عالمی یتیم خانہ

تحریر: انور ساجدی
اگرگزشتہ40سالوں کے دوران بلوچستان میں ڈھنگ کی حکومتیں ہوتیں تو وہ زہرآلود اور انسان کش شپ بریکنگ یارڈ گڈانی کو بند کرکے بدمعاش اور سود خور شپ بریکر کو بھگادیتیں افسوس کہ ایسا نہیں ہے کوئی کاروبار چلے کہ نہ چلے لیکن شپ بریکنگ کازہریلا کام جاری رہتا ہے کبھی کبھار گماں گزرتا ہے کہ یہ شپ بریکنگ تو ظاہری دھوکہ ہے اس کی آڑ میں نہ جانے کون کونسا خطرناک مواد یہاں پر تلف کرنے کیلئے لایاجاتا ہے کئی دہائی پہلے ایک خبر بہت عام ہوئی تھی کہ ایک ٹینکر خطرناک مواد لیکر آیا تھا جسے ساحل پر ٹھکانہ لگادیا گیا شپ بریکر کو اس کی بھاری قیمت ادا کردی گئی تھی جبکہ لوہا تو اوپر کا بونس تھا مذکورہ خبر کی اشاعت پراخبارات پر موٹے پیٹ والے ساہوکاروں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا لیکن آنریبل چیف جسٹس نے کسی کارروائی کے بغیر کیس نمٹادیا۔
اسی زمانے کی بات ہے کہ جرمنی اپنا نیوکلر مواد ٹرین میں لاد کر کہیں محفوظ مقام پر ٹھکانے لے جارہا تھا تو ماحولیات کے کارکن اس ٹرین کے آگے لیٹ گئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے لوگوں میں اتنا شعور نہیں ہے جبکہ حکومتیں لاپروا اور بے حس ہیں کہنے کوتو بلوچستان میں ماحولیات سمندری حیات کے باقاعدہ محکمے ہیں ان کے وزراء صاحبان اور پوراسیٹ اپ ہے لیکن اور محکموں کی طرح یہ محکمے بھی اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے انجام نہیں دیتے بڑے افسران مصلحت اور منقعت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے خونخوار بھیڑیئے چار اطراف سے بلوچستان پر حملہ آور ہیں۔
جوموجودہ جہاز گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر لنگرانداز ہے اس کے پلاٹ پر دیوان سنز لکھا ہے اس میں بھرا ہوا خطرناک مواد کس ملک کا تھا کہاں سے آیا تھا کیسے آیا تھا ابھی تک ماحولیات کے محکمے نے صحیح تفصیلات کا اعلان نہیں کیا بلکہ ایک رسمی کارروائی ڈال دی گئی ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ فاسد مواد ”مرکری“ ہے یا کچھ اور البتہ میڈیا نے قوس وقزح کی رنگت کا مواد دکھایا ہے جو ساحل پر گڑھے کھود کر اس میں ڈالا جارہا ہے کسی خطرناک مواد کو تلف کرنے کایہ انتہائی مضر اور غیر سائنسی طریقہ ہے اس فاسد مواد کے بارے میں انٹرپول نے بروقت آگاہ کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مواد لیکر جہاز پہلے انڈیا اور پھر بنگلہ دیش گیا تھا لیکن دونوں ممالک اس جہاز کو لنگرانداز ہونے اور زہریلا مواد تلف کرنے کی اجازت نہیں دی مقام افسوس ہے کہ50سال کے عرصے میں پاکستان بنگلہ دیش سے بھی پیچھے چلا گیا ہے اس ریاست میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے کئی حوالوں سے یہ ایک عالمی یتیم خانہ بن چکا ہے یہ دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس میں لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں مجال ہے جو کوئی ان سے پوچھے حتیٰ کہ پاکستان کے ”اووراسمارٹ“ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اس سلسلے میں کوئی جنبش نہیں کی۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ایک عالمی تجربہ گاہ بن چکا ہے تیل توڑنے کے دوران ایک جہاز کے خطرناک موادکو آگ لگ گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر محنت کش ہلاک ہوگئے تھے لیکن آج تک اس کی انکوائری نہیں ہوئی پاکستان کے منافع خود بدقماش سیٹھ وقتاً فوقتاً اپنی سرزمین کا سودا کرکے خطرناک مواد یہاں پر لے آتے ہیں اور بھاری معاوضہ وصول کرکے سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔خدشہ ہے کہ کہیں دنیا بھر کا خطرناک مواد یہاں لایا نہ جاتا ہو کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں گڈ گورننس تو کیا ڈھنگ کی گورننس بھی نہیں ہے بلوچستان میں جو آئے جہاں آئے جس کا جو جی کرے کر گزرے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے گڈانی سے کنڈ تک جوساحل ہے اس پر مضر صحت اور ماحولیات دشمن جو منصوبے لگائے گئے ہیں یا لگائے جارہے ہیں بلوچستان کی ہر حکومت نے آنکھیں بند کرکے ان کی منظوری دی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا چنانچہ یہ پورا ساحل جس کی لمبائی 20کلومیٹر سے زائدہے شدید آلودہ ہوگیا ہے حبکو پاور پروجیکٹ کے ایریا میں شروع ہی میں درخت سوکھنے لگے تھے اور لوگ چمڑے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے تھے ایک اٹک سیمنٹ کیا کم تباہی پھیلا رہا تھا کہ میاں منشا کو ایک بڑے سیمنٹ پلانٹ لگانے کی اجازت دی گئی مزید غضب یہ کیا جارہا ہے کہ ساکران کے بڑے حصے پر سی پیک کا نام نہاد فری انڈسٹریل زون بنایا جارہا ہے گویا پوری طرح سے حب سب ڈویژن کے لوگوں کو زندہ درگور کرنے کے منصوبے تیارہیں عجیب بات یہ ہے کہ لیبر دیگر علاقوں سے لائی جاتی ہے منافع سیٹھ کماتے ہیں ٹیکس وفاق کو ملتا ہے جبکہ بیماریاں اوربیروزگاری غریب مقامی لوگوں کے حصے میں آتی ہے حب شہرجو کہ کسی پلاننگ کے بغیر خودرو شہر ہے کئی لوگ منافع کی خاطر کسی منصوبہ بندی کے بغیر بستیاں تعمیر کررہے ہیں سیوریج اور ڈرینج کاپہلے سے انتظام نہیں ہے مزید خودرو آبادیوں کے قیام سے ایک ایسی بڑی کچی آبادی وجود میں آرہی ہے جسے سنبھالنا اور شہری سہولتیں دیناناممکن ہے۔
اس وقت لسبیلہ ضلع بہت ہی ناگوارتجربات کا شکار ہے خوفناک بھیڑیئے ہر طرف سے اس پر نظر جمائے بیٹھے ہیں ان بھڑیوں میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں ڈام کی ہزاروں ایکڑ زمین غیر ملکیوں کو الاٹ کی گئی تھی آج کل کنڈملیر پر دھاوا بول دیا گیا ہے جہاں پر سیرگاہوں کے نام پر ہوٹل اور ٹورسٹ ریسٹورٹس بنانے کا عمل جاری ہے کنڈ سے لیکر جیونی تک ایک انچ زمین نہیں چھوڑی گئی ہے اسلام آباد سے گوادر کیلئے ایک خصوصی پرواز بھی شروع کرنے کااعلان کیا گیا ہے مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ سیاح گوادر کی سیر کو آئیں حالانکہ گوادر میں ابھی تک کوئی خاص ڈیولپمنٹ دیکھنے میں نہیں آرہی ہے ایک میرین ڈائیو بنایا گیا ہے جومقامی لوگوں کیلئے بند ہے گوادر کے باسی پینے کے پانی، بجلی اور گیس کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں معلوم نہیں جو ترقی لائی جارہی ہے وہ کس کیلئے ہے مرکزی حکومت کی پالیسیاں نوآبادیاتی دور کی یاد تازہ کررہی ہیں مقامی ماہی گیر روزگار سے محروم ہوتے جارہے ہیں بارڈر کی بندش سے ہزاروں لوگ نان شبینہ کومحتاج ہوگئے ہیں۔یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ جس طرح گوادر کی زمینوں کوبندربانٹ کیا گیا ہے اس کا واضح مقصد یہی ہے کہ گوادر تو گیا یعنی ساحل چلا گیا حکومت یہی مہربانی کرے کہ ساحل پر آباد مقامی لوگوں کو”ریزروز“ بناکر دے جیسے کہ گوروں نے امریکہ میں ریڈانڈین کیلئے بنائے تھے۔
لسبیلہ اور چاغی کی معدنیات کیلئے لیزوں کی درخواستیں جاری ہیں ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہلہ بول دیا گیا ہے جس کے نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے۔لسبیلہ اور گوادر اپنے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کا حلقہ انتخاب اور آبائی علاقہ ہے جو کچھ ہورہا ہے ان کی ناک کے نیچے ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ انہیں کسی تغیر وتبدیل سے کوئی سروکار نہیں ہے یا تو وہ حد درجہ مجبور ہیں یا لاپرواہی سے کام لے رہے ہیں حالانکہ کوئی بھی وزیراعلیٰ تمام غیرمناسب اقدامات کو روک سکتے ہیں۔لسبیلہ 1973ء سے برسراقتدار ہے لیکن ابھی تک پسماندگی میں اس کا مقابلہ شائد آواران سے ہوتو ہو اور کسی علاقے سے نہیں ہے بیلہ شہر ریاستی دور میں جس حال میں تھا کوئی بڑی تبدیلی اس میں نہیں ہوئی ہے اوتھل میں یونیورسٹی اور کئی ادارے ہیں لیکن یہ ابھی تک پسماندگی میں ڈوباہوا ہے۔اطراف کے علاقے تو پتھر کے زمانے کا منظر پیش کررہے ہیں جام اگر اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم بیلہ اور اوتھل کو تو ٹھیک کریں یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جام اور بھوتانی ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت کررہے ہیں دونوں سرکار کے نمائندے ہیں وہ مل کر اپنے عوام کی حالت زار تو بہتر بناسکتے ہیں ان کے درمیان کیا اختلاف ہے آج تک لوگ نہیں جان سکے دونوں رہنما ہر حکومت اور ہر نئی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں جب ان کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے تو نظریاتی اختلاف کس بات کا ان کو چاہئے کہ وہ اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے کو اپنا نظریہ بنالیں اور خلق خدا کی دعائیں لیں۔
جہاں تک پورے بلوچستان کا تعلق ہے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے یہاں سے سیاست رخصت ہوچکی ہے فرماں برادری اور منقعت نے اس کی جگہ لے لی ہے کسی کو مستقبل اور اسکے چیلنجوں کا ادراک نہیں ہے کوئی ایسی ڈھنگ کی تنظیم بھی نہیں جو لاکھوں انسانوں کو درپیش بنیادی حقوق کے مسائل اٹھائے سارے بھنگ پی کر سورہے ہیں کبھی کبھار ڈائیلاگ مارکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کسی میں دم نہیں ہے کہ وہ سرزمین ساحل اور حقوق کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں