لندن میں میاں صاحب پر حملہ کی کوشش یاڈرامہ؟

تحریر: انورساجدی
مسلم لیگ ن نے بہت شورمچایا کہ لندن میں چارنقاب پوش سیاہ فام افراد نے پارٹی کے رہبر میاں نوازشریف پر حملہ کی کوشش کی تاہم پولیس بلانے پر یہ افراد وہاں سے چلے گئے یہ واقعہ جمعرات کو پیش آیا تھا لیکن ن لیگ نے ایک دن بعد جمعہ کو اسے پبلک کیا ایک دن کی تحقیقات کے بعد لندن پولیس نے قراردیا کہ آنے والے سیاہ فام باشندے نوازشریف پر حملہ کے ارادے سے نہیں آئے تھے اسی روز ایک پاکستانی نژاد باشندے نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے ذاتی خادم ناصر بٹ ان کے قرضدار ہیں وہ اس کے خلاف عدالت گئے تھے جہاں ناصر بٹ کے جائیداد کی نیلانی کاحکم صادر ہوا لیکن ناصر بٹ اپنے گھر پرملتے نہیں تھے اس لئے وہ عدالتی ”بیلف“ لیکر حسن نواز کے دفتر آئے کیونکہ سارے لوگ اسی دفتر میں جمع ہوتے ہیں چنانچہ اس عدالتی کارروائی کو حملہ کی کوشش سے تعبیر کیا گیا اسی دوران عمران خان کے چابکدست ترجمان شہباز گل نے بگل بجادیا کہ اگر لندن میں نوازشریف کی جان کو خطرہ ہے تو وہ واپس پاکستان چلے آئیں یہاں پر وہ اپنی سیکیورٹی کا بھرپور انتظام کرسکتے ہیں پاکستانی نژاد باشندے کے دعویٰ کے بعد ن لیگ نے ابھی تک کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے البتہ جمعہ کو مریم نواز نے حملہ کی مبینہ کوشش کا الزام عمران خان پر لگادیا اور دعا کی کہ خدا کسی کو کم ظرف دشمن نہ دے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عمران خان اچھے دشمن نہیں ہیں وہ سیاست کو بھی دشمنی کی حد تک لے جاتے ہیں سیاسی مخالفین کیخلاف الزام تراشی اور دشنام طرازی میں ہرحد پار کرجاتے ہیں انہوں نے اپنے کارکنوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ناکام ریاست کی ناکام سیاست کا کلچر مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے اس نئے کلچر میں سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو لوگ حکومت یا عمران خان اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں انہیں قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے تحریک انصاف نے اپنے ہزاروں تربیت یافتہ لوگ سوشل میڈیا میں چھوڑے ہیں جو ہر لمحہ ہر لحظہ سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالتے ہیں ان پر ذاتی حملے کرتے ہیں حتیٰ کہ خاندانی اور گھریلو معاملات کو بھی زیربحث لانے سے نہیں ہچکچاتے عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی پہلا وار میڈیا پر کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ میڈیا از کار رفتہ اورناکارہ ہے اس لئے سوشل میڈیا کو فروغ دیا جائے تاکہ پرنٹ والیکٹرونک میڈیا اپنی موت آپ مرجائے۔اس کے ساتھ ہی مروجہ میڈیا پر معاشی وار شروع کیا گیا تاکہ روایتی میڈیا جان بلب ہوکر دم توڑجائے لیکن تحریک انصاف کی ٹیم بھول گئی تھی کہ سوشل میڈیا کامیدان تو کھلا پڑا ہے اس کا استعمال صرف تحریک انصاف کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ دیگرجماعتیں اور گروپ بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں بہت جلد ایسا ہی ہوا جب دیگر گروپوں نے تحریک انصاف پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی تو اس کی چیخیں نکل گئیں جوں جوں وقت گزررہا ہے حکومت ناکامیوں سے دوچارہورہی ہے حملوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے پاکستانی عوام تو ہر حکومت دقت سے دوسال کے بعد بیزار آجاتے ہیں چاہے وہ اچھی حکومت کیوں نہ ہو تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال ہونے کو آئے ہیں اس کی کارکردگی بھی انتہائی ناقص ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ نئے وزیرخزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا ہے کہ معیشت کو 2018ء کی سطح پر لایاجائیگا یعنی اچھی کارکردگی یہ ہے کہ ملک کو دوبارہ ن لیگ کی سطح پر لایاجائے یعنی ڈھائی سال معیشت منفی میں چلی گئی تھی جب آپ کی کارکردگی کا یہ عالم ہے تو کم از کم پرانے دعوے ترک اور مزید بڑھکیں مارنا بند کردو عوام کو صاف صاف بتادو کہ کن مشکلات اور نامساعد حالات کی وجہ سے معیشت ڈوب گئی تھی حکومت کرونا کی وبا اور عالمی کساد بازاری کابہانہ بناسکتی ہے لیکن وہ بضد ہے کہ معیشت کی خرابی کی ذمہ دار گزشتہ دو حکومتیں ہیں آخر کب تک یہ راگ الاپاجائے گا عوام اس سے بیزار آگئے ہیں امریکہ کی مثال لیجئے صدر ٹرمپ نے ملک کو نسلی اعتبار سے تقسیم کردیا معیشت بھی نیچے چلی گئی انہوں نے انتخابی نتائج کوتسلیم کرنے سے بھی انکار کیا لیکن جب نئے صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالا تو مجال ہے جو کسی ناکافی کی ذمہ داری سابق صدر پرڈال دی ہو آج تک انہوں نے ٹرمپ کا نام تک نہیں لیا بلکہ یہ کہا کہ وہ گزشتہ باتوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنی کوششوں کے ذریعے ملک کو آگے لیکر جانا چاہتے ہیں یہ الگ بات کہ جوبائیڈن کو بھی اسرائیل اور انسانی حقوق کے معاملہ پر یوٹرن لیناپڑا۔عمران خان کی ضد کا یہ عالم ہے کہ وہ حقائق جاننے کے باوجود جہانگیر ترین گروپ کو ظاہری طور پر ماننے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ اندر سے کانپ رہے ہیں انہوں نے گزشتہ ماہ یہ فرمایا کہ وہ جہانگیر ترین سے ملاقات نہیں کریں گے البتہ انکے طرفداروں کے ایک وفد سے ملیں گے لیکن رات کی تاریکی میں انہوں نے جہانگیرترین سے خفیہ ملاقات کی اس کے بعد ترین کیخلاف کارروائیاں روک دی گئیں انہوں نے پنجاب کے نام نہاد وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بھی ہدایت کی کہ وہ ترین گروپ وفد سے ملاقات کریں اوران کی شکایات کا ازالہ کریں اسی طرح انہوں نے اطلاعات کے وزیرفوادچوہدری کو دوروز قبل کہا کہ وہ ترین گروپ کے عشائیہ میں شرکت کریں اگرچہ یہ درست سیاسی اقدامات ہیں لیکن عشائیہ میں موجود لوگوں نے کہا کہ ہم سے جووعدے کئے گئے ہیں ہمیں اس کی گارنٹی چاہئے یعنی ایک ماہ بعد یہ قصہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا سنا ہے کہ پشاور میں بھی ترین گروپ قائم ہونے جارہا ہے جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے کئی ایم این اے درپردہ اس گروپ سے مل چکے ہیں اگر اس دوران حکومت نے خود کو تبدیل نہ کیا اور وزیراعظم نے بعض اہم فائلوں پر دستخط مثبت نہ کئے تو بجٹ کی منظوری کے موقع پر انہیں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے گا تحریک انصاف کیلئے وقتی طور پر اطمینان کی بات یہ ہے کہ ن لیگ پنجاب میں اس کی حکومت کے ساتھ ہے اور اس نے عثمان بزدار کو ہٹا کر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوششوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کیخلاف تحریک چلانے سے پہلے پنجاب حکومت کو گرانے کی کوشش کی جائے ان کے ذہن میں ترین گروپ تحریک انصاف کے ناراض اراکین سے استفادہ کرنے کی کوشش موجود تھی لیکن ن لیگ ڈر گئی کہ زرداری اپنے پرانے حلیف پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بناکر آئندہ انتخابات میں اس کا راستہ روکنا چاہتی ہے اس مہم کا ساتھ دینے کی بجائے ن لیگ نے مقتدرہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اسے یقین دلایا کہ جب اس نے اشارہ دیا تو پنجاب حکومت کو گرادیا جائیگا لیکن مقتدرہ بھی فوری طور پر حکومت گرانے سے کترارہی ہے اسی خوف کی وجہ سے عمران خان نے ن لیگ کیخلاف مزید اقدامات کافیصلہ کیا جن میں حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے شہبازشریف کی بیرون ملک جانے کی کوشش کو ناکام بنانا اور مریم نواز کیخلاف نئے مقدمات کا اندراج شامل ہے گویا ن لیگ کے مسئلہ پر رولنگ ٹرائیکا میں پہلی بار دراڑیں پڑچکی ہیں مقتدرہ کو خدشہ ہے کہ عمران خان آئندہ سال تیسری بار توسیع کی مخالفت کریں گے اگر پارلیمنٹ کی ضرورت پڑ گئی تو یہ کام ن لیگ کی حمایت کے بغیر نہیں ہوگا جو پیش آمدہ صورتحال ہے اس سے تمام فریقین اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ ایک ”چومکھی“ لڑائی کی تیاری کررہے ہیں عمران خان کی کوشش ہوگی کہ وہ ن لیگ کومزید اودھ موا کردیں تاکہ وہ کوئی اہم کردارادا کرنے کے قابل نہ رہے وہ اس مقصد کیلئے ن لیگی قیادت کو خوفزدہ کرنے کیلئے کئی حربے آزمائیں گے۔ویسے بھی ن لیگ کے سپریم لیڈر اور ان کا خاندان بزدل واقع ہوا ہے اس خاندان کو جیلوں دوران حراست اذیتوں اوراپنی جانوں کا ہمیشہ خوف لگارہتا ہے حالانکہ پاکستان جیسے خطرناک ملک میں اپنی جان کو خطرات میں ڈالے بغیر سیاست میں سرگرم رہنا مشکل ہے میاں صاحب کو جب مشرف نے جیل میں ڈالا تھا تو وہ مچھروں،چھپکلیوں اور چوہوں کی شکایت کرتے تھے انہی چوہوں کے خوف سے انہوں نے صرف ایک سال بعد12صفحات پرمشتمل معافی نامے پر دستخط کئے اور جدہ روانہ ہوگئے عمران خان کی جیل کے دوران بھی وہ گرمی،اے سی نہ ہونے اور گھر کے مرغن کھانے نہ ہونے کی شکایت کرتے تھے اس دفعہ تو مقتدرہ نے ایک میڈیکل ڈرامے کے بعد ان کی جان بخشی کردی اور انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے لندن جانے کی اجازت دی حالانکہ ن لیگ کا نشان شیر ہے اور پارٹی قیادت کو شیر کی طرح بہادری کامظاہرہ کرنا چاہئے لیکن خوف کا عالم یہ ہے کہ گھر کے اردگرد اگر کوئی سائے نظر آئیں تو وہ انہیں بھی حملہ آور قراردیتے ہیں اگرمیاں صاحب کوشاہراہ فیصل پر 18اکتوبر2007ء والے دھماکے سے واسطہ پڑتا تو وہ کبھی لیاقت باغ کے جلسہ میں خطاب کرنے نہ جاتے اگر خدانخواستہ شریف خاندان کے کسی فرد کو بھٹو کی طرح ایک بارتختہ دار کا سامنا کرنا پڑا تو یہ پورا خاندان کبھی سیاست کا رخ نہیں کرے گابلکہ اس ملک میں ہی نہیں آئیگا خیر جس خاندان کے پاس صرف برطانیہ میں اربوں ڈالر کے اثاثے ہوں اس کا خوفزدہ ہونا بنتا ہے کیونکہ قارون کے ایسے خزانے کو کون آسانی کے ساتھ چھوڑے گا خاص طور پر 72سال کی عمر میں جب زندگی کے آخری حصے میں بہت ہی آرام اور سکون کی ضرورت ہو تو یہ جیلوں اور قیدوبند کی صعوبتوں کاجھنجھٹ لینا کوئی عقلمندی نہیں ہے میاں صاحب کو پتہ ہے کہ پنجاب میں ان کی مقبولیت برقرار ہے جب بھی الیکشن ہوں اور کچھ اوپر کی آشیرباد ساتھ ہو تو وہ ایک بار پھر برسراقتدار آسکتے ہیں وہ یہ موقع آنے تک لندن کی عالیشان رہائش چھوڑ کر واپس نہیں آئیں گے اگرچہ یہ ذاتی معاملہ ہے لیکن کجا کوٹ لکھپت جیل کا سنگل بیڈ جس پر ملتانی کھیس بچھاہوا تھا اور کہاں ایون فیلڈ کا اپارٹمنٹ جس کی خواب گاہ میں ایک لاکھ ڈالر کی اٹالین بیڈ اور اس پر سجا 10ہزار ڈالر کا مخلمین بیڈ سیٹ لاہور کی چلچلاتی گرمی اور لندن کی خنک فضائیں اعلیٰ سیرگاہیں ایون فیلڈ کے اطراف میں واقع دنیا بھر کے کھانوں کے اعلیٰ ریستوران کوئی پاگل ہی اس ماحول کو چھوڑ کر اقتدار کے بغیر واپس آسکتا ہے میاں صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد پنجاب میں ان کا کوئی متبادل نہیں ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اگرعمرنے وفا کی تو تخت لاہور دوبارہ ان کی سپردگی میں آجائے گا بس یہ لندن میں کالے کالے غنڈوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں