امریکی طاقت پر منڈلاتے خطرات

زبیر بلوچ
دنیا کی تاریخ کو ٹٹولنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں تقسیم کبھی بھی کسی ایک ریاست و طاقت اور نظام کے پلہ میں نہیں رہی ہے بلکہ وقت و حالات اور انسانی سوچ میں تبدیلی کے ساتھ طاقت کا پلہ بھی ہمیشہ بگڑتا رہا ہے، اس کی مثال ہمیں انیسویں صدی کے دوران باآسانی مل سکتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال برطانیہ ہے۔ انگریز سامراج 17ویں اور اٹھارویں صدی میں جنم لینی والی طاقت تھی جس کا انیسویں صدی کے دوران دنیا کے 24 فیصد زمین پر قبضہ تھا یعنی دنیا کی آبادی کا 24 فیصد اْس کے زیر میں تھی، بریٹش کا ایشیا، نارتھ امریکا، ساؤتھ ایسٹ ایشا اور مختلف دیگر علاقوں پر کنٹرول حاصل تھا، بلکہ امریکا جو آج دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے 1776 سے پہلے برٹش سامراج کے قبضے میں تھا جبکہ اپنی آزادی لینے کے بعد امریکا نے جلد ہی اپنے آپ کو دنیا کے نقشے پر ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے لیا اور انیسویں صدی کے افتتاحی سالوں میں امریکا نے برٹش سامراج کو چیلنج کرنا شروع کر دیا، یہ تاریخ کا جبر ہے۔ برٹش ایمپائر ہی کی مرہون منت ہے کہ بلوچ قوم آج دنیا کے 3 ممالک تقسیم ہے جس کی ایک بڑی آبادی افغانستان میں ڈیورنڈ لائن کے اْس پار ہے جبکہ ایک بڑی آبادی اور زمین و وسائل ایران کے اندر موجود ہے جہاں پر اْن کی شناخت کو مسخ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جہاں پر لوگ بلوچی نام بھی رکھنے سے محروم ہیں، انگریزوں کی جانب سے یہ صرف بلوچوں کی ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ ہندوستان کے زمین پر قبضہ کرنا یہاں کے لوگوں کا استحصال کرنا اورہندوستان وسائل کی لوٹ ماری کرنا بھی انہی کے نام رہا جبکہ کے ساتھ ساتھ نارتھ امریکا کے ممالک کے ساتھ ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی برطانوی سامراج کا یہی رویہ رہا لیکن تاریخ میں کوئی چیز آخری نہیں ہوتی، جرمنی کے ساتھ برٹش سامراج کے ہاتھوں غلامی سہنے والے امریکا نے جب برطانوی سامراج کو معاشی اور فوجی حوالے سے چیلنج کرنا شروع کیا تو برٹش کی گھبراہٹ شروع ہو گئی، جنگ عظیم اوّل کا سامنا کرنے کے بعد ایک حد تک برطانوی سامراج کو اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ وہ مزید دنیا پر اپنا قبضہ قائم نہیں رکھ سکتا جبکہ اس کی ایک وجہ انیسویں صدی میں جنم لینے والی سوشلسٹ انقلابی تحریکیں تھیں، دنیا کے کئی ممالک خاص طور پر یورپ میں کئی ریاستوں کے اندر مزدور تحریکیں سر اٹھانا شروع کر چکی تھیں۔
قصہ مختصر جنگ عظیم اوّل کے بعد برٹش کمزور ہوتا گیا اور جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ کی 4 سو سالہ طاقت کا خاتمہ ہوا جو دنیا پر راج کرتا تھا، اس دورانیہ میں شاید برطانیہ نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ اس طاقت کو دنیا کی کوئی آفت یا کوئی ریاست مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن تاریخ کے اندر ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی وہ حالات کے سات بدلتی رہتی ہے۔ آج برطانیہ کی حالت یہ ہے کہ وہ چار ریاستوں پر مشتمل ہے جس میں اسکاٹش آزادی چاہتا ہے جس نے کچھ سال قبل باقاعدہ اپنا ریفرنڈم کرایا تھا جہاں لوگوں کی اکثریت نے برٹش سے علحیدگی کا اعلان کیا ہے جبکہ ناردرن آئرلینڈ میں بھی تحریک زوروں پر ہے عین ممکن ہے کہ کسی بھی بڑے بحران میں ناردرن آئرلینڈ اپنے آپ کو برٹش قبضہ سے آزاد کرائیں۔
برطانیہ طاقت کے بعد ایک ایسی طاقت سویت یونین تھی جس نے امریکی طاقت کا مقابلہ کیا، 15 ریاستوں پر مشتمل سویت یونین بھی برطانیہ کی طرح ایک ناقابل یقین طاقت تھا جس نے نا بلکہ طاقت سے بلکہ اپنا لٹریچر سے بھی دنیا میں کئی لوگوں کو ذہنی طور پر اپنا ساتھی بنایا تھا جبکہ کئی چھوٹی چھوٹی قومیتیں سویت یونین سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے کہ وہ انہیں ایک ریاست کے بنانے میں مدد دیگا، دنیا کی تاریخ میں سرد جنگ کا آغاز بھی سویت یونین نے امریکا کے خلاف کیا لیکن یو ایس ایس آر کی جانب سے ایک غلطی نے اْس کی دباہی کے راستے بنا لیے جو اْس کے خاتمے کا سبب بنا۔
ان مثالوں کو یہاں پر رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم اس بات کو سمجھ سکیں کہ دنیا میں امریکا سے بھی بڑی طاقتیں گزری ہیں جو اس کرہ ارض پر سینکڑوں قوموں پر قابض رہی ہیں لیکن وقت و حالات کے تقاضے جبکہ سامراجی ریاستوں کی جانب سے طاقت کو سب سمجھنے کی غلطی نے انہیں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ آج امریکا کی بھی حالت یہی دیکھائی دیتا نظر آ رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شق نہیں کہ امریکا موجودہ وقت میں نا بلکہ ایک سپرپاور ملک ہے بلکہ وہ حد سے زیادہ طاقتور قوت ہے، اس بات کا اندازہ امریکی فوجی و معاشی قوت کو دیکھتے ہوئے کیا جا سکتا ہے، کہ امریکی فوجی اڈے دنیا کے چاروں کھونوں میں موجود ہیں، سنٹرل ایشیا سے لیکر ساؤتھ ایسٹ ایشا تک نارتھ امریکا سے مڈل ایسٹ تک مطلب آدھی دنیا پہ امریکی فوج بیٹھی ہے لیکن ایک سپرپاور طاقت کیلئے اپنے اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے طاقت کے علاوہ بھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج امریکی معیشت بھی دنیا کی مضبوط معیشت ہے لیکن موجودہ حالات میں امریکی قیادت سفارتکاری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور سفارتکاری کا طاقت کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ آج امریکی قیادت کے ناکامی کی وجہ مڈل ایسٹ میں امریکا کے درجنوں دشمن بن چکے ہیں، عراق میں امریکی فوجی غیر قانونی طور پر بیٹھے ہیں ایران کے ساتھ ہمیشہ جنگ کی تیاری رہتی ہے جبکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی امریکی تعلقات دوستی پر نہیں بلکہ طاقت کی زور پر مبنی ہے، پورے ایشیا میں بھارت امریکا کا سب سے قریبی اور نزدیک دوست سمجھا جاتا ہے لیکن کل ایک بیان نظروں سے گزرا جہاں پر امریکا بھارت کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے رہی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے امریکا طاقت کے نشے میں دھت ہے اور باقی سارے لوازمات بھول چکا ہے۔
امریکا نا صرف تعلقات بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہے بلکہ امریکی قیادت کسی بھی چیلنج کو سامنے کرنے سے بھی بری طرح ناکام دیکھائی دیتا ہے۔ جس کا واضح مثال کرونا کی شکل میں موجود ہے۔ دسمبر کے مہینے میں جب کرونا کے کیسز چین میں آنے لگے اور وائرس کے متعلق سائنسدان و ماہرین تجزیہ کر رہے تھے تو بحثیت سپرپاور امریکا کو اس حالت میں چین کا ساتھ دینا چاہیے تھا اور اس کو ختم کرنے میں چین کی مدد کرتا لیکن اس پر امریکا خوش ہو گیا کہ دشمن ملک چین میں آفت آ گئی اور اب چین کی معیشت تباہ ہو جائے گی، اس وائرس پر امریکی قیادت ہمیشہ مذاق کرتے رہے جبکہ صدر ٹرمپ نے تو اس کو چینی وائرس قرار دیا تھا۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اسے عالمی وباء قرار دینے کے باوجود امریکی قیادت اس کو سنجیدہ لینے میں ناکام دیکھائی دیے جس کے اثرات اب ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب تک کے مطابق کرونا کے سب سے زیادہ امریکا میں موجود ہیں جبکہ اموات میں بھی امریکا آگے ہے۔ ایک ویڈیو میری نظروں سے گزری تھی کہ امریکا میں لاشیں اب سڑکوں پرپڑی ہیں جبکہ ان کو اٹھانے کیلئے ایمبولینس اور لاشوں کو رکھنے کیلئے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔امریکا کی سفارتکاری کی ناکامی کا حالت یہ ہے کہ وہ ملکوں کو دھمکی دے کر سپورٹ اور مدد مانگ رہا ہے جبکہ دوسری طرف چین اپنے تمام دوست ممالک کو نا بلکہ اس حالت میں مالی مدد کر رہی ہے بلکہ کرونا کا مقابلہ کرنے کیلئے وہ مختلف ملکوں کو افرادی قوت بھی دے رہا ہے۔ امریکی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر عالمی دنیا پر راج نہیں کیا جا سکتا بلکہ عالمی دنیا پر راج کرنے کیلئے دیگر اہم لوازمات کی بھی ضرورت ہے۔ اگر امریکی قیادت مزید کچھ سالوں تک ٹرمپ جیسے غیر سیاسی و غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھوں میں رہا تو جلد یا بدیر امریکا اپنا مقام کھو دے گا۔ جس طرح برٹش ایمپائر ختم ہوکر 4 اسٹیٹ پر مشتمل ہے جس میں دو اسٹیٹ اپنی الگ الگ ریاستوں کی بات کر رہے ہیں امریکا کا بھی عشر یہی ہونے والا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں