نیاعمرانی معاہدہ

تحریر: انور ساجدی
قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں ایک نیا عمرانی معاہدہ کیاجائے انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے بڑے بھائی اور پارٹی کے سپریم لیڈر نوازشریف کو تعاون پرآمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے خیریہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ شہبازشریف کو عمرانی معاہدہ کی حقیقت معلوم نہیں ہے اور وہ نہیں جانتے کہ دراصل یہ کیا چیز ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ نئے عمرانی معاہدہ سے مراد ایسا این آر او ہے کہ جس کے تحت ن لیگ کے قائدین کیخلاف تمام مقدمات ختم کردیئے جائیں اور انہیں دوبارہ سیاست میں بھرپورکردارادا کرنے کا موقع دیا جائے دوسرے لفظوں میں انہیں ایک بار پھر اقتدار میں شراکت کا موقع دیاجائے۔
جہاں تک نئے عمرانی معاہدہ کا تعلق ہے تو کافی عرصہ سے خود کو قوم پرست کہلوانے والی جماعتیں اس کا مطالبہ کررہی ہیں 1973ء کے آئین کی منسوخی کے بعد یہ مطالبہ پرزور طریقے سے پیش کیا گیا اے این پی،نیشنل پارٹی،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور کچھ دیگرجماعتوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین بار بار منسوخی اور تبدیلی کے بعد اپنی روح کھوچکا ہے لہٰذا پاکستان جیسے کثیر القوامی ریاست میں ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے میرغوث بخش بزنجو وہ سیاستدان تھے کہ انہوں نے 1940ء کی قرارداد کے مطابق ایک نئے عمرانی معاہدہ کا مطالبہ کیا تھا عہد حاضر میں پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹرمیاں رضا ربانی نے جو18ویں ترمیم کے خالق ہیں بار بار زوردیا ہے کہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فیڈریشن بنانے اور اختیارات دفائی اکائیوں تک منتقلی کیلئے نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے انہوں نے دوسال قبل گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی تھی یعنی ریاست کو چلانے والے تمام اسٹیک ہولڈر سرجوڑ کر بیٹھیں اورہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ طے کریں کہ ریاست کو کس اساس کی بنیاد پر چلایاجائے۔
اگرواقعی شہبازشریف کا بھی مطالبہ یہی ہے تو اس کامطلب یہی ہے کہ پہلی بار پنجاب کی سب سے بڑی جماعت نے بھی موجودہ آئین کو ناکافی قراردیتے ہوئے ایک نئے آئین کی تشکیل کا مطالبہ پیش کیا ہے اگرچہ ان کے اس مطالبہ کو اس لئے سنجیدہ نہیں لیاجائے گا کہ ن لیگ کی35سالہ سیاست صرف اقتدار کے حصول کی کوششوں تک محدود ہے تین مرتبہ برسراقتدار ہونے کے باوجود اس جماعت نے کسی قسم کی اصلاحات لانے کی کوشش نہیں کی اس نے نیب کی ہئیت درست کرنے کی کوشش بھی نہیں کی احتساب کے عمل کو ہمہ گیر نہیں بنایا اور نہ ہی درست انتخابات کے انعقاد کیلئے اصلاحات کاعمل پیش کیا ن لیگ کے پچھلے دو ادوار شاندار نہیں ہیں کیونکہ میاں صاحب نے ایک بھونڈا احتساب بیورو بنایا جس کا مقصد سیاسی مخالفین سے انتقام لینا تھا انہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کیں جس میں سے ایک عدالت نے خود میاں صاحب کو ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی موجودہ دور میں سپریم لیڈر نے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے عمل کو آنکھیں بند کرکے منظور کیا جس نے انکے تمام بیانیہ کوبلڈوز کردیا۔
چونکہ شہبازشریف کی رائے پارٹی میں صائب نہیں ہے اس لئے عمرانی معاہدہ کے مطالبہ کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہے جب تک بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی اس کا مطالبہ نہیں کریں گی یہی سمجھاجائیگا کہ میاں شہبازشریف نے ہوا میں باتیں کی ہیں لیکن کچھ بھی ہو کاغذوں پر وہ ن لیگ کے صدر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں انہوں نے معاملات کو زمینی حقائق کے مطابق چلانے ہیں اس کے برعکس میاں صاحب سات سمندر پار ولایت میں بیٹھے ہیں انہیں جو اطلاعات اور رپورٹس جارہی ہیں وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ ان کا عمل بہت حد تک ایک خیالی دنیا کے اردگرد گھومتا ہے اگرچہ مریم نواز اس وقت مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں لیکن ان کا سیاسی تجربہ بہت کم ہے بلکہ خود انکے چچا جان نے کہا ہے کہ انہیں گرومنگ کی ضرورت ہے لہٰذا دونوں میاں صاحب کے درمیان لائن آف ایکشن کے مسئلہ پر شدید اختلاف پایاجاتا ہے۔
مثال کے طور پر شہبازشریف نے کہا کہ پی ڈی ایم ایک اتحاد ہے اور اس میں شامل کسی ایک جماعت کو حق حاصل نہیں کہ وہ کسی اور جماعت کو نکالنے یا شامل کرنے کا فیصلہ کرے جبکہ مریم نوازاورانکے تازہ مصاحب خاص شاہد خاقان عباسی بضد ہیں کہ
جب تک پیپلزپارٹی اور اے این پی معافی نہ مانگیں انہیں پی ڈی ایم میں واپس نہیں لیاجائیگا اسی طرح شہبازشریف کا خیال ہے کہ اپوزیشن مل کر پارلیمنٹ میں حکومت کوٹف ٹائم دے سکتی ہے لیکن نوازشریف اور مریم کواپوزیشن کی باقی جماعتوں کی پرواہ نہیں ہے اس سے یہی گماں گزرتا ہے کہ ن لیگ تحریک انصاف کو مدت پوری کرنے کے حق میں ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں مایوس ہوکر عوام ن لیگ کے حق میں فیصلہ دیں لیکن ن لیگ کو وقت کی اہمیت کا ادراک نہیں ہے سیاسی فیصلوں میں حکمت عملی کے ساتھ وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیامعلوم کہ آئندہ دوسال میں عمران خان اپنے تمام مسائل پرقابو پالیں عوام کو درپیش مسائل حل کرلیں معیشت کو آگے بڑھائیں تو عوام ایک بار پھر ان کے حق میں فیصلہ دیدیں اگر ن لیگ نے بروقت اور درست فیصلے نہیں کئے تو وقت اس کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔اگر اسے آئندہ انتخابات میں کامیابی مل بھی جائے تو وہ2018ء کی کامیابی سے زیادہ نہیں ہوگی یعنی وہ آسانی کے ساتھ حکومت سازی نہیں کرسکے گی جبکہ تحریک انصاف اور دیگرجماعتیں مل کر ایک اور مخلوط حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آجائیں گی کیونکہ ایسے آثار نہیں ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا دوبارہ احیاء ہو زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ پنجاب میں اس کی موجودہ نشستیں دوگنی ہوجائیں اس سے وہ حکومت سازی میں کوئی اہم رول ادا نہیں کرسکے گی البتہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی مل کر حکومت بناسکتی ہیں لیکن مریم بی بی کی جارحانہ پالیسی نے دونوں جماعتوں کو ”بعدالمشرقین“ بنادیا ہے ماضی کی یہ حریف جماعتیں مستقبل میں بھی ایک نہیں ہوسکتیں دوسری جانب تحریک انصاف کی نشستوں میں کمی کا امکان ضرور ہے لیکن وہ پنجاب اور سرحد کی دوسری جماعت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اگر اسے بڑوں کی سرپرستی حاصل رہے تو وہ دوبارہ برسراقتدار آسکتی ہے ن لیگ کے اترانے کی وجہ سال2022ء کا وہ اہم وقت ہے کہ جب تیسری بار توسیع کی ضرورت پڑے گی اس جماعت کے اکابرین کاخیال ہے کہ وہ اس موقع کو سودے بازی کیلئے استعمال کریں گی اگر اس بار پیپلزپارٹی نے ن لیگ والا فیصلہ کرلیا تو پھر کیا ہوگا پھر تووقت ن لیگ کے ہاتھ سے نکل جائیگا اگرچہ پاکستان میں سیاست کا کوئی اصول نہیں ہے لیکن جو طریقہ رائج ہے اس کے مطابق سیاست کے اندر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملایاجاتا ہے ایسی ضد اور انا اپنایا نہیں جاتا کہ آپ کے حامی اور ہمدرد کم ہوجائیں اس سلسلے میں عمران خان کاطرزعمل سامنے ہے وہ اپنی حکومت پارٹی اور شخصیت کے اندر خود پر حملہ آور ہے بظاہر ان کاکہنا ہے وہ بدعنوان عناصر کو کسی قیمت پر برادشت نہیں کریں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے گزشتہ ایک سال سے کرپشن کے متعدد اسکینڈل سراٹھارہے ہیں تازہ اسکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ کا ہے یہ ایسی گنگا ہے کہ عمران خان کے کئی ساتھیوں نے اس سے استفادہ کیا ہے ابھی تک تو خان صاحب،جہانگیر خان ترین کے احتساب میں مصروف تھے کہ رنگ روڈ اسکینڈل نے ان کے دواہم وزراء غلام سرورخان شیخ رشید اور معاون خصوصی ذلفی بخاری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اگرحالات یہی رہے تو جہانگیر ترین گروپ میں مزید اراکین اسمبلی شامل ہوجائیں گے جس کی وجہ سے آئندہ ماہ بجٹ کی منظوری میں حکومت کو”بڑوں“ کاتعاون حاصل کرنا پڑے گا اس کے بغیر وہ بجٹ کومنظر کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے پاکستانی سیاست مسلسل پیچیدہ صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے سارے سیاستدان باہم گھتم گھتا ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں جبکہ دور بیٹھے بااثر لوگ اس کھیل تماشہ کالطف اٹھارہے ہیں کیونکہ سب کی نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں اور وہ ان کی التفات کی منتظر ہیں یہ صورتحال2023ء تک اسی طرح جاری رہے گی۔ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ کا پراسرار رویہ اور ناقص حکمت عملی موجودہ حکومت کے قائم رہنے کی ضمانت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں