کیا اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مینگل کو مجرم قرار دیا جا رہا ہے؟

تحریر: شکور بلوچ
جب معاشرے میں سچائی کی جگہ دروغ گوئی لے جائے علم، دلیل، منطق اور تنقید برائے تعمیر پہ الزام تراشیاں دروغ گوئی اور سنجیدہ مباحثوں پہ ٹرولنگ غلبہ پانے لگے تو حقائق دور بے بس کھڑی نظر آتی ہیں. ایسے میں معاشرے کے ایک ذمہ دار شخص کے لئے حقائق سامنے لانا لازم و ملزوم بن جاتا ہے.
28 مئی 1998 کو مادر وطن بلوچستان کے سینے راسکوہ کو چھ ایٹمی دھماکوں سے جھلسایا جاتا ہے. جس کے ساتھ ہی ضلع چاغی سمیت بلوچستان کے عوام کو کینسر سمیت مختلف مؤذی امراض اور خشک سالی کے حوالے کر کے بعد میں ان کی حال پرسی تک نہیں کی جاتی. اس وقت مرکز میں نواز شریف کی مسلیم لیگ (ن) اقتدار کے نشستوں پہ براجمان تھی. جب کہ بلوچستان میں قوم پرست لیڈر اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی حکومت میں تھی. لیکن درحقیقت اقتدار کس کے ہاتھوں میں تھی یہ جاننے کے لئے ہمیں اپنی ذہنوں پہ زور دینے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے.
ہر سال 28 مئی کو جہاں ایک طبقہ بلوچستان کی بزگی و لاچاری کو پس پشت ڈال کر "یومِ تکبیر” مناتی ہے تو وہی ایک اور طبقہ اس پورے کاروائی کا ملبہ قوم پرست لیڈر سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت پہ ڈال کر سوشل میڈیا پہ ان کی یک طرفہ ٹرائل شروع کر دیتے ہیں. سوشل میڈیا کے نام نہاد "کی بورڈ” دانشور کی جانب سے طوفانِ بدتمیزی کھڑی کر کے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے حقائق کو چھپانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں.
ایسے میں اس بار جب میں نے حقائق جاننے کی کوشش کی تو نہ صرف حقائق بالکل مختلف تھے بلکہ بڑی حد تک حیران کن بھی تھے.
اس حوالے سے میں نے جب لٹریچر ڈھونڈنے کی کوشش کی تو میرے آنکھوں کے سامنے سے ایک پیراگراف بھی نہیں گزرا اور پتہ چلا کہ اس پہ چند ایک ہی کتابیں ہیں جو کہ اس وقت کوئٹہ میں دستیاب نہیں ہیں. تب تو اس بارے میں تحقیق کرنا اور لکھنا مزید لازم ٹہرا. لہٰذا میں نے اس دور کے سیاسی اشخاص صحافیوں اور دانشوروں سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا.
بلوچستان نیشنل پارٹی کا مؤقف جاننے کے لئے میں نے بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے رکن و سابق رکن قومی اسمبلی میر رؤف مینگل گفتگو کی. ان سے اس وقت پارٹی کا مؤقف اور حکمت عملی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دھماکوں کے وقت نواز شریف اسلام آباد میں تھے اور سردار اختر مینگل غالباً کوئٹہ میں تھے. جو ویڈیو اس دن سے منسوب کر کے مخالفین ہمیں یومِ ڈرائیونگ کا طعنہ دیتے ہیں وہ ویڈیو اس واقعے سے کم و پیش تین ماہ پرانی اس وقت کی وڈیو ہے جب وزیراعظم بلوچستان کے دورے پہ آئے تھے اور سردار اختر مینگل نے بحیثیتِ وزیر اعلیٰ ان کا استقبال کیا تھا. کسی کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ کر سفر کرنا آپ کو اس کے سیاہ و سفید میں برابر کا ذمہ دار ہر گز نہیں ٹہراتا. ایٹمی دھماکوں بارے میں وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کو ناصرف اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ انہیں اس حوالے سے مکمل لاعلم رکھا گیا اور نہ صرف اختر مینگل لا علم تھے بلکہ بڑی حد تک وزیراعظم کے ساتھ بھی یہی معاملہ رکھا گیا. میر رؤف مینگل کے مطابق ایٹمی دھماکوں کے بعد انہوں نے سخت احتجاج کیا تھا اور چار جون 1998 کو پارٹی قائد نے کراچی میں مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلایا. جہاں پہ سردار عطااللہ مینگل اور سردار اختر مینگل سمیت کچھ لوگوں نے احتجاجاً مستعفی ہونے اور حکومت چھوڑنے کا تجویز دیا تھا. اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ مرکزی کمیٹی کے سامنے پیش بھی کیا تھا. اس تجویز کو مرکزی کمیٹی کے اکثر اراکین (جو اس وقت وزارتوں پہ تھے اور بعد میں پارٹی کو توڑ کر انہوں نے اپنا الگ دھڑا بنایا) نے مسترد کیا اور جمہوری اداروں کا تقاضا یہی ہے کہ اکثریتی فیصلے کو مانا جاتا. یہ فیصلہ کتنا غلط تھا یا کتنا درست تھا یہ ایک الگ بحث ہے اور پھر بعد میں انہی تکراروں نے طول پکڑی اور اگلے کونسل سیشن میں پارٹی دو لخت ہوگئی.

اس حوالے سے میں نے پروفیسر منظور بلوچ سے حال حوال کیا تو بی این پی کے حوالے سے صخت مؤقف رکھنے کے باوجود انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے سے اختر مینگل بالکل لاعلم تھے. اس بات سے آپ بلوچ اور بلوچستان کی بے بسی اور لاچاری کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے وزیر اعلیٰ کو اتنا لاعلم رکھا جاتا ہے. ساتھ ہی انہوں نے چار جون کو ہونے والے پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس کی بھی تصدیق کی.
نیشنل پارٹی کے رہنما کامریڈ غفار بلوچ نے بھی اس بات سے کہ اختر مینگل کو ایٹمی دھماکوں کے متعلق لاعلم رکھا گیا تھا سے اتفاق کرتے ہوئے کہا اس عمل کے فوراً بعد بلوچ قوم کی جانب سے شدید ردعمل آنا چاہیئے تھا جو کہ نہیں آیا اورمنظم تحریک چلنی چاہیے تھا انہوں نے ایسا نہ ہونے کو عوام کی ایٹمی دھماکوں کی نقصانات اور تابکاری سے متعلق کم علمی کو قرار دیا.

بی این پی کے سینٹل کمیٹی کے ممبر و سابق آرگنائزر بی ایس او جاوید بلوچ نے کہا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھے اور بی ایس او نے دھماکوں کے بعد سخت احتجاجی مظاہرے بھی کئے تھے.

ساتھیوں میں نے چار دن کے مختصر مدت میں اس معاملے سے جتنا ممکن تھا پردہ ہٹانے اور سچائی سامنے لانے کی اہنی سی کوشش کی اور نہ صرف بلوچستان نیشنل پارٹی کا نؤقف جاننے کی کوشش کی بلکہ بی این پی کے مخالف جماعتوں سمیت بلوچ دانشوروں اور صحافیوں کی بھی رائے لی. اس ہورے معاملے پہ مزید بحث مباحثے و تحقیق کی گنجائش موجود ہے. اب آپ ساتھیوں پہ ہے کہ آپ اس پہ سنجیدہ گفتگو اور تحقیق کر کے مزید حقائق سامنے لاتے ہیں یا پھر حسبِ معمول اسے بھی ٹرولنگ کی نظر کردیتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں