عرب نیشنلزم۔اسرائیل اور امریکہ

جیئند ساجدی
انگریزی زبان میں کہاوت ہے کہ”جیت کے بہت سے دوست ہوتے ہیں لیکن شکست ہمیشہ یتم ہوتا ہے“اگر اس کہاوت کو مد نظر رکھ کر اسرائیل فلسطین تنازعے کا معائنہ کیا جائے تو یہ بات بلکل درست ثابت ہوتی ہے۔امریکہ سمیت سارے مغربی ممالک اسرائیل کے حق میں ہے اور کمزور فلسطینیوں کے انسانی اور سیاسی حقوق ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ تنازعہ سو سال سے بھی پرانا ہے۔بعض ماہر تعلیم،قوم پرستی ّ(Nationalism)کو دور جدید کی چیز قرار دیتے ہیں۔اور اس کی تاریخ 18ویں صدی کے انقلاب فرانس سے جوڑتے ہیں۔ان ماہرین کے مطابق 18ویں صدی سے قبل قوم یا قوم پرستی نام بھی کوئی چیزنہیں تھی۔اور اکثر لوگ اپنی شناخت اپنے چھوٹے چھوٹے گروہوں یاقبیلوں سے کرواتے تھے۔قومی ریاست کی بجائے دنیا بھر میں بادشاہی نظام رائج تھا۔18ویں صدی کے اختتام پر دنیا بھر بالخصوص یورپ میں بہت سی قومی تحریکیوں نے جنم لیا۔اسی دوران متعدد قومی ریاستیں جیسے کے پولینڈ،چیکوسیلوکیا،اٹلی،جرمنی،یونین وغیرہ وجود میں آئی۔اس دوران قوم پرسی کے ساتھ ساتھ نسل پرستی کو بھی یورپ میں پروان ملی۔
اس دوران یورپ میں مقیم یہودیوں کو امتیازی سلوک اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا اسی نسلی امتیاز کی وجہ سے یہودی قوم پرستی نے بھی جنم لیااس دوران تیوڈر ہرزل نامی ایک یہودی دانشور نے ذاؤنسٹ(Zionist) تحریک کا آغاز کیا اور یہ مفروضہ پیش کیا کہ فلسطین خدا کی طرف یہودیوں کو عطاء کی ہوئی سرزمین ہے لہذا وہ نسلی تعصب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے اپنے آبائی وطن یعنی فلسطین پھر سے لوٹ جائیں۔جب تیوڈر ہرزل نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا تو اس وقت متعدد عرب ممالک پر سلطنت عثمانیہ یعنی ترکوں کی حکومت تھی۔پہلی عالمی جنگ سے قبل برطانیہ نے یہودیوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ترکی کو شکست دینے کے بعد فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کا قیام کیا جائے۔اس معاہدے کی تحریری تصدیق برطانیہ نے (Balfour Declaration,1917)کے ذریعے کی تھی۔لیکن اسی دوران ایک اور خفیہ معاہدہ Skyes Picot کے ذریعے برطانیہ،فرانس اور روس نے یہ طے کیا تھا کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ سلطنت عثمانیہ کو آپس میں تقسیم کردینگے اس معاہدے سے فلسطین اور عراق برطانیہ کے زیر انتظام آنے تھے۔فتح حاصل کرنے کے بعد برطانیہ نے یہودیوں اور عربوں سے کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور فلسطین کو اپنے زیر انتظام میں لے لیا تھا۔اس کے علاوہ فلسطینی،عربوں کو مزید کمزور کرنے کے لئے Divide&Ruleپالیسی اپناتے ہوئے برطانیہ نے بڑی تعداد میں یہودی یورپ سے لا کر فلسطین میں آباد کئے۔پہلی عالمی جنگ سے قبل یہودیوں کے فلسطین میں تعداد محض 3فیصد تھی۔اور جنگ کے یہ بڑھ کر 30فیصد ہوگئی۔برطانیہ کے اس رویہ کے خلاف فلسطینیوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیااور 1936سے لے کر 1939برطانیہ کے خلاف گوریلہ جنگ لڑی تھی۔جسے برطانیہ نے فلسطین میں مقیم یہودیوں کی مدد سے کچل دیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے وقت برطانیہ کافی کمزور پڑھ گیا تھاا س نے فلسطین سے نکل جانے کا فیصلہ کرلیا تھا اب فلسطین مسئلہ کا حل برطانیہ نے اقوام متحدہ کے حوالے کردیا تھا۔اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق فلسطین کو دو ریاستوں یعنی اسرائیل اور فلسطین میں تقسیم کردیا جائے گا۔اس قرار داد کے مطابق غزہ اورویسٹ بینک فلسطینیوں کے حصے میں آنے تھے اور یروشلم جو مذہبی حوالے سے مسلمانوں اور یہودیو ں دونوں کے لئے مقدس ہے اسے بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا جائے گا۔اس تقسیم کو عرب دنیا نے قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے پہلی عرب اسرائیل جنگ (1947-1949)ہوئی۔اس میں اسرائیل فتح یاب ہوا اور فلسطینیوں کی زمین پر مزید تجاوزات کئے۔جب کہ ویسٹ بینک اردن اور غزہ پر مصر نے قبضہ کرلیا تھا لہذا فلسطین جو بطور ریاست اقوام متحدہ کی قرار داد سے بنا تھا وہ مکمل طور پر ختم ہوااور 7لاکھ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر دیگر ممالک میں بطور مہاجرین رہنے کے لئے مجبور ہوگئے۔جامعہ جارج واشنگٹن کے پروفیسر مائیکل برناٹ کے مطابق اس وقت عالمی طاقت امریکہ جو موجودہ دور میں اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے اس وقت امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی لیکن جب دوسری عرب اسرائیل جنگ (1967ء)میں جب اسرائیل نے محض 6دنوں میں متعدد عرب ممالک کو شکست دے کر ویسٹ بینک اور غزہ سمیت مصر کے علاقے سنہائی اور شام کے علاقے گولن میں قبضہ کیا تو امریکہ اسرائیل کی جنگی صلاحیتوں سے متاثر ہوا اس وقت اس کی سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ جاری تھی اور مشرق وسطی اپنے جغرافی اور تیل کی وسائل کی وجہ سے امریکہ کے لئے کافی اہم تھا۔اس وجہ سے امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا اسرائیل کی فلسطین کی سرزمین غزہ ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم مصر کے سہنائی اور شام کے علاقے گولن پر قبضے کو اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا اور اسرائیل کے خلاف اس وقت اور بعد میں 42قرار دادیں اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جسے ہمیشہ امریکہ نے ویٹو کیا۔سفارتی مدد کے علاوہ امریکہ نے جتنی مالی اور دفاعی مدد اسرائیل کی ہے وہ کسی اور ملک کی نہیں کی۔معروف دانشور نوم چوسکی لکھتے ہیں کہ 1967ء کے جنگ کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو بطور اپنے ملٹری اڈے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس خطے میں امریکی مفادات یہ ہے کہ یہاں سارے عرب ممالک امریکہ کے تابع رہے اور امریکہ کے یہاں کے وسائل اپنے کٹھ پتلی عرب بادشاہ یا فوجی آمروں کے ذریعے لوٹا رہے۔امریکہ کے مفادات کااس کے اتحادی بادشاہوں اور فوجی آمروں نے اچھی طرح سے خیال رکھا ہے۔
امریکہ کومشرق وسطی میں اپنے رائج کردہ غیر جمہوری نظام سے خطرہ صرف عرب قوم پرستی سے ہے کیونکہ امریکہ کو اچھی طرح سے علم ہے کہ دنیا میں آمریت اور بادشاہت کا خاتمہ نیشنلزم کے ذریعے ہی ہوا ہے۔نیشنلزم میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ عام وخاص عرب طبقاتی نظام کا خاتمہ کر کے ان کو ایک کرسکے جیسے کے فلسطینیوں کو کیا ہے اور وہ بغیر ریاست بنا کسی بین الاقوامی مدد سے امریکی حمایت یافتہ ریاست سے گزشتہ 73سال سے مزاحمت کرتے چلے آرہے ہیں۔یہ مزاحمت نیشنلزم کے جذبے کے بغیر ممکن نہیں تھا عرب نیشنلزم سے امریکہ کا خوف جمال عبدالناصر کے دور میں عروج پر تھا اور امریکہ کی اسرائیل حمایت میں جمال عبدالناصر کے خوف کا اہم کردار تھا جمال عبدالناصر مصر کی فو ج میں ایک سپاہی تھے اور مصر 1952ء تک برطانیہ کا باج گزار ریاست تھا اور اس کی حکمرانی ایک مغربی کٹھ پتلی بادشاہ فاروق کے ہاتھ میں تھے۔جمال عبدالناصر نے عرب قوم پرستی کے نظرئیے کا سہارا لے کر مصر میں بادشاہت کا خاتمہ کیا اور عرب دنیا میں پہلا انقلاب لے کر آیا۔ان کی قیادت میں مصر عرب دنیا کا سب سے طاقتور ملک بنا انہوں نے امریکہ سمیت مغربی پالیسیوں کو خطے میں چیلنج کیا اور عرب دنیا کو حقیقی معنوں میں مغرب سے آزاد کروانے کی تحریک شروع کی ان کی مقبولیت میں اضافہ اس وقت ہوا جب انہوں نے Suez Canal کو برطانیہ،فرانس اور اسرائیل سے جنگ لڑ ھ کر آزاد کروایا۔انہوں نے فرانس کے زیر قبضہ الجیریا کی بھی کھلی حمایت کی اور سوویت یونین سے اسلحہ خرید کر امریکی اثر ورسوخ کو خطے میں شدید متاثر کیا۔انہوں نے متوسط عرب طبقے کو یکجا کر نے کے لئے عرب لیگ نامی ایک قوم پرست جماعت بھی بنائی۔اسرائیل کا امریکہ کے لئے سب سے بڑا کار نامہ یہ تھا کہ انہوں نے جمال عبدالناصر سمیت ان کے دیگر اتحادی عرب ممالک کو محض 6دن میں شکست دی یہ شکست جمال عبدالناصر اور عرب نیشنلزم کے لئے بڑا دھچکا تھا۔جس نے امریکہ کے مفادات کے راستے میں سب سے بڑے خطرے کو دور کردیا۔1970ء میں جمال عبدالناصر انتقال کر گئے اور ان کی جگہ انور سادت نے لی جس نے سنہائی واپس کرنے کے عیوض میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگر عرب ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا جس سے اسرائیل کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔جب 1979ء میں انقلاب ایران آیا اس سے قبل شاہ ایران خطے میں امریکہ کے چوکیدار کا فرض ادا کررہے تھے ان کی فوج خطے میں تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھی۔شاہ کے بعد ایران امریکہ کا دشمن بنا جس سے اسرائیل جس کی فوجی تعداد خطے میں صرف ترکی سے کم تھی اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔اب امریکہ اور ترکی سمیت عرب بادشاہت والے ممالک امریکہ کے چوکیداری کے فرائض نبھا رہے ہیں۔امریکہ کے علاوہ عرب بادشاہ اور فوجی آمر بھی اسرائیل کے حق میں ہیں اور محض زبان سے اس بات کا اقرار نہیں کرتے ان آمروں کے مفادات مظلوم فلسطینیوں کے بر عکس امریکہ اور اسرائیل سے جوڑے ہوئے ہیں۔جمال عبدالناصر کے عرب لیگ کے بعد عرب نیشنلزم حماس،حزب اللہ اور اخوانلمسلیمن کے ہاتھوں میں ہیں۔یہ تمام جماعتیں عرب بادشاہت کے خلاف ہیں اور ان کی لیڈر شپ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو جمہوری طور پر منتخب ہوئے ہیں۔سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک ان جماعتوں کو اسرائیل اور امریکی کی طرح دہشت گرد جماعتیں قرار دیتے ہیں۔ان کو اس بات کی آگاہی ہے کہ ان جماعتوں کو اسرائیل ہی امریکہ کی مدد سے قابو میں رکھتا ہے ورنہ وہ کب کا اس خطے کا سیاسی نظام تبدیل کرچکے ہوتے۔2011میں اخوان المسلمین نے مصر میں انقلاب برپا کیا تھا جسے امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب نے ملکر ختم کیا۔ بہت سے سیاسی نابلخ عرب ممالک پر سماجی میڈیا پر اس بات پر تنقید کررہے ہیں کہ عرب ممالک مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہیں کررہا ان کو اس بات کا علم نہیں کہ تمام عرب ممالک غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل کے اتحادی ہے اور ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔دیگر مسلمان ممالک جسے کے ترکی اور پاکستان لفظی طور پر تو اسرائیل پر تنقید کررہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے غیر اعلانیہ اتحادی یعنی سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک پر تنقید نہ کر کے دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ سعودی عرب بھی اس ظلم میں اسرائیل کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں