دائمی تجربہ گاہ

تحریر: انورساجدی
جب امریکی سٹلائٹ نے راسکوہ کا نقشہ دکھانا شروع کیا کہ پاکستان اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ یہاں پر کرے گا تو اس وقت صدر بل کلنٹن نواز شریف کو قائل کررہے تھے ایٹمی دھماکے نہ کئے جائیں انہوں نے دھماکہ نہ کرنے کے بدلے میں ایک بہت بڑا مالیاتی پیکیج دینے کا وعدہ کیا لیکن نوازشریف اور انکے ”بڑے“ نہ مانے کیونکہ وہ بھارتی دھماکوں کاجواب دینا چاہتے تھے اور یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا بل کلنٹن نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ایٹمی دھماکوں سے بالآخر پاکستان کونقصان ہوگا اور اس کے معاشی فوائد نہیں ہونگے یہ بھی سنا ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان کی سیکیورٹی کی ضمانت دینے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن سب کچھ سود بے ثابت ہوا اور پاکستان نے28مئی 1998ء کو 6 ایٹمی دھماکے کردیئے دھماکوں سے قبل وزیراعظم نوازشریف نے وفود بھیج کر پاکستان کے چیدہ چیدہ سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا تھا سوائے سردار عطاؤاللہ خان مینگل کسی نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت نہیں کی جب وفاقی وزیر مشاہد حسین نے سردار صاحب سے کراچی میں ملاقات کی تو پریس کے سامنے انہوں نے کہا کہ
ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ ہوچکا
ہمیں صرف بے وقوف بنایاجارہاہے
عین اس وقت بلوچستان میں سرداراختر مینگل اپنی مخلوط حکومت چلارہے تھے اور انہیں بااختیار اورمعقول وزیراعلیٰ سمجھا جارہا تھا انکے بقول انہیں چاغی میں دھماکوں کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا بلکہ یہ کہا گیا کہ دھماکوں کی خبر انہیں بی بی سی سے ملی عجیب بات تھی کہ دھماکوں سے کم از کم 3دن پہلے کوئٹہ سے تفتان جانے والی آر سی ڈی شاہراہ ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند کی گئی تھی صرف سیکورٹی ادارے نقل وحمل کرسکتے تھے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک بین الاقوامی شاہراہ بند کرنے کی اطلاع سے بھی وزیراعلیٰ بے خبر تھے۔
دھماکوں کے بعد اخترمینگل پہلے شکار بنے کیونکہ وزیراعظم سے کہہ دیا گیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے واقعہ کے بعد بلوچستان میں ایک ایسی محب وطن حکومت کی ضرورت ہے جو ریاست اسکے نظریہ اور مفادات کو مقدم جانتی ہو چنانچہ مینگل حکومت گرادی گئی 28مئی کوجس دن دھماکے وقوع پذیر ہوئے پنجاب کے حالات دیدنی تھے لوگ سڑکوں پر آکر محورقصان تھے اور انہیں یقین ہوچکا تھا کہ اب پاکستان ناقابل تسخیر ہوچکا ہے لیکن لاہور سے 2ہزار کلومیٹر دور موت جیسی خاموشی طاری تھی دوردور تک گردوغبار کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور راسکوہ کاعظیم پہاڑ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مرچکا تھا اس پورے خطے کا ایکوسسٹم بدل چکا تھا۔
دھماکہ اپنے پیچھے ایٹمی تابکاری اور بیماریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چھوڑ چکا تھا دھماکہ کے بعد ریاست نے یہ زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ طبی ماہرین کی ٹیم وہاں پر بھیجے اور نہ ہی طبی آبزرور متعین کئے گئے تاکہ تابکاری کے اثرات کا جائزہ لیاجاسکے۔
ایٹمی تجربات بہت ہی غیرمعمولی واقعات ہوتے ہیں پاکستان سے پہلے امریکہ،روس،فرانس،برطانیہ اور بھارت یہ تجربات کرچکے تھے بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے1974ء میں راجھستان کے صحرا میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا تھا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھا دھماکہ بحلباں بن کر ان پر گرا اور انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستانی قوم گھاس کھائے گی لیکن ایٹم بم ضرور بنائے گی بھٹو نے عرب ممالک سے فنڈز اکٹھے کئے ڈاکٹر قدیر خان کو ہالینڈ سے اسمگل کرکے پاکستان بلایا اسلام آباد کے قریب کہوٹہ کے مقام پر پہلا پلانٹ بنایا لیکن ایٹمی پروگرام پہلے اپنے باپ بھٹو کو کھاگیا انہیں اس جرم کی پاداش میں جنرل ضیاؤ الحق نے 4اپریل1979ء کو تختہ دار پرلٹکادیا لیکن ضیاؤ الحق نے یہ پروگرام جاری رکھا1988ء میں اس کا کولڈ ٹیسٹ ہونے کے بعد ایٹم بم ضیاؤ الحق کو کئی سینئرجرنیلوں کے ساتھ کھاگیا۔
نوازشریف نے اپنے تئیس ایٹمی دھماکے کرکے تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا لیکن 12اکتوبر 1999ء کو ایٹم بم اپنے بیٹے کو بھی ہڑپ کرگیا۔
چاغی دھماکوں کے بعد جنرل مشرف یہ سمجھتے تھے کہ اب پاکستان ناقابل تسخیر ہوچکا ہے اس لئے سری نگر پرقبضہ کرنا بہت آسان ہے چنانچہ انہوں نے اپنے گوریلے دستے کارگل بھیج دیئے لیکن کارگل میں ایٹم بم کام نہ آیا جنرل مشرف کو لینے کے دینے پڑ گئے اور جنرل مشرف کو جان بچا کر بھاگنا پڑا نتیجے میں انڈیا نے کارگل پر ہمیشہ کیلئے قبضہ کرلیا ایٹم بم نے جنرل مشرف اور نوازشریف کے درمیان اختلافات پیدا کردیئے جس کا نتیجہ 12اکتوبر کی فوجی بغاوت کی صورت میں نکلا شکر ہے کہ نوازشریف بھٹو جیسے پاگل نہیں تھے ورنہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ہائی جیکنگ کیس میں پھانسی چڑھ جاتے بندہ معاملہ فہم اور مصلحت پسند تھے اس لئے معافی نامہ لکھ کر جلاوطن ہونے پر آمادہ ہوگئے انہوں نے اپنے لئے اچھا کیا کیونکہ جان چلی جاتی تو پیچھے کیا ہاتھ لگتا شہادت کس کام کی ہے۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد جب سردار مینگل اور ن لیگ میں اختلافات پیدا ہوگئے تو پارٹی کے صوبائی لیڈر سعید ہاشمی (باپ پارٹی کے بانی) نے یہ شرط لگائی تھی کہ اگراخترمینگل چاغی جاکر ایٹمی دھماکوں کی مٹی کو آنکھوں پر لگالیں تو اس کی حکومت کی ضمانت دی جائے گی لیکن ن لیگ اس وعدے پر بھی قائم نہ رہ سکی کیونکہ نوازشریف چاغی کے دورے پر گئے تو نہ صرف اخترمینگل ساتھ تھے بلکہ وہ خود گاڑی چلاکر دھماکہ کی جگہ تک وزیراعظم کولے گئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔سعید ہاشمی اور انکے سرپرست اس حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
چاغی دھماکے باقی عوام کیلئے ایک مثردہ جان فزا تھے لیکن اہل بلوچستان اس لئے فکر مند تھے کہ ان کی سرزمین کو ایٹمی تجربہ گاہ بنادیا گیا تھا کیونکہ اگر آئندہ بھی ٹیسٹ کی ضرورت پڑے تو دھماکوں والی جگہ کا انتخاب کیا جائیگا اگرچہ بلوچستان کے عام لوگوں کو انسان کا درجہ نہیں دیا جاتا لیکن پھر بھی کینسر اور جودیگرخطرناک امراض پھیل گئے وہ نسلوں کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے وہ جانتے تھے کہ ان کا وطن ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے 1973ء میں سونمیانی کوخالی کرواکر وہاں بھی میزائل ٹیسٹ کرنے کارینج بنایا گیا تھا جبکہ کوہ سلیمان میں آبادیوں کے قریب یورنیم کی کانکنی کی گئی تھی اس یورنیم کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں امراض کا شکار ہوئے تھے کہاں سونمیانی کہاں کوہ سلیمان اورکہاں چاغی یعنی پورا بلوچستان نت نئے تجربات کی آماجگاہ بن چکا اور مستقبل میں بھی ہر طرح کے تجربات اسی جغرافیہ کے اندر بروئے کار لائے جائیں گے۔
جب کوسٹل ہائی وے بنائی گئی تھی تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی کہ یہ ترقی کی شاہراہ ہوگی لیکن ڈام سے لیکر جیونی تک تیز رفتار تجربات کی خاطر یہ ہائی وے بنائی گئی تھی تاکہ نقل وحمل تیزرفتاری کے ساتھ ہوسکے غالباً اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان ایک بے آب وگیاہ خطہ ہے آبادی بہت کم ہے اگریہ آبادی نہ بھی رہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ریاست کیلئے یہ قربانی زیادہ بڑی قیمت نہیں ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے مہلک ہتھیاروں کے تجربات کے بعد ملک کے سیاسی نظام کو بدلنے کاتجربہ بھی بلوچستان سے کیاجائیگا جیسے کہ1958ء میں سکندر مرزا نے کیاتھا موصوف کو مارشل لاء نافذ کرنا تھا جواز تلاش کیا گیا کہ خان آف قلات ریاست کیخلاف بغاوت کرنے والے تھے اس لئے ملک بچانے کیلئے مارشل لاء ناگزیر تھا حالانکہ احمد یار اگر بغاوت کرنے والے ہوتے تو مارچ1948ء میں کرتے اس وقت وہ ایک آزاد ریاست کے سربراہ تھے اور انکے پاس قبائل کاہزاروں افراد کا لشکر بھی تھا لیکن انہوں نے پر امن طور پر اپنی ریاست سرنڈر کردی۔
1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کشی اس لئے کی نواب خیر بخش اور عطاؤ اللہ خان مینگل ریاست کیخلاف بغاوت کرنے والے تھے حالانکہ وہ اس وقت بھٹو کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے اس فوج کشی کا نتیجہ ایک اور مارشل لاء کی صورت میں نکلا۔
چونکہ موجودہ حکمرانوں کو بھی آئین تبدیل کرنا ہے اور وہ اس کے لئے زمین بلوچستان میں ہموار کررہے ہیں اس کی ابتداء کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کی گئی ہے۔کچھ عرصہ بعد کیچ،گوادر،آواران اور لسبیلہ کے اضلاع پر مشتمل کوسٹل ڈویژن بنایاجائیگا اس کے لئے ٹھوس جواز کی تلاش کیاجارہاہے جب نئے ڈویژن کووفاقی علاقہ قرار دیا جائے گا تو لازمی طور پر احتجاج ہوگا عین ممکن ہے اس احتجاج کو آئین کی تبدیلی کا جواز قراردیاجائے۔
یہ بات تو یقینی ہے کہ حکمرانوں کا شوبوائے آئین کے تحفظ کیلئے آڑے نہیں آئیں گے انہیں تو بتانے سے پہلے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ جنرل مشرف نے امریکہ سے2001ء میں جو سیکورٹی معاہدہ کیا تھا وہ بحال کردیا گیا ہے جس کے تحت امریکہ کو بلوچستان کے زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کاحق حاصل ہے2001ء کی جنگ افغانستان کے دوران امریکہ نے واشک کا شمشی ایئرپورٹ،پسنی ایئرپورٹ،پنجگور ایئرپورٹ اور کوئٹہ ایئرپورٹ کو استعمال کیا تھا اس سے قبل کلنٹن نے جس جہاز سے کروز میزائل افغانستان کو داغے تھے وہ پسنی کے قریب بلوچستان کے پانیوں میں کھڑا تھا سوال یہ ہے کہ جیکب آباد کے شہبازایئربیس سے10میل دورنصیر آباد میں ایک اور فضائی اڈے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں