اقتصادی شرح نمو کے اشاریئے
جون کے دوسرے ہفتے میں وفاقی اور صوبائی بجٹ منظوری کے لئے متعلقہ اسمبلیوں پیش کئے جائیں گے۔یہ سنجیدہ کام ہے، حکومت اور اپوزیشن کو پوری سنجیدگی سے اسے مکمل کرنا چاہیئے۔سال بھر کی معاشی منصوبہ بندی کی بنیادی دستاویز کی تیاری کا عمل ہے،لیکن کئی دہائیوں سے یہ ایک روایت اور رسم جیسا کام ہو کر رہ گیا ہے۔بجٹ کی تیاری کے لئے بلائے گئے اجلاس پر قومی خزانے کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر اراکین ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں کرتے۔حکومت اپوزیشن کو چور، ڈاکو اور لٹیراکہتی ہے اورکسی کو نہ چھوڑنے کے نعرے لگاتی ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے سلیکٹڈ، نااہل، اور ناکام ترین حکومت کے جوابی نعرے لگائے جاتے ہیں۔اس دوران اسپیکر کے خلاف بھی غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے اور اسی شور شرابے میں حکومت اپنی حاضر اراکین کی معمولی سی اکثریت سے تمام مراحل طے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔آئندہ ماہ پیش کئے جانے والے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کو 30کے لگ بھگ پی ٹی آئی کے ناراض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پر مشتمل جہانگیرترین گروپ سے بڑی امید ہے کہ وہ اندر سے ہی حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہو جائے گی۔جو کام پی ڈی ایم ملک بھر میں احتجاجی مہم چلانے کے باوجود نہیں کر سکی تھی، جہانگیرترین گروپ آسانی سے کر دے گا۔بہرحال ابھی یہ ایک سیاسی مفروضہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ابھی اس گروپ کی نظریں وزیر اعظم کی جانب سے کرائی جانے والی ”بیرسٹرعلی ظفر انکوائری“ پر لگی ہیں۔ہر دوسرے دن اس حوالے سے ایک آدھ افواہ میڈیا پر گشت کرنے لگتی ہے تاکہ عوام کی دلچسپی برقرار رہے اور حکومت کو یاددہانی بھی ہوتی رہے کہ ابھی معاملہ طے نہیں ہوا، رپورٹ دیکھ کر ”گروپ“ آئمدہ کا لائحہ عمل طے کرے گا۔اس گروپ کو بھی پی ڈی ایم کی طرح اپنی کامیابی کا کامل یقین ہے۔بظاہر ان کا مفروضہ یکسر بے جان بھی نہیں، 3مارچ کو یہ گروپ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکا ہے، حکومت اپنے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو اراکین قومی اسمبلی سے سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔جبکہ 6مارچ کو اسی اسمبلی نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔ اور پھر دوسرا حیران کن واقعہ یہ دیکھا گیاکہ یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب نہیں ہو سکے۔ایسے غیر منطقی واقعات کی موجودگی میں مبصرین کے لئے کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔بلکہ نجومی بھی ٹی وی چینلز کا رخ نہیں کرتے۔حکومت شرح نمو 3.94کو درست سمجھتی ہے، بلکہ جون تک اس شرح میں مزید اضافے کی پختہ آس لگائے بیٹھی ہے۔عام آدمی کے پاس ان اعدادوشمار میں الجھنے اورعجیب و غریب معاشی اصطلاحوں کی جانچ پڑتال کے لئے وقت ہی نہیں، اسے ایک سے زائد جگہ کام کرنا پڑتا ہے تاکہ بچوں کاپیٹ پال سکے۔نچلا طبقہ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔وہ حکومت کی کارکردگی کو اپنے گھر کے چولھے سے ناپتااور تولتا ہے۔گھر کاچولھا جلتا رہے توبہترورنہ بدتر کارکردگی سمجھتا ہے۔عام آدمی اس سے آگے نہ دیکھتا ہے اور نہ سوچتا ہے۔مہنگائی کے بے تحاشہ بوجھ نے سوچنے سمجھنے کا وقت چھین لیا ہے۔ ہروقت دال روٹی کی فکر دامنگیر ہو تو اسی بھاگ دوڑ میں نہ دن کا ہوش رہتا ہے اور نہ ہی رات کا۔رہی سہی کسر کورونا کے نام پر لگائی جانے والی حکومتی پابندیاں پوری کر دیتی ہیں۔صبح 5بجے سے شام6بجے دکانیں کھولنے کے اوقات مقرر کرنے والے یہ جنہیں سوچتے کہ صبح5بجے گاہک کیسے مارکیٹ پہنچے گا؟ اور کیوں گھر سے نکلے گا؟دکان گاہک کے لئے کھولی جاتی ہے۔تاجر برادری صبح8بجے سے رات8بجے کا مطابہ کرتی تو یہ جائز اور درست ہے، حکومت کو مان لینا چاہیئے۔مگر وہا تو اپنی ضد اور افسرانہ انا کا خیال ہے، جوکہہ دیا ہونا چاہیئے،حالانکہ عملاً ایسا کرنا سب جانتے ہیں کہ ممکن نہیں۔لوگوں کی دیر کو سونے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ سرکاری اعلانات اسے تبدیل کرانے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔ویسے بھی سرکار اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں بھی ناکام ہے۔ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے والی بات سچ معلوم ہوتی ہے۔ ابھی تک دفاتر میں یہی جملہ سنا جاتاہے:”پہیہ نہیں لگاؤگے تو فائل آگے کیسے بڑھے گی؟“،”میں تمہاری فائل آگے بڑھادوں تب بھی پہیئے بغیرکام نہیں ہوگا، فائل آگے جا کر رک جائے گی“۔دفتری نفسیات اور دفتری کیمسٹری میں پائی جانے والی یہ بنیادی اور سرطان جیسی خرابی دور کی جائے۔طے کیا جائے کہ ہر کلرک وصولی کے بعد فائل اپنے پاس کتنی دیر روک سکتا ہے؟ یہ مدت ایک یا دو دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے۔عام آدمی کا کلرک سے واسطہ پڑتا ہے۔وہ حکومتی کارکردگی اسی پیمانے سے ناپتا ہے۔کلرک تنہا مال نہیں بنا سکتا،اسے اپنے افسر کو اس کمائی میں حصہ دینا ہوتا ہے، یہ سلسلہ مرحلہ وار اوپر تک جاتا ہے۔بڑے سودے اعلیٰ افسران طے کرتے ہیں۔عام آدمی کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں مگر ادھر حکومت کا دھیان نہیں جاتا۔سوال یہ ہے کہ جو پانی ٹینکر کے ذریعے عام آدمی خریدتاہے وہی پانی پائپ کے ذریعے اس کے گھر تک کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟پورے ملک کا حال ایک جیسا ہے۔خرابی یوسی کی بجائے وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کے دفترمیں ہے۔234کروڑ میں سے225کروڑ روپے وہیں غائب ہوجاتے ہیں۔ابھی صرف مشتاق رئیسانی اور میر خالد لانگو پکڑے گئے ہیں، باقی سب مزے میں ہیں۔سب پکڑے جائیں، سب پر مقدمہ چلے اور سب سے رقم واپس لی جائے تب صوبوں اور وفاق کی حالت سدھرے گی۔یوسی کے فنڈز یوسی تک پہنچنا شروع ہوں گے۔ عام آدمی کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ عوام کے اصل دشمن بہت اوپر بیٹھے ہیں۔لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کلرک کو فائل کے نیچے پہیہ لگوانے کا تقاضہ کرنے سے نہ روکا جائے۔ٹریفک کانسٹیبل کو سڑک پر موٹرسائیکل چلانے والوں سے بھتہ وصولی کی کھلی آزادی حاصل رہے۔ہر محکمے میں اور ہرسطح پرخرابی کا خاتمہ ضروری ہے۔ پی ٹی آئی کے حکومتی ترجمان اعداد و شمار کے اشاریوں سے ٹی وی ٹاک شوز میں اپوزیشن کوخاموش کرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تواس سے عام آدمی کا چولھا نہیں جلے گا، عام آدمی کو مطمئن کرنا ہے تو حکومت ایسا بجٹ لائے جوغریب کا چولھا جلانے میں مدد گار ہو،اسے بجھنے نہ دے، بجھنے سے روک سکے۔