امریکہ کا ہوش ربا انکشاف

تحریر:انورساجدی

گزشتہ ماہ ایک خبر آئی تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے ملزم صید اکبر کی اہلیہ ایبٹ آباد میں فوت ہوگئی خبر کا اہم حصہ یہ تھا کہ پاکستان سرکار نے اپنے وزیراعظم کے قاتل کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رکھا ہوا تھا ایک بڑا مکان الاٹ کیا گیا تھا اور تاحیات گزارہ الاؤنس مقرر کیا گیا تھا اس خبر کے ساتھ سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھاتھا کہ ایسا کیوں کیا گیا وہ کونسی حکومتی شخصیات تھیں جنہیں صید اکبرکے خاندان سے ہمدردی تھی یا وہ اس اہم واقعہ کے بعض پہلوؤں کوپوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔
16اکتوبر1951ء کو راولپنڈی کے خونی کمپنی باغ میں 56سالہ لیاقت علی خان جلسہ سے خطاب کرنے جونہی ڈائس پر آئے تو ایک افغان باشندہ نے پستول سے فائر کرکے گولی ان کے دل میں اتاردی بجائے کہ قاتل کوگرفتارکیاجاتا ایک پولیس افسر نے موقع پر ہی اسے قتل کردیا جس کی وجہ سے یہ ثبوت مٹ گیا کہ قتل کے پیچھے کن کاہاتھ تھا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے70بعدسال امریکہ نے اس قتل کے پیچھے کارفرما محرکات سے پردہ اٹھایا ہے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جو دستاویزات جاری کی ہیں اس کے مطابق قتل سی آئی اے نے امریکی صدر کے احکامات پر کیا رپورٹ کے مطابق اگرچہ لیاقت علی خان نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکراکر امریکہ کا دورہ کیا تاہم بہت جلد امریکہ نے پاکستان کو ایک طفیلی ریاست سمجھ کروزیراعظم لیاقت علی خان کو حکم دیا کہ وہ تہران جاکر شاہ ایران کو قائل کریں کہ وہ تیل نکالنے کے کنٹریکٹ امریکی کمپنیوں کو دے لیکن لیاقت علی خان نے یہ کام کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک پر دباؤ ڈالے اس انکار کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سردمہری آئی جبکہ لیاقت علی خان نے پاکستان میں موجود امریکی اڈے بند کرنے کا حکم دیا جوسوویت یونین کی جاسوسی کیلئے قائم کئے گئے تھے چنانچہ صدر ہیری ٹرومین سخت ناراض ہوگئے اور سی آئی اے سے کہا کہ وہ پاکستانی وزیراعظم کا کام تمام کردے سی آئی اے نے پاکستان میں ایسے شخص کی تلاش شروع کردی جو لیاقت علی خان کوقتل کرنے کاکام کرے لیکن پاکستان میں کوئی قابل اعتماد اور ماہر تیرانداز نہیں ملا جس کے بعد افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی حکومت سے رابطہ قائم کیا گیا افغان حکومت نے تلاش کے بعد صیداکبرنامی شخص کو ڈھونڈلیا اور انتظامات کرکے اسے پاکستان پہنچادیا سی آئی اے نے اس کی پوری مدد کی اور لیاقت علی کے قتل کے انتظامات میں مدد دی تاہم قاتل صیداکبر اس بات سے بے خبر تھے کہ جو لوگ اسے ہدایات دے رہے ہیں وہ کون ہیں سی آئی اے کے حکام موقع کی تلاش میں تھے یہ موقع انہیں اس وقت ملاجب لیاقت علی خان کو ان کے مشیروں نے قائل کیا کہ وہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ سے خطاب کریں تاکہ عوام کو مایوسی کی صورتحال سے نکالا جاسکے اگرچہ لیاقت علی خان جلسہ سے خطاب پر راضی نہیں تھے لیکن مشیروں نے انہیں مجبور کیا 16اکتوبر کو صیداکبر کو ایک پستول دیکر جلسہ گاہ پہنچایا گیا جب لیاقت علی خان خطاب کیلئے ڈائس پر پہنچے تو صید اکبر نے جو کہ قریب موجود تھے ان پر دوفائر کئے ایک لینے میں لگی جس سے لیاقت علی خان شدید زخمی ہوگئے انہیں ایک مقامی اسپتال لے جایاگیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے جبکہ صیداکبر کو موقع پر ہی ایک پولیس افسر نے گولی مارکر ہلاک کردیا صید اکبر نے جو گولیاں استعمال کیں وہ پاکستان اور افغانستان میں دستیاب نہیں تھیں بلکہ یہ صرف اعلیٰ امریکی فوجی افسران استعمال کرتے تھے تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کیلئے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں لیکن ثبوت نہ ہونے پر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔
”پاکستان ٹوڈے“ نے لیاقت علی خان کے قتل کی جورپورٹ شائع کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ رپورٹ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ازخود طشت ازبام کیا ہے جو کہ امریکہ 30سال بعد کرتا ہے اور یہ اس کی پرانی روایت چلی آرہی ہے لیکن لیاقت علی خان کے قتل کی رپورٹ اس نے 60سال بعد جاری کی ہے لیکن بوجوہ یہ میڈیا کے ہاتھ نہ لگ سکی10سال بعد یہ رپورٹ پہلی بار شائع کی گئی ہے۔اگر پاکستان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو وہ امریکی سی آئی اے کیخلاف مقدمہ درجہ کرکے اس پر مقدمہ چلاتا لیکن ”ہودبھائی“ کے مطابق پاکستان ایٹم بم رکھنے کے باوجود ایک مسکین ملک ہے جس کے وزیراعظم کو سعودی ولی عہد ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے کسی وقت بھی بلاسکتا ہے اور تضحیک کی خاطر مٹھی بھر چاول ہاتھ میں تھماکر واپس بھیج دیتا ہے بدقسمتی سے اس ریاست میں آج تک جتنے بھی واقعات ہوئے آج تک کسی کی رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی اور تو اور پاکستان کے دولخت ہونے کی جو تحقیقات رپورٹ جسٹس محمود الرحمن کمیشن نے بنائی تھی اسے بھی عام نہیں کیا گیا بلکہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شدید دباؤ کے تحت رپورٹ کو مخفی رکھا نہ صرف یہ بلکہ بھٹو نے کئی جنگی قیدی جو پاگل ہوگئے تھے سول سروس میں لئے ان میں سے ایک میجرایوب تھے جو خضدار کے ڈپٹی کمشنر بنادیئے گئے تھے جس نے لوگوں کا جینا حرام کردیا تھا کئی اعلیٰ اور بڑے نام جوتھے انہیں اعلیٰ عہدے دیئے گئے بھٹو نے بنگال کے قصائی کے نام سے مشہور جنرل ٹکا خان کو فوج کی کمان سونپ دی ٹکا خان پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ زوروں پر تھا موصوف بھٹو کی پھانسی کے بعد سیاست میں آکر پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل بن گئے انہوں نے بلوچستان میں پہلا آپریشن کرنل کی حیثیت سے 1958ء میں کیا تھا 1973ء کا فوجی آپریشن بھی ان کی نگرانی میں ہوا تھا ایک شخص بریگیڈیئر عثمان حسن جو1974ء میں چمالنگ آپریشن کے انچارج تھے انہیں بلوچستان میں سیکریٹری کے عہدے پر تعینات کیا گیا موصوف نے دوسری بار ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کتاب بھی لکھی تھی اور ایک آپریشن کے بل بوتے پر وہ خود کو ماہر بلوچستانیات شمار کرنے لگے تھے۔
کبھی وہ وقت بھی آئیگا کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یہ راز طشت ازبام کرے گا کہ سی آئی اے نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے اور پھانسی پر لٹکانے کامنصوبہ کس طرح بنایا تھا اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کس طرح قائل کیا تھا کہ وہ بھٹو کیخلاف پی این اے بناکر ایک عوامی تحریک چلائیں سی آئی اے نے اس تحریک کیلئے جو مالی وسائل فراہم کئے تھے وہ راز بھی بالآخر اگل دے گی۔
بھٹو کے بعد امریکہ نے ضیاؤ الحق کے ذریعے افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف جنگ شروع کی تھی اس ضمن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پہلے ہی کافی تفصیلات جاری کرچکا ہے اور ایک لمبی چھوڑی فہرست شائع کی ہے جو ان لوگوں کی ہے جنہوں نے سی آئی اے سے فنڈ وصول کئے تھے۔
آج اس حقیقت کو سب جانتے ہیں ک وہ جہاد ضیاؤ الحق کا اپنے ملک پر ہی خود کش حملہ تھا40سال کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن پاکستان دہشت گردی منشیات نارکوٹریڈ اور معاشی زبوں حالی سے باہر نکل نہیں سکا امریکہ کے اربوں ڈالر تو چند لوگ کھاگئے تھے لیکن وہ پاکستان کو دائمی مصائب میں چھوڑ کر چلے گئے۔
افغانستان میں جب امریکہ کا مقصد پورا ہوا تو ضیاؤ الحق اور ساتھی 17اگست1988ء کو سی ون تھرٹی 130طیارے کے حادثہ میں جل کر بھسم ہوگئے لیکن تحقیقات کے باوجود یہ کھوج لگایا جاسکا کہ اس حادثہ کے پیچھے کس کاہاتھ تھا۔
اسی طرح2007ء میں راولپنڈی کے کمپنی باغ لیاقت باغ میں بینظیر کا بہیمانہ قتل ہوا لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات کے باوجود قتل کے محرکات اور اس میں ملوث عناصر سامنے نہ آسکے کافی سال بعد پتہ چلا کہ زرداری کی حکومت نے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے یہ کہا تھا کہ بینظیر کی موت کن ہتھیاروں سے ہوئی ان کا کھوج لگایا جائے یہ نہیں کیا گیا تھا کہ جو عناصر قتل کے پیچھے ہیں ان کا پتہ چلایاجائے۔لگتا یہی ہے کہ اس ملک میں جو پہلے ہوا تھا اس کا پتہ چلایانہ جاسکا اور جو آئندہ ہوگا وہ بھی ہمیشہ راز ہی رہے گا ضیاؤ الحق نے افغان جہاد اور پرویز مشرف نے افغانستان پرحملوں کیلئے امریکہ کو زمینی سمندری اور فضائی رسائی دی تھی لیکن کسی پارلیمنٹ نے آج تک پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ دو آمروں نے ایسا کیوں کیا اب جبکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان مشرف کا معاہدہ دوبارہ بحال ہوگیا ہے تو موجودہ پارلیمنٹ بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ سچ کا کھوج لگواسکے کیونکہ وزیرخارجہ نے امریکہ کے اعلان کے باوجود یہ سفید جھوٹ بولا کہ امریکہ کو اڈے نہیں دیئے گئے ایک مسکین ملک کا فقیر وزیرخارجہ جھوٹ نہ بولے تو اور کیاکرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں