ٹیکس اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ افریقہ کے ساحل بحرۂ ہند کی تجارت کے حوالہ سے نفع بخش تھے۔ اس کے علاوہ تنزانیہ کے قریب کھلوا (Kilwa) کا علاقہ سونے کی تجارت کے حوالہ سے کافی مشہور تھا۔ سونے کے ساتھ ساتھ ہاتھی دانت اور غلاموں کی تجارت کے حوالہ سے بھی کھلوا اور دیگر افریقی ساحل بہت نفع بخش تھے۔اسی طرح کسی زمانہ میں جب گوادر سلطان عمان کے زیر نگین تھا تو گوادر کے ساحل غلاموں کی تجارت کی بہت بڑی منڈی تھی۔
مصنف کے مطابق سلطان مسقط کی قبضہ گیریت کے خلاف ہونے والی مقامی مزاحمت کو مشہور بلوچ کمانڈر جمعدار تنگئی اور جمعدار گنگزار نے کچل کر رکھ دیا۔
کتاب میں بلوچ کمیونٹی ممباسہ کے جنرل سیکریٹری نواز خان بلوچ فاضل مصنف کو اپنے دئیے گئے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ جب کینیا، تنزانیہ اور زنجبار پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تو عمانی حکمران افریقہ سے نکل گئے اور جاتے جاتے وہ صرف عرب سپاہیوں کو اپنے ساتھ مسقط لے گئے اور بلوچ سپاہیوں کو وہیں (افریقہ) چھوڑ دیا۔ نواز خان بلوچ کے مطابق عمانی حکمرانوں کو بلوچ سپاہیوں کی اتنی فکر نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سیاسی وجوہات کی بناء پر بلوچ سپاہیوں کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو برسوں تک عمانی حکومت کے لیے خون بہاتے رہے اور قربانی دیتے رہے۔ بعدازاں برطانوی حکومت نے ان بلوچ سپاہیوں کو ان کی مقامی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کیا۔ ان کے اصل علاقے ان سے چھین لیے گئے اور انہیں ”مکادرہ“ میں آباد کیا گیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے بلوچوں نے عمان جا کر بسنے کی کوشش کی تاہم عمانی حکومت نے بلوچوں کو عمان میں واپس آ کر بسنے کی اجازت نہیں دی اور انہیں برطانیہ کے رحم و کرم پر افریقہ میں بے سروسامان چھوڑ دیا گیا تاہم اس دوران بڑی مشکلوں سے کچھ بلوچ عمان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یوگنڈا سے تعلق رکھنے والے یوسف درا بلوچ کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ عمان کے بلوچوں نے صدیوں تک اپنا خون بہایا اور مشرقی افریقہ کے تمام ساحلی علاقے فتح کر کے عمان کو دئیے۔ یہ بھی تاریخ کی ایک ستم ظریفی تھی کہ جن بلوچ جنگجوؤں کی وجہ سے سلطنت عمان کا پرچم افریقہ میں لہراتا تھا اور جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں وہاں سے نکلنے کے بعد ان ہی بلوچوں کو نظرانداز کردیا گیا۔
فاضل مصنف کے مطابق مشرقی افریقہ میں سکونت اختیار کرنے والے بلوچوں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وہ جو سلطان کی فوج میں شامل ہو کر وہاں گئے اور وہیں آباد ہوگئے، دوسرے وہ جو افریقہ میں آباد بلوچوں کے رشتہ دار تھے یا ان کے علاقہ والے تھے۔ انہوں نے جب مشرقی افریقہ کے بارے میں سنا تو انہوں نے بھی ایک بہتر زندگی کی امید میں مکران سے ہجرت کی۔ مصنف نے اپنی کتاب میں 1898ء میں برطانیہ کی جانب سے کینیا۔ یوگنڈا ریلوے لائن کی تعمیر میں ہندوستان کے بلوچ مزدوروں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا تعلق گجرات سے تھا۔ بعد میں یہ بلوچ مزدور افریقہ میں ہی بس گئے۔ اسی طرح یوگنڈا میں برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لیے برٹش ہندوستان سے بلوچ فوجی یونٹوں کی آمد کے حوالہ سے بھی کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ کینیا سے تعلق رکھنے والی بلوچ ڈاکٹر فوزیہ میر در نے مصنف کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں مکران میں اپنا کلینک کھولنے اور اپنے ہم وطنوں کی خدمت کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ کتاب میں افریقہ کے بلوچوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی زندگی کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ خاص طور پر سانگ بندی، لب، آروس جیسی رسومات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنف کے مطابق افریقہ کے بلوچ بلوچی زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم نوجوان نسل آہستہ آہستہ سواحلی اور انگریزی زبانوں کو اپناتی جارہی ہے۔ کتا ب میں افریقہ میں آباد بزرگ بلوچ افراد کی اپنے وطن مکران واپس جانے کی شدید آرزو اور خواہش کا اظہار بھی ملتا ہے اور ان کی امنگوں میں چھپا ناسٹلجیا صاف نظر آتا ہے۔ یہ کتاب افریقہ میں آباد بلوچوں کے تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان، ایران، افغانستان اور دیگر خطوں میں آباد بلوچوں کے لیے انتہائی دلچسپ اور کارآمد ثابت ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں