پارلیمانی رہنماؤں شیری رحمن،خواجہ آصف، اعظم سواتی اور میر حاصل بزنجو کی تجاویز قابل غور ہیں،شاہ محمود قریشی
اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمو قریشی نے کہا ہے کہ پارلیمانی رہنماؤں شیری رحمن،خواجہ آصف، اعظم سواتی اور میر حاصل بزنجو کی تجاویز قابل غور ہیں،جی فاصلے کی ترغیب کیلئے ہمیں علماء کی خدمات کی ضرورت ہے کہ وہ عوام الناس کو سماجی فاصلے کی تلقین کریں، میڈیا صبح سے شام تک آگاہی مہم چلارہا ہے، لوگ اس طرح سے حفاظتی اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں،چین کا ماڈل بہت موثر ہے،ہمیں اپنے وسائل کو دیکھنا ہے ہم من و عن اس ماڈل کو نہیں اپنا سکتے،ہمیں گندم کی کٹائی کیلئے، زرعی شعبے کو کھولنا ہو گا،ٹائیگر فورس میں شرکت کیلئے کوئی بھی وزیر اعظم کے پورٹل پر اپنے آپ کو رجسٹر کر سکتا ہے،ہم نے اس رفاہی کام کو سیاست سے بالائے طاق رکھنا ہے۔ جمعرات کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پارلیمانی کمیٹی برائے کرونا وائرس ڈیزیز کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اعظم ہوتی نے اپنے تجربے کے مطابق کچھ اہم چیزوں کی نشاندہی کی،شیریں رحمان صاحبہ نے ہفتہ وار اجلاس کی تجویز دی وہ بھی قابل غور ہے۔ انہوں نے کہاکہ خواجہ آصف صاحب نے کہا کہ وہ خود راشن تقسیم کرنا چاہتے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اگر ضلعی انتظامیہ کے ساتھ کوآرڈینیشن کے ساتھ راشن تقسیم ہو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ بزنجو صاحب نے نشاندہی کی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فلاحی کام ہے اس کیلئے کسی سیاسی ٹی شرٹ کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہاکہ سماجی فاصلے کی ترغیب کیلئے ہمیں علماء کی خدمات کی ضرورت ہے کہ وہ عوام الناس کو سماجی فاصلے کی تلقین کریں۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا صبح سے شام تک کرونا سے آگاہی کیلئے مہم چلا رہا ہے لیکن لوگ اس طرح سے حفاظتی اقدامات نہیں اٹھا رہے،وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس کے قیام کی بات ایک جذبے کے تحت کی۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا سندھ میں بھی مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہوا،ہم بتدریج لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہر جگہ پر ردعمل مختلف ہے سندھ نے کچھ بہت اچھے اقدام کیے پنجاب بھی اس حوالے سے کچھ اہم اقدامات اٹھا رہا ہے اسی طرح صوبے اپنے بجٹ سے ہیلتھ کئر سروسز کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں،میری روزانہ ایک دو وزرائے خارجہ سے بات چیت ہو رہی ہے،اس وقت مختلف ممالک مختلف پالیسیوں پر عمل کر کے اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چین کا ماڈل بہت موثر ہے لیکن ہمیں اپنے وسائل کو دیکھنا ہے ہم من و عن اس ماڈل کو نہیں اپنا سکتے،ہمیں گندم کی کٹائی کیلئے، زرعی شعبے کو کھولنا ہو گا،ہم بیرون ملک مقیم، واپسی کے منتظر پاکستانیوں کو بتدریج واپس لا رہے ہیں،دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے جس سے دنیا نبرد آزما ہے،دنیا ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ رہی ہے،آج نیویارک کی صورت حال آپ کے سامنے ہے،دنیا میں کرونا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی سامان کی قلت ہے،وینٹیلٹرز کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکے ہیں،وزارت خارجہ کے افسران نے اپنی تنخواہ سے پیسے جمع کر کے ہمز کے ڈاکٹرز کیلئے حفاظتی سامان خریدا ہے جو آج ہم ان کے حوالے کر رہے ہیں،کوئٹہ میں ہونیوالے ڈاکٹرز کے واقعہ کا وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور زیر حراست ڈاکٹرز کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے انہیں حفاظتی سامان مہیا کرنے کی ہدایت کی ہے،ٹائیگر فورس میں شرکت کیلئے کوئی بھی وزیر اعظم کے پورٹل پر اپنے آپ کو رجسٹر کر سکتا ہے،ہم نے اس رفاہی کام کو سیاست سے بالائے طاق رکھنا ہے۔