اب تک بچہ پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔۔۔

تحریر:رشید بلو چ

بلوچستان میں حکومتوں کی تبدیلیاں سیاسی حالات کی اونچ نیچ کے محتاج نہیں ہوتیں، حکومت کے اندر اور باہر رہنے والے اراکین ایڑی چھوٹی کا زور لگا کر قلا بازیاں کھاتے رہیں لیکن ان کی گلاٹیوں سے ایک لڑ کڑاتی حکومت بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی بلکہ حکومتیں گرانے کیلئے بالائی سطح کی ایک مضبوط اور جاندار رپورٹ ہی کافی ہوتی ہے لہٰذا یہ سمجھ لینا کہ اپوزیشن اور ناراض اراکین کی کسی چائے پر ہونے والی ملاقاتوں میں حکومت گرانے کی خواہشات کے اظہار سے کوئی حکومت گرائی جا سکتی ہے تو ایسا ہونا ممکن نہیں، مری معاہدے کے تحت ڈاکٹر مالک بلوچ کی نصف حکمرانی کے بعد حکومتی بھاگ ڈور نواب ثنا اللہ زہری کے سپرد کردی گئی، راضی خوشی نواب صاحب کی حکومت چل رہی تھی، نہ کوئی اختلاف تھا، نہ خفیہ ملاقاتیں ہورہی تھیں، نہ کسی تنازعہ نے جنم لیا تھا لیکن بلوچستان کے عوام نے دیکھا کہ اچانک ایک مخالف لابی سامنے آگئی،جو لوگ نواب ثنا اللہ کے انتہائی قریبی مانے جارہے تھے وہ” باغی“ بن گئے یہاں تک کہ نواب صاحب کے قریب ترین رشتہ دار بھی باغی گروپ کے ساتھی بن گئے،چشم زدن میں نواب ثنا اللہ حکومت دھڑن تختہ ہوگئی،یعنی کہ حکومت گرانے اور بنانے کے اس پورے سنہاریو میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت درکار ہوا،1998میں سردار اختر مینگل اور اس سے قبل نواب اکبر خان بگٹی کی حکومتوں کے خاتمے کیلئے کوئی بڑی سیاسی محرک کار فرما نہیں تھی، تمام حکومتیں گرانے کیلئے اچانک کے ”اختلاف“نے کام کر دکھایا ہے، جام کمال کی حکومت معرض وجود پانے کے ساتھ ہی اختلاف کی خبریں سامنے آنا شروع ہوگئیں یہ اختلافات حکومتی کارکرگی یا حکومتی ایم پی ایز کے سالانہ بجٹ میں اسکیموں کی کم یا زیادتی نے جنم نہیں دیئے،ممکن ہے زیادہ تر اراکین کی ناراضگی کی وجہ اسکیمات میں کمی بھی ہو لیکن بجٹ پر ناراض ہونے والے آپس میں گلہ شکوہ کرنے کے علاوہ اس سے آگے بڑھنے کے حق میں نہیں،جو اراکین جام حکومت گرانے کی باتیں کر رہے ہیں ان کا مسئلہ جام کمال بذات خود ہیں، وہ جام کمال کی جگہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر خود کو دیکھنا چاہتے ہیں،باغی اراکین پر مشتمل بلوچستان عوامی پارٹی بڑی عجلت سے بنائی گئی، جب تک بلوچستان عوامی پارٹی نہیں بنی تھی تب تک خیال کیا جارہا تھا کہ ن لیگ کے تمام باغی گروپ پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گے مستقبل میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی 2008کی طرح اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی لیکن بیچ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ آگیاجس کی وجہ سے بلوچستان عوامی پارٹی بنانے کا پلان بن گیا،پارٹی بنتے وقت جو لوگ نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت گرانے میں پیش پیش تھے یا ان کا کردارزیادہ اہم تھا انہوں نے 2018کے عام انتخابات کے نتیجے میں خود کو وزارت اعلیٰ کے سانچے میں ڈالنا شروع کر دیا،عام انتخابات کے بعد کم سے کم چار شیروانیاں تو بن گئی تھیں لیکن زہے قسمت چاروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا،ان میں جو سمجھنے والے تھے ان کو درک لگ گیا کہ ماحول انکے حق میں نہیں لیکن کچھ نادان دوست اب بھی اپنی خوش قسمتی کی آس لگائے بیٹھے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً اختلافات کا شوشہ وٹس اپ گروپ میں چیٹنگ اور چائنکی ہوٹلوں میں چائے کا چسکی لینے والے عوام کیلئے موضوع بحث کی بن رہی ہے۔۔۔
وزیراعلیٰ کمال سے شدید اختلاف رکھنے والے ہمارے علاقے دار اسپیکر بلوچستان اسمبلی آئسولیشن سے باہر نکل آئے ہیں ہمیں میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ ان پر بھی عالمی وبا کرونا وائرس کا حملہ ہوا تھا،اچھی بات یہ ہے کہ وہ کرونا کو مات دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں، انکے صحت یاب ہو نے پر شکر بجا لانا چاہیئے،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی آئسولیشن کس انداز سے ختم کریں گے، سردار محمد صالح بھوتانی گورنر بلوچستان کو اپنا استعفیٰ سونپ کر عملًا حکومت سے علیحدہ ہوچکے ہیں،سردار صاحب کے استعفیٰ دینے کے اگلے ہی مرحلہ سردار یار محمد رند سے انکی ملاقات ہوئی ہے، لامحالہ موضوع سخن جام حکومت ہی ہوگا کیونکہ سردار یار محمد رند بھی وزیر اعلیٰ جام کمال سے خوش نظر نہیں آتے،رندوں کے سردار جام آف لسبیلہ کی بے رخی پر گلہ مند ہیں،سرداری طبقہ بلوچستان کا وہ ایلیٹ کلاس طبقہ ہے جن کی اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہیں،یہ ا یلیٹ کلاس طبقہ ایک دوسرے کے علاقائی مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں،قبائلی دشمنیوں سے مبرا سرداران ہمیشہ ایک دوسرے سے تعاون کا متمنی بھی رہتے ہیں جہاں امید بر نا آئے وہاں گلہ شونی کا حق بھی جتاتے ہیں،حکومت نام کی دوشیزہ ہمارے ایلیٹ کلاس طبقے میں اختلاف کو جنم دیتی ہے،اب خیر سے ہماری مڈل کلاس اشرافیہ بھی اس دوشیزہ پر فریفتہ ہوچکی ہے،اس لیئے اختلافات کی ہانڈی میں مختلف انواع پکائے جارہے ہیں۔۔۔
تحریک انصاف بلوچستان میں بی اے پی کی مخلوط حکومت میں شامل ہے جب کہ مرکز میں بلوچستان عوامی پارٹی تحریک انصاف کی اتحادی ہے،دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مجبوری بنی ہوئی ہیں،جام حکومت بنتے وقت تحریک انصاف کے حصے میں آنے والی وزارتیں جہانگیر ترین کے کہنے پر ان لوگوں کو دی گئیں جو جہانگیر ترین کے قریبی مانے جاتے ہیں، حالانکہ اس وقت سردار یار محمد رند تحریک انصاف کے صوبائی صدر تھے اسکے باوجود نہ تو سردار رند کو کابینہ میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان سے رائے پوچھی گئی، سینٹ الیکشن میں بھی سردار صاحب کو پرے رکھ کر عبدالقادر کو سینٹر بنانے کافیصلہ کیا گیا جسکی سردار صاحب نے علیٰ اعلان مخا لفت بھی کی تھی لیکن پارٹی قیادت کی جانب سے درخوداعتنا نہیں سمجھا گیا مجبوراً سردار صاحب کو ہتھیار ڈالنے پڑا اس لیئے علاقائی حوالے سے جام کمال سے گلہ بجا لیکن اصل گلہ سردار صاحب کو اپنی جماعت کی قیادت سے کرنی چاہئے،آثار بتا رہے ہیں کہ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی کے امکانات کہیں سے بھی نظر نہیں آرہے، ایک کہا وت ہے پہلے بچے کی ماں بننے والی پا نچ ماہ کی حاملہ بہونے ساس سے کہا کہ میرا پہلا بچہ ہے اگر رات کے کسی پہر بچہ پیدا ہونے کا وقت ہوا اور میں گہری نیند میں ہوں تو بچہ پیدا ہونے سے پہلے مجھے نیند سے اٹھا لینا، ساس نے جواب دیا زرا صبر کر جب وقت آئے گا تو مجھے اٹھانے کی نوبت نہیں آئے گی، ابھی تک حکومت تبدیل کرنے کا وقت نہیں آیا جب وقت آئے گا خفیہ ملاقتوں کی نوبت نہیں آئے گی لہٰذا جب تک امام مسجد طلوع سحر کی ازان نہ دے تب تک لمبی تان کر سو جانے میں عافیت ہے، لمبی ملاقاتوں سے آپس کے تعلقات میں وسعت تو آ سکتی ہے لیکن ان ملاقاتوں سے حکومت کی تبدلی نہیں ہوسکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں