نیشنل پارٹی مکران میں کتنی مضبوط۔۔سرسری جائزہ

تحریر: رشید بلوچ
عام انتخابات کے نصف حصہ گزر جانے کے بعد حلقوں کی سیاست سیاسی دنیا کی پرانی روایتوں ں میں شامل ہے، صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں یہ روایت برقرار ہے، حلقوں کی سیاست سے قوم پرست، وفاق پرست،چھوٹی بڑی پارٹیوں میں سے کوئی بھی مبرا نہیں،رواں ماہ کے 23تاریخ کو مکران میں شمبے زئی قبیلہ و منشی محمد خاندان نے نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی،اس شمولیتی جلسے کیلئے نیشنل پارٹی نے اپنی بساط کے مطابق تشہیری مہم بھی چلا ئی تھی،تشہیری مہم کی وجہ سے ہفتوں پہلے جلسے کی باز گشت سنائی دینے کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ شمولیت کن کی ہونی ہے، جس انداز میں جلسے کی تشہیر کی گئی تھی اسکو دیکھ لگ رہا تھا کی جلسے کوریج بھی بھر پور ہوگی لیکن توقع کے برعکس نیشنل پارٹی کی شمولیتی جلسے کو بلوچستان کے مقامی، قومی اور سوشل میڈیامیں اس طرح کوریج نہیں ملی جسطرح اسے ایک بڑی جماعت ہونے کے ناطے ملنی چاہئے تھی یا جس طرح اسے استحقاق حاصل ہے، میڈیا میں جو خبر چھپی بھی ہے وہ بھی جلسے کے مخزن و مقصد سے ہٹ کر سطحی طور بنایا گیا تھا،آدھی خبر تک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہیں زکر ہی موجود نہیں تھا،آخر میں ایک چار سطری خبرپارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر مالک بلوچ کے حوالے سے تھی جبکہ خبر میں باقی پوری قیادت بلیک آؤٹ رہا حالانکہ نیشنل پارٹی کے اپنے اندر ایسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو جلسے کی ایک با مقصد خبر اخبارات کے زینت بنوا سکتے تھے،بطور صحافی میرے نظر میں ایک بہت بڑی خامی ہے اسے نیشنل پارٹی کودور کرنا چاہئے، اب آتے ہیں اصل مقصد کی طرف،منشی محمد کا خاندان بلیدہ میں با ثر مانا جاتا ہے اس خاندان کی نیشنل پارٹی میں شامل ہونے سے بلا مبالغہ نیشنل پارٹی کیلئے مکران یا حلقہ45 میں سیاسی طور پرفائدہ مند ثابت ہوگا،بلیدہ میں منشی محمد اور ایوب بلیدی خاندان کی اثر نفوس بہت زیادہ ہے، ان دونوں خاندانوں کے درمیان بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سرکردہ رہنما ایوب بلیدی کی قتل کے بعد قبائلی رنجش شروع ہوئی تھی، یہ رنجش سالوں سال چلتی رہی،برسوں بعد اس قبائلی رنجش کو بلوچی رسم و رواج کے تحت سلجھا یا تو گیا لیکن سیاسی حوالے سے یہ دونوں خاندان ہمیشہ مد مقابل ہیں، بلیدہ کے اس حلقے سے زیادہ تربلیدی خاندان انتخابات جیتتا آیا ہے لیکن اس پر شاید ایک بار منشی محمد بھی کامیاب ہوئے ہیں، اس حلقے سے ایوب بلیدی کے بعد اسلم بلیدی،فتح بلیدی انکے مرحوم بڑے بھائی اور موجودہ وزیر خزانہ ظہور بلیدی منتخب ہوئے ہیں،چونکہ مرحوم ایوب بلیدی کی سیاسی وابستگی مرتے دم تک بلوچ نیشنل موومنٹ سے رہی ہے،بلوچ نیشنل موومنٹ کی نیشنل پارٹی میں ادغام کے بعد بلیدی خاندان نیشنل پارٹی کی سیاسی شریک سفر بنی، ایوب بلیدی کے چھوٹے اور بڑے بیٹے نیشنل پارٹی کی ٹکٹ سے 2013 اس حلقے سے منتخب ہوئے ہیں،2008کے عام انتخابات سے نیشنل پارٹی نے بائیکاٹ کر رکھا تھا،ظہور بلیدی آزاد حیثیت اس حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن اسکی وابستگی بہرحال نیشنل پارٹی سے تھی،لیکن چند سال قبل بوجوہ حلقہ کی سیاست بلیدی خاندان کے موجودہ سربراہ محمد اسلم بلیدی اور نیشنل پارٹی کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں انہی دوریوں کی وجہ سے منشی محمد خاندان اور نیشنل پارٹی ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے،غالب گمان یہی ہے کہ منشی محمد خاندان کو نیشنل پارٹی میں شامل کرانے میں نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور ہمارے اچھے واقف کار جان محمد بلیدی کابہت بڑا کردار ہے، جان محمد بلیدی کا حلقہ انتخاب بھی یہی حلقہ ہے، اس شمولیت سے آنے والے انتخابات میں جان محمد بلیدی کی پوزیشن خاصی مضبوط ہوگی۔۔۔۔
بلوچستان کے سیاسی تجزیہ کار مکران کو نیشنل پارٹی کا گڑھ مانتے ہیں، اس تاثر کوکتنی حد تک درست مان لینی چاہئے اس پر زرا نظر دوڑانا پڑے گا، یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ نیشنل پارٹی کے علاوہ بی این پی (عوامی) نے بھی مکران میں کسی حد تک اپنی وجود بر قرار ہے، پنجگور کی نشست نیشنل پارٹی کے دیرینہ ساتھی ایڈوکیٹ کچکول علی کی موجوگی میں مستحکم ہوا کرتی تھی لیکن کچکول علی کے بیرون ملک چلے جانے اور ان کے عزیز واقارب کی نیشنل پارٹی سے ناراضگی کے بعد اسد بلوچ اور نیشنل پارٹی کے درمیان ایک سخت مقابلے کا رجحان پیدا ہواہے، اس نشست پر اسد بلوچ اور نیشنل پارٹی دونوں اپنے اپنے مضبوط ہونے کے دعویدار ہیں،اس نشست کا پلڑا کبھی ایک جانب تو کبھی دوسرے جانب جھکتا رہتا ہے قطع نظر اسکے کہ دونوں جانب سے ہار جانے کے بعدایک دوسرے پر دھاندلی کے الزاما ت لگائی جاتی ہیں، گوادر کی نشست پرگزشتہ 8سالوں میں بی این پی (مینگل) پنجہ جمائی بیٹھی ہے، کیچ کے چار حلقوں میں سے تین حلقے دشت، مند اور بلیدہ تین قبائل کے زیر اثر ہیں ان میں رند، بلیدی اور دشتی شامل ہیں، ان تینوں با اثر خاندانوں میں دشتی خاندان سردار عطا اللہ مینگل دور سے بی این پی (مینگل) سے وابستہ ہے،رند قبیلہ مختلف جماعتوں بٹی ہوئی ہے لیکن رندوں میں مضبوط پوزیشن بی این پی (عوامی) کی نظر آتی ہے، تربت شہر کی بات کی جائے تواس نشست پر بھی زیادہ تر کامیابیاں سید احسان شاہ کے حصے میں آئی ہیں، چونکہ ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب کا حلقہ انتخاب بھی یہی ہے تو اس پر احسان شاہ اور ڈاکٹر مالک بلوچ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہتا ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ 2018کے عام انتخابات میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے اس نشست پر خود مقابلہ کرنے بجائے اپنے قریبی ساتھی مرحوم قاضی غلام رسول کو احسان شاہ کے مقابلے کھڑا کردیا جس کی وجہ سے نیشنل پارٹی تربت سٹی سے مات کھا گئی یہاں نیشنل پارٹی کے دوست قبل از انتخاب دھاندلی کو جواز بناتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ڈاکٹر مالک بلوچ کے دست برادر ہونے سے دھاندلی روکی جاسکتی تھی؟ ممکن ہے یہاں یہ کہا جائے کہ بطور سابق وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر بلوچ کی شکست نیشنل پارٹی کیلئے شرمندگی کا باعث بن جاتا لیکن میری ناقص رائے میں ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب کی شکست نیشنل پارٹی کی دھاندلی کے موقف کو زیادہ توانائی بخشتی،اگر تربت سٹی کی نشست کا جائزہ لیا جائے تو ماضی کا تجربہ ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب کے حق میں نہیں، اس حلقے پر ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب 1990کے اوائل اور اسکے بعد 2013کے عام انتخابات میں کل ملا کر دو بار کامیاب ہوئے ہیں،اب آنے والا وقت ہی اس نشست کی ہار و جیت کا فیصلہ کرے گا، مکران کے پڑوسی ہونے کے ناطے آواران کے حلقے کا زکر بھی کرنا ضروری ہے کیونکہ اس حلقے میں مکران سے جڑے پنجگور کے چند حصے بھی شامل ہیں، آوران کی نشست پر 1985سے میر عبدالجید بلا شرکت غیرے منتخب ہوتا آیا ہے انکے بعد اب انکا بیٹا قدوس بزنجو دو بار یہ نشست جیت چکے ہیں،آواران کی 35سالہ سیاسی کشمکش میں 1997میں مرحوم اسلم گچکی بی این پی (مینگل) کی ٹکٹ پر اجبکہ انکا بیٹا قمبر گچکی آزاد حیثیت سے 2008میں بزنجو خاندان کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔(جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں