نئی سیاسی صف بندیاں۔۔۔۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا نہیا پیپلز پارٹی نے ڈبو دیا تھا بدلے میں پیپلز پارٹی کو سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی نشست انعام کے طور پر ملا تھا، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان چوہے بلی کا کھیل تو پہلے سے ہی جاری تھا لیکن پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ن لیگ کی جانب سے دی جانے والی نوٹسز نے ٹھوک دی تھی،نوٹس ملنے کے بعد اے این پی نے رد عمل کے طور پر پی ڈی ایم سے الگ ہونے فیصلہ کر لیا،پی ڈی ایم میں دراڑ پڑنے کا سب سے زیادہ صدمہ مولانا فضل الرحمان اور بی بی مریم نواز کو جھیلنا پڑا، دونوں رہنما صدمے کو برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے صاحب فراش ہوگئے تھے،دونوں رہنما اب تک سیاسی آئیسولیشن میں ہیں،شاید انکو اسٹیبل ہونے میں مزید وقت درکار ہوگا، جس وقت پی ڈی ایم میں دہماچوکڑی مچی ہوئی تھی اس وقت ن لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف نیب کے شکنجے میں جگڑے ہوئے تھے، چونکہ اب شہباز شریف صاحب کھلی فضا میں ہیں انہوں نے ایک بار پھر اپوزیشن کی مردہ جان میں سانسیں پھونکنے کاارادہ کر لیا ہے، شہباز شریف نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو کھانے پر بلا لیا ہے، پیپلزپارٹی نے شہباز شریف کی پیٹ پوجا پارٹی میں شامل ہونے کی حامی بھر لی ہے،شہباز شریف کی خواہش ہے کہ پی ڈی ایم کو ایک بار پھر متحرک کیا جائے لیکن ن لیگ کے اندر چند ایک رہنما ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بحا ل نہیں ہونے چاہئے،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے متعلق شہباز شریف سے ا ختلاف ہیں، شاہد خاقان عباسی ن لیگ کے سینئر اور با اثر رہنما ہیں،شاہد خاقان میاں نواز شریف اور مریم نواز کے قریبی مانے جاتے ہیں، میاں نواز شریف کے پانامہ اسکینڈل میں نا اہل ہونے کے بعد خیال کی جارہا تھا کہ پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ آصف کو وزیر اعظم بنا یا جائے گا لیکن مریم نوازکی سفارش پر خواجہ آصف کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا یاگیا، اسکے بعد شاہد خاقان عباسی نے میاں نواز شریف اور مریم نواز سے اپنی وفا داری ثابت کر کے دکھا ئی، پیپلز پارٹی سے متعلق شاہد خاقان عباسی کا شہباز شریف سے اختلاف مریم نواز کے حمایت کے بغیر نہیں ہوسکتا، مریم نواز نہیں چاہتیں کہ چاچو ایک بار پھر اپوزیشن کے پیلٹ فام پر پیپلز پارٹی کو توانا بنا کر بارگیننگ پوزیشن میں لا کھڑا کردیں،پیپلز پارٹی سے جتنی ناراضگی مریم نواز کی ہے شاید اس سے کہیں زیادہ رنجش مولانا فضل الرحمان کو پیپلز پارٹی سے ہے، اتنے رنجشوں کے بعداگر شہباز شریف کی کوشش سے پی ڈی ایم دوبارہ فعال ہو بھی جائے لیکن اس میں پہلے جیسی رمق با قی نہیں رہے گی۔
شہباز شریف کی نیب کیسز میں رہائی کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ انکی رہائی مفاہمت کے تحت طے پائی ہے،شہباز شریف کی اورچوہدری نثار کا متحرک ہونا اس تاثر کو کسی حد تک جلا بخشتی ہے، میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پنگا اور پانامہ میں نااہلی کے بعد چوہدری نثار نے ن لیگ سے دوری اختیار کردی لیکن شہباز شریف سے انکے تعلقات برقرار رہے،شہباز شریف اور چوہدری نثار دونوں کو مقتدرہ کا قریبی مانا جاتا ہے،شہباز شریف اور چوہدری صاحب کا ایسے وقت میں متحرک ہونا اور دوسری جانب جہانگیر ترین کا اپنی ٹیم کے ہمراہ اپنی حکومت کے خلاف صفحہ بندی کرنا محض اتفاق نہیں ہوسکتا، یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جنہیں چینی اسکینڈل میں مورد الزام ٹھرایا گیا تھا اورانکے بیٹے کو سزا بھی سنائی گئی تھی لیکن اس وقت ترین صاحب ملک کر چھوڑ کر لندن چلے گئے تھے،تب انکے ساتھ کوئی پارلیمانی گروپ نظر نہیں آیا،اس پارلیمانی گروپ کا جہانگیر ترین سے رشتہ عمران خان کو ووٹ دینے کے بدلے مراعات لینے تک کاتھا،ان کا جہانگیر ترین کے ساتھ کوئی ذاتی مراسم نہیں، اگر کسی کاکوئی ذاتی مراسم ہو تب بھی سیاست اور ذاتی تعلق دو الگ زاویئے ہیں دونوں کو ایک ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا،جو کام پی ڈی ایم نہیں کر سکی اسے چوہدری نثار،شہباز شریف اور جہانگیر ترین مل کر سر انجام دیں گے،حکومت کیلئے اسے خطرے کی گھنٹی سمجھ لینا چاہئے،شہباز شریف بہ یک وقت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو خوش کر کے آگے جانا چاہتے ہیں تاکہ خلق خدا بھی خوش ہواور ساقی خانہ بھی آباد رہے،اس غیر اعلانیہ تین گروپی اتحاد کے دباؤ کے اثرات آنے والے بجٹ کے بعد آنا شروع ہوں گے، اس کا پہلا حدف وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہوں گے،اگر بزدار صاحب پر وار کامیاب ہوا تو وزیر اعظم عمران خان اگلے شکار ہوں گے،یہ وہی جنگ ہے جو میاں نواز شریف کے دور حکومت کے آخری دو سالوں میں شروع ہوئی تھی،اس وقت بھی یہ جنگ ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان لڑی گئی تھی اب بھی انہی دونوں جماعتوں کے درمیان لڑی جائے گی، اس میدان کار زار میں نہ مولانا صاحب شامل ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو شامل کیا جائے گا،یہ جنگ پنجاب کی ہے اس کوپنجاب کی سرزمین پر لڑی جائے گی، پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے بدلے جو انعام پانا تھا اسے مل چکا، مولانا صاحب کو مستقبل میں فائدے کی امید ہے۔۔
شہباز شریف یا ن لیگ کی مقتدرہ سے دوبارہ تعلقات کی بحالی کا فائدہ بلوچستان میں براہ راست نیشنل پارٹی کو پہنچے گا،نیشنل پارٹی اور ن لیگ میں مراسم 2013کے عام انتخابات میں پروان چڑھے تھے، لامحالہ اسکا کریڈٹ میر حاصل خان مرحوم کو جاتا ہے، جب کہ نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کی تخلیق کو بھی اپنے کھاتے میں ڈالنے کا دعویدار ہے،نیشنل پارٹی برملا یہ بھی کہتی ہے کہ 2018کے انتخابات میں ن لیگ کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھا نا پڑا ہے،انہیں جیتی ہوئی نشستوں سے محروم کیا گیا،وگرنہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی کارکردگی اتنی بھی بری نہ تھی کہ ان کی جماعت کو ایک سیٹ بھی نہ مل پائے، بہر حال بڑوں کی دوستی فائدہ اور نقصان کی آمیزش ہوتا ہے، کبھی نقصان اور کبھی فائدہ کا احتمال ہوتا رہتا ہے،لیکن اسکی فکر نہیں کرنی چاہئے کچھ بڑا پانے کیلئے چھوٹے موٹے نقصان اٹھا نے پڑتے ہیں، غالب گمان یہی ہے کہ آنے والے وقت میں نیشنل پارٹی فائدے میں رہے گی،ممکن ہے ڈاکٹر مالک بلوچ ایک بار پھر سفید سوٹ اور کالی صدری کے ساتھ مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں جلوہ افروز ہوں،حالیہ دنوں بلاول بھٹو زرادری اور سردار اختر مینگل کی دبئی میں ہونے والے ملاقات کو پاکستان میں تبدیل ہونے والے سیاسی حالات کے پیرائے میں دیکھا جانا چاہئے،چونکہ نیشنل پارٹی ن لیگ سے قریب جماعت ہے اسلیئے پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے حریف جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کی قربت درکار ہے،موجودہ سیاسی صف بندی کو مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے طور پر دیکھا جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں