کتاب ” خار زار سیاست میں ” پر چند بے ربط سطور

تحریر: یلان زامرانی
”کتاب خارزار سیاست میں ” ایک ایسے سیاسی رہنماء کی یاد داشتیں ہیں جنہوں نے سیاست کے میدان میں مخلصی سے کارکن سے لیڈر بننے تک شارٹ کٹ نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر ممتاز مقام حاصل کیاہے۔ یہ کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو بلوچ اور بلوچستان کے سیاسی تاریخ پر منتج ہے۔ سب سے پہلے صاحب کتاب اور بزرگ سیاسی رہنماء واجہ کامریڈ رفیق کھوسو مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی سفر کے شب و روز اور مشکلات ومصائب سے بھرے سیاسی سفر کو قلمبند کیاہے۔اور اسی طرح مبارکباد کے مستحق ہیں معروف علمی وادبی سرچشمہ مہردر جس کے نام سے مہر ومحبت کی خوشبوبلوچستان بھر میں پھیل رہی ہے۔
کامریڈ رفیق کھوسو صاحب نے اپنی یاد داشتوں کو لکھنے کا سلسلہ معروف آن لائن ویب سائیٹ حال واحوال سے کیاتھا جہاں مجھ سمیت کئی دیگر نو آموز کو سیکھنے کاموقع ملاتھا لیکن افسوس کہ حال واحوال بھی اب بند ہوگیا۔
کامریڈسے شناسائی کے بعد فیس بک کے ذریعے ملنے کا موقع ملا، لیکن مزید جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اس مرد مجاہد کی کتاب (خارزار سیاست میں) کو ہم سب نوجوان اور سیاسی کارکنان پڑھیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر کہیں آپ آبدیدہ ہوں گے تو کہیں خیالات کی دنیا میں محو سفر ہوں گے۔
اس کتاب کے ذریعے آپ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے نازک ترین ادوار کا مطالعہ کرسکیں گے جو 70ء کی دہائی سے بی ایس او سے شروع ہوکر پھر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے 2008ء تک بی آرپی سے ہی ختم ہوں گے۔
اس دوران کامریڈ نے مختلف سیاسی پارٹیوں اور مختلف افکار سے لیس تنظیموں کو قریب سے دیکھاہے اور جانچا ہے جو انہوں نے بہتر سمجھا ہے اسی پر چلاہے لیکن کبھی حقیقی سیاست سے اپنے آپ کو دور نہیں کیاہے۔کتاب میں بعض اہم واقعات کابھی ذکر ہے جو بلوچستان کی آتش فشاں کو مزید پھٹنے کے باعث بنے ہیں، خصوصاً 2،3جنوری 2005ء کی درمیانی شب میں ڈاکٹر شازیہ خالد کیس جو ڈیرہ بگٹی میں رونماء ہوا اور پھر اس کیس کے بعد نواب اکبرخان بگٹی شہید کی جانب سے مجرموں کو حوالہ کرنے کامطالبہ کرنا اور پھر اس مسئلے کی وجہ سے ڈیرہ بگٹی سے تراتانی تک نواب صاحب کاسفری احوال اور پھر بلوچستان میں مزاحمتی سیاست کی از سر نو تشکیل اور پارلیمانی سیاست سمیت مختلف حادثات و واقعات اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب میں بی ایس او کی تشکیل وتکمیل سے لیکر اس کی انتشار اور خلفشار کے واقعات اور مختلف ادوار کی اندرونی معاملات وصورتحال بیان کیے گئے ہیں۔
بہرحال کامریڈ رفیق مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نئی نسل کی راہنمائی کیلئے اپنے سیاسی یاداشتوں کو سپرد قلم کردیاہے اور آئندہ بھی کریں گے، امیدہے کہ اسی کی پیروی کرتے ہوئے دیگر سیاسی، علمی، ادبی، دینی اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی اپنی اپنی یاد داشتوں کو لکھیں گے۔
ایک مرتبہ معروف بلوچ دانشور وادیب جان محمد دشتی سے ایک علمی وادبی نشست کے دوران میں نے سوال کیا کہ واجہ! کیا آپ اپنی بائیوگرافی لکھ رہے ہیں تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ اس بار گراں کو اتارنا میرے بس کی بات نہیں کیوں کہ ماضی بہت تلخ ہے شاید ہماری نسل اسے برداشت نہ کر سکے۔بہرحال اگر دشتی صاحب سمیت دیگر بلوچ دانشور وادیب اور شخصیات اس سلسلے کو آگے بڑھائیں تو ایک مثبت پیشرفت ہوگی۔ اس سلسلے میں واجہ عبدالرحیم ظفر کا کردار قابل ستائش ہے جنہوں نے اپنی یاد داشتوں پر مشتمل چار کتابیں لکھی ہیں اور مزید لکھ رہے ہیں، جبکہ کیچ سے تعلق رکھنے والے قاضی نوراحمداور شال کے زرک میر کی کتابیں بھی اسی سلسلے کی بہترین کڑیاں ہیں امیدہے کہ ہمارے دیگر اکابرین بھی اس جانب توجہ دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں