نصف درجن

تحریر: جمشید حسنی
بارکھان میں زمین کے تنازعہ پر چھ افراد قتل ہوئے قرآن کہتا ہے جس نے ایک قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔کائنات میں پہلی موت غیر فطری تھی۔حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے قربانی کی ہابیل کی قربانی قبول ہوئی قابیل کی نہ ہوئی اس نے حسد میں بھائی بابیل کو مار ڈالا یہ قصہ اسلامی کتابوں میں ہے۔فلسفہ میں بحث ہے کہ جب انسان کو خدائے احسن تقویم پیدا کیا تو شرکیوں ہے،آدم کی تخلیق کی ساتھ ہے شیطان کو آدم کوسجدہ کا حکم ملا اس نے انکار کیا ور دھتکارا گیا شیطان نے خدا سے مہلت طلب کی کہ وہ دکھائے گا انسان نافرمان اور ناشکرا ہے اسے مہلت دی دی گئی۔
قرآن کہتا ہے سب کچھ لوح محفوظ ہے۔خدا کی مرضی کے بغیر پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا،تقدیر تدابیر اختیار بے بسی فلسفی تشریخ کرتے رہے انسان کو اخدا نے عقل دی ہے۔تقدیر کے معاملہ میں وہ بے بس ہے شاعر نے کہا
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہم کو عبث بدنام کیا
اقبال تقدیر کے معاملہ میں کہتے ہیں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں خوار و زبوں
پوری دنیا میں ہر علاقہ نسل مذہب مذہب کے لوگوں میں قتل ہوتے ہیں کھلی چھٹی نہیں ہوتی جرائم کے سدباب کے لئے معاشرہ میں امن وامان قائم رکھنے،قانون اور قانون کا نفاذ کرنے والے انصاف دینے والے بااختیار ادارے ہوتے ہیں،مقصد مظلوم کی داد رسی اور ظالم کی سرکوبی ہوتا ہے تاکہ معاشرہ میں توازن قائم رہے۔طاقتور کو کھلی چھٹی نہیں ہوتی تاکہ کمزور طبقہ پسا نہ جائے پوری دنیا میں عدالتوں میں وکیلوں کا نظام ہوتا ہے قانون کو انصاف خریدنا پڑتا ہے اب یہ آپ کی حیثیت پر منحصر ہے کہ جس طرح بازار میں سستی اور مہنگی مصنوعات ہوتی ہیں آ پ کس کوالٹی کا وکیل رکھ سکتے ہیں۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جب دو آدمی میرے پاس فیصلہ کے لئے آتے ہیں تو ہوسکتا ہے ایک زیادہ چالاک ہو اور فیصلہ اپنے حق میں کروائے،مگر آخرت میں حساب دینا ہوگا۔آج سولا نظام کا ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا ہے۔قانون کی تشریح کا ہے،قرآن کہتا ہے عدل کرو عدل تقویٰ کے قریب ہے۔یہاں بارگین پلی ہوتی ہے کچھ دو کچھ لو اور گھر جاؤ،کیا معاشرتی نظام انصاف دے رہا ہے کیا ملزم اثر ورسوخ،دولت،طاقت کی بنیاد پر چھوٹ نہیں جاتا۔اسلام سے پہلے کے دور کو ایام جاہلیت اس لئے کہتے تھے کہ مرکزی نظام نہ تھا قبائلی دشمنان نسل در نسل چلتی تھیں کیا انصافی سے معاشرہ میں مزید انتشار پیدا ہوتا،قرآن میں حضرت داؤد علیہ اسلام کا قصہ ہے کہ ان کی محل کی چھت پر دو آدمی ہے پوچھا کون ہو تمہارا یہاں کیا کام ہے ایک نے کہا ہم دو بھائی ہے میرے بھائی کی ننانوے اور میری ایک بھیڑ ہے یہ کہتا ہے یہ بھیڑبھی مجھے دو تاکہ میری سو پوری ہوجائیں۔حضرت داؤد نے فرمایا لوگ ظلم کرتے ہیں ان کی تادیب ہوتی دوسرا قصہ ہے کسی کے کھیت کو بھیڑ بکریوں نے اجاڑ دیا شکایت پر حضرت داؤد علیہ اسلام نے فیصلہ دیا کہ نقصان کے ازالہ کے لئے بکریاں کھیت کے مالک کو دی جائیں،حضرت سلیمان بھی موجود تھے انہوں نے کہا نہیں بکریوں کا مالک کھیت پرفضل کاشت کریگا،اس کی بھیڑ بکریاں گزار وقت کیلئے کھیت کے مالک کے پاس رہیں گی فصل تیار ہوئے ہر بھیڑ بکریاں اور کھیت اپنے اپنے مالک کو واپس ہوں گے۔حضرت علی کا زرہ بکتر یہودی نے چرایا۔قاضی نے دونوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا یہاں عدالتوں میں غریب انصاف کے لئے سالہا سال عدالتوں کے پھرے کرتے ہیں وکیل نہ ہو مقدمہ نہیں ہوتا نواز شریف شہباز شریف آصف زرداری خاقان عباسی مریم نواز آج سراج خورشید ودیگر ے کیس کی فوری سماعت ہوتی ہے یہ تضاد ختم کرنا ہوگا،کمیشن بنتے ہیں رپورٹیں آتی ہیں پریشر گروپ بنتے ہیں پھر کہتے ہیں تحفظات دور ہوگئے تحفظات کیا ترقیاتی فنڈ ہم نے تو نہیں سنا کہ اختلاف حلقہ میں سکول کالج ہسپتال پینے کے پانی روزگار کے لئے ہو روالپنڈی رنگ روڈ اربوں ڈوب گئے چینی تیل آٹا،قطری گیس غریب کو کیا انصاف ملا،بات چلی تھی معاشرہ میں امن قانون کے تفاذ کی جب تک معاشرہ میں قانون انصاف سستا نہیں ہوگا جرائم کی سختی سے بیخ کنی نہ ہوگی کچھ نہ ہوگا قتل تفریرات میں دفعہ 302کے تحت ناقابل راضی نامہ تھا مدعی ریاست ہوتی ضیاء الحق کے دور میں قصاص دیت کا قانو ن آیااور تل راضی نامے ہونے لگے کہا حد میں چوری کی سز ہاتھ کانٹاکسی کی انگلی بھی نہ کٹی،شیعہ سنی فقہ جھگڑا شروع ہوگیا جب تک قانون کتابوں میں رہیں گے وکیلوں کی تشریح ہوگی عملی نفاذ ناممکن ہی رہے گا جرائم ہوتا ہے کہتے ہیں تفتیش کمزور ہے ضمانت ہوجاتی ہے کمزور تفتیش کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی قبائلی رنجش بڑھتی رہتی ہیں پچھلے دنوں بارکھان میں سات افراد قتل ہوئے۔صحیح ہے جرم ختم نہیں ہوسکتا مگر کم تو ہوسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں