عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی

اس میں دورائے نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان معاشی مشکلات میں گھراہوا ہے، عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤپر پنشنرز پر ساڑھے سات فیصد ٹیکس عائد کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔حکومت کو 18ارب روپے کی بچت ہوگی۔ایسے حالات میں عام آدمی نے پاکستان کو اقوام متحدہ کے تحت منائے جانے والے عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کرتے دیکھ کر یقینا ایک حد تک سکون کا سانس لیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس، چین کے صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن، اور دیگر عہدیداروں نے پاکستان کی خدمات کو سراہااور بلین ٹری منصوبے کوصحیح سمت میں دانشمندانہ اقدام قرار دیا۔وزیر اعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ برسوں میں پاکستان اب پاکستان 10ارب درخت اگانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دے گا۔اپوزیشن ابھی تل اربوں درخت لگانے کے دعووں پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے، سپریم کورٹ نے ایسی اطلاعات کے پیش نظر حساب مانگ لیا تھا۔اپوزیشن کے علم میں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے آج نہ صرف یہ معلوم کیا جا سکتا ہے اگائے جانے والے گنے کے درختوں کی تعداد کتنی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس گنے سے کتنی چینی حاصل ہوگی۔سپریم کورٹ حکومت کو شواہد کے ساتھ طلب کر چکی ہے،گھپلے سامنے آجائیں گے۔لیکن نون لیگ کے سینئر رہنما کا یہ کہنا عام آدمی آسانی سے تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک ارب میں سے ایک درخت بھی کہیں نظر نہیں آتا۔تقریب میں ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی جس میں پسماندہ علاقے کی خواتین کو شجر کاری کرتے دکھایاگیا ہے،خواتین کے لئے ذریعہ آمدنی بھی ہے۔ ہماری خواتین جفاکش ہیں،گلہ بانی میں ماہر ہیں۔مناسب منصوبہ بندی مالی معاونت سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔اپوزیشن نے خواتین کے اس معاشی کردار کو کبھی سنجیدگی سے نہیں دیکھا ورنہ رانا ثناء اللہ ایسی تنقیدنہ کرتے۔انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ دنیا آنکھیں بند کرکے محو خواب نہیں۔پل پل کی خبر رکھتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کے دوران بتایاکہ ماضی کی تمام حکومتوں نے مجموعی طور پر 64کروڑ درخت لگائے تھے جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں۔ انہوں نے ٹمبر مافیا سے مقابلے کے دوران 10 فاریسٹ گارڈ شہید بھی ہوئے،اب ان کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی اور زیارت میں ان کی تربیت کے لئے ایک اکیڈمی بھی تشکیل دی جارہی ہے،۔ ملک میں موجود نیشنل پارکس کی حالت بہتر کرنے کے ساتھ مزید نیشنل پارکس کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔ان سے ایک جانب ہمارانیچرسے تعلق بحال ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا۔اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔بیروزگاری میں کمی آئے گی۔ماضی میں اس جانب سنجیدگی سے دیکھاہی نہیں گیا۔آئندہ نسلوں کے بارے میں سوچنا تو دورکی بات ہے، موجودہ نسل کی مشکلات دور نہیں کی گئیں۔دریاؤں میں 80فیصد پانی گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے،اور گلوبل وارمنگ(موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ) کی وجہ سے گلیشیئر ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ تاجکستان کے صدر نے حالیہ دورے کے دوران بتایاہے کہ ان کے ریجن میں ایک ہزار گلیشیئر پگھل چکے ہیں۔ وہ بھی فکر مند ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ دنیا مل کر سوچے۔کورونا وائرس نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ مصیبتوں کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔امیر ملکوں کو عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے پسماندہ ملکوں کی مدد کرنی چاہیے ورنہ وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔پاکستان اپنے سیلابی پانی کو سیلاب کی صورت میں تباہی مچاتے ہوئے سمندر میں جانے سے روکے گا۔دریائے سندھ کے دونوں جانب پانی کی جھیلیں موجود ہیں، مگر خشک ہیں، اس پانی کو جھیلوں میں ڈالا جائے گا، اس کے ایک سے زائد فائدے ہوں گے،اول یہ کہ سیلابی نقصانات سے بچیں گے، دوم یہ کہ جھیلوں میں پانی جمع ہونے سے زیر زمین پانی کی سطح اونچی ہوگی،سوم یہ کہ گردو نواح کی زمینیں آباد ہوں گی۔پرندے ماحول کو خوبصورت بنائیں گے۔مینگروز کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرتے ہیں جو ماحول دوست عمل ہے۔دوسرے ملکوں نے برسوں کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنائے ہیں ہمارے پاس دنوں کاپانی دستیاب ہے۔صوبے ابھی سے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اگر آج درست اقدامات نہ کئے تو پانی کی شدید کمی کا خطرہ مزید گھمبیر ہونے کااندیشہ ہے،حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔اپوزیشن اس معاملے میں اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ کر سکتی ہے کرنا چاہیئے۔یہ ملک صرف حکومت کا نہیں، اپوزیشن مستقبل کی حکومت سمجھی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے تا حال کم نہیں ہوئے،تناؤ باقی ہے۔ مگر بعض باخبر حلقے یہ اشارا دے رہے ہیں کہ پی پی پی اور حکومت میں بعض معاملات طے پا چکے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نون لیگ کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن بھی ضرورت کے وقت حکومت کا ساتھ دیں گے۔ اگران اطلاعات میں 50فیصد صداقت ہو تب بھی اسے ملکی حالات کے تناظر میں خوش آئند سمجھا جائے گا۔اطلاع دینے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لندن سے بھی آشیر باد مل چکی ہے۔لہٰذااب مزاحمت کی بجائے مفاہمت کی حکمت عملی آگے بڑھائی جائے گی۔ پہلا قدم سینیٹ کے چیئرمین کی صورت میں دکھائی دے گا۔یوسف رضا گیلانی ہارنے کے باوجود چیئرمین بن جائیں گے۔شنید ہے اس عمل میں 2نون لیگی بھی اپناکردار ادا کریں گے۔ویسے بھی ملک کی معیشت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تابع ہے، پہلی ترجیح معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے سب کومل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ روایتی سیاست سے چپک کر رہنے کی ضد مناسب نہیں۔پہلے ملک پھر روایات کی باری آتی ہے۔علاوہ ازیں قانون سازی کے لئے بھی حکومت اور اپوزیشن مل کر کام نہ کریں تو قانون سازی نہیں ہوسکتی۔یاد رہے ہمارے ملک میں یو ٹرن کی سہولت موجود ہے اور سیاست دان اسے معیوب بھی نہیں سمجھتے۔وزیر اعظم عمران خان یوٹرن کو ذہانت اور فراست کے قریب مانتے ہیں۔جام ٹریفک کا حصہ بننے سے بہتر ہے یو ٹرن لیاجائے،اور کسی قریبی شاہراہ سے ہوتے ہوئے منزل تک پہناجائے۔اپوزیشن بھی ایک سال کی جدوجہد کے بعدسمجھ گئی ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کی طاقت عوام کے پاس ہے،جب چاہیں گے حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔ورنہ2023کون سا دور ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں