آزمائش شرط ہے

تحریر: انورساجدی
مرکزی حکومت کے دبنگ ترجمان فواد احمد چوہدری نے دو دن تواتر کے ساتھ سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ آئینی دفعات کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے اختیارات سلب کئے جائیں یعنی یہ حکومت برخاست یا برطرف کی جائے موصوف نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس گورنر راج کے نفاذ کے آئینی اختیارات نہیں ہیں اس لئے وہ گورنر راج لگانے سے قاصر ہے جبکہ سندھ کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ یہاں پر گورنر رول لگایا جائے وزیر اطلاعات نے الزام لگایا کہ دو سال کے دوران سندھ حکومت کو مرکزی پول سے 16 ارب روپے دیئے گئے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ رقم کہاں گئی؟ سندھ حکومت پر چوری کا یہ سب سے بڑا الزام ہے انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ فرنٹ مین ہیں حکومت زرداری چلارہے ہیں اور سندھ کے ترقیاتی فنڈز دبئی جارہے ہیں چنانچہ جب تک صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو کراچی ترقی کرسکتا ہے نہ سندھ اس لئے سپریم کورٹ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کو برخاست کردے یہ تو معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ یہ مطالبہ تسلیم کرے گی کہ نہیں کیونکہ وہ ایک آزاد ادارہ ہے اور کوئی بھی حکومت اسے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی اور اپنے مطالبات کے لئے اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتی کیونکہ ایک منتخب حکومت کو برطرف کرنا کوئی آسان کام نہیں‘ 18 ویں ترمیم سے قبل صدر کو دفعہ 58 ٹو بی کے تحت صوبائی حکومتوں کو برطرف کرنے اور گورنر راج لگانے کا اختیار تھا اس اختیار کو کئی بار بلاجواز استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ریاست عدم استحکام کا شکار رہی اور یہ ترقی کے معاملے میں خطے کے تمام ممالک سے پیچھے رہ گئی‘ جنرل ضیاؤ الحق کے جانشین غلام اسحاق خان نے 1990ء اور 1993ء میں دو حکومتوں کو چلتا کردیا جبکہ صدر فاروق لغاری نے 1996ء میں ایک منتخب حکومت برطرف کردی حالانکہ یہ ان کی اپنی حکومت تھی اور اسی نے انہیں صدارت کے منصب پر فائز کیا تھا۔
فواد چوہدری کا مطالبہ گویا ایک سیاسی اعلان جنگ ہے جس کا مقصد سیاسی محاذ کو گرمانا ہے تاکہ سندھ میں تحریک انصاف کے لئے جگہ نکل آئے نہ صرف یہ بلکہ تواتر کے ساتھ تحریک انصاف مختلف مقامات پر اشتعال انگیزی سے کام لے رہی ہے قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن میں جب اپوزیشن کے اراکین ایوان کے اندر پلے کارڈ لئے کھڑے تھے تو تحریک انصاف کی ایک خاتون ایم این اے نے اپوزیشن اراکین کے پاس جاکر ان کے پلے کارڈ چھیننے اور پھاڑنے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن ممبران نے صبر و تحمل سے کام لیا ورنہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا تھا اسی دوران ایک ٹی وی شو کے دوران پنجاب حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے پیپلز پارٹی کے ایم این اے قادر مندوخیل کو تھپڑ رسید کردیا یہ واقعہ وقفہ کے دوران پیش آیا تھا لیکن اسے جان بوجھ کر لیک کیا گیا بتایا جاتا ہے تھپڑ مارنے کے بعد قادر مندوخیل بھاگ کر ایک کمرے کے اندر گئے اور کنڈی لگاکر دروازہ بند کردیا جبکہ غصے میں بپھری ہوئی خاتون دروازے کو لاتیں مارکر کہہ رہی تھی نکلو باہر ”کھسرا“ کیوں چھپ گئے ہو‘ تیسرا واقعہ بھی قومی اسمبلی کے اندر پیش آیا جب بلاول بھٹو ہال کے اندر آئے تو لیہ سے تحریک انصاف کے ایک ایم این اے امجد نیازی نے نعرے کسنا شروع کردیئے انہوں نے زور سے کہا کہ
بلو رانی بیٹھ جاؤ
بیٹھ جاؤ بلو رانی
جب امجد نیازی نازیبا نعرے کس رہے تھے تو ساتھ بیٹھے ہوئے ایم این اے امین گنڈا پور ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے نہ صرف یہ بلکہ خاتون وزیر زرتاج گل بھی انہیں داد دیتی نظر آئیں۔ اس نازیبا حرکت اور اشتعال انگیزی کا کیا مطلب ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف جان بوجھ کر یہ صورتحال پیدا کررہی ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پارلیمنٹ کے اندر لڑائیاں ہونگی اور کسی دن ڈھاکہ اسمبلی کی طرح یہاں پر کشت و خون بھی ہوسکتا ہے۔ 1950 کی دہائی میں ڈھاکہ کی اسمبلی کے اندر ایک رکن نے دوسرے کو قتل کردیا تھا۔
ایک اور خطرناک صورتحال سندھ میں لسانی فسادات کی راہ ہموار کرکے پیدا کی جارہی ہے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے اندر اور باہر مسلسل اشتعال انگیزی کررہے ہیں جبکہ ایم کیو ایم نے زور و شور کے ساتھ سندھ کی تقسیم کا جو مطالبہ کیا ہے اس کے پس پردہ بھی تحریک انصاف کا ہاتھ نظر آتا ہے گزشتہ دنوں جب سندھی عوام نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف مظاہرہ کیا تو ایم کیو ایم نے اسے کراچی پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں رہائش پذیر مہاجروں کی املاک پر حملہ کیا گیا ہے حالانکہ بحریہ ٹاؤن میں صرف مہاجر نہیں رہتے بلکہ مختلف قوموں کے لوگ رہتے ہیں اسے لسانی رنگ دینے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی‘ مقتدرہ کے گملوں میں اُگی بہادر آباد والی ایم کیو ایم کوئی حقیقت نہیں رکھتی اسے چند نشستیں اور وزارتیں بطور امداد دی گئی ہیں تاکہ کراچی میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی قابل رشک نہیں ہے اس نے گزشتہ 13 سال میں مخالفین کو یہ موقع خود فراہم کیا ہے کہ وہ اس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنائیں‘ حالانکہ سندھ کی گزشتہ حکومتوں کا حال بھی یہی تھا یا اس سے بدتر تھا جنرل مشرف کے 8 سالہ دور میں ایم کیو ایم سندھ میں ”آل ونال“ تھی جبکہ اس سے پہلے بھی وہ ہر حکومت کے ساتھ رہی تھی کھربوں فنڈز ملنے کے باوجود کراچی کی حالت درست نہ ہوسکی بلکہ سارا فنڈ ضائع یا خورد برد ہوگیا کراچی میں بے تحاشا کچی آبادیاں اسی دور میں قائم ہوئیں اور ایم کیو ایم کی وجہ سے ہی چائنا کٹنگ کی اصطلاح وجود میں آئی اگر آئندہ انتخابات تک سندھ کی موجودہ حکومت قائم رہی تو یہاں پر لسانی فسادات ضرور برپا ہونگے تاکہ ایم کیو ایم دوبارہ مہاجر آبادی میں جڑ پکڑسکے‘ تحریک انصاف کا تازہ حوصلہ دیدنی ہے اس کی وجہ وہ غیبی امداد ہے جو اسے حاصل ہے جبکہ شوکت ترین نے جو وفاقی بجٹ پیش کیا ہے تحریک انصاف اس پر پھولے نہیں سما رہی اور نئے بجٹ کو وہ کوئی بڑی کامیابی سمجھ رہی ہے حالانکہ یہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے اگر بجٹ مثالی ہے تو اس میں شوکت ترین کا کیا کمال ہے انہیں تو جمعہ جمعہ 8 دن ہوئے ہیں اس کا سہرا تو برطرف وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے سر باندھنا چاہئے۔ ترین صاحب نے ساڑھے تین ہزار ارب خسارہ دکھایا ہے جوکہ عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈال کر پورا کیا جائے گا بجٹ کا ایک بڑا حصہ یعنی ڈھائی کھرب روپے نام نہاد احساس پروگرام پر ضائع کیا جارہا ہے بجائے کہ روزگار کے ذرائع پیدا کئے جائیں عوام کی بڑی تعداد کو خیرات اور بھیک کی عادت ڈالی جارہی ہے‘ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو اس کا پکا یقین ہے کہ آئندہ انتخابات بھی وہ جیتیں گے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس جماعت کو غیبی امداد حاصل تھی جبکہ 2023ء کے انتخابات میں ان کی ساری امیدیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے وابستہ ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ مشینیں جادوئی کمالات دکھاکر تحریک انصاف کے بکسے ووٹوں سے بھردیں گے اور یہ جماعت دوبارہ کامیابی حاصل کرے گی اس کی ایک اور امداد اوورسیز پاکستانی ہیں جنہیں ووٹ کا حق دیا گیا ہے اگریہ فیصلہ برقرار رہا تو لاکھوں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ یقینی طور پر تحریک انصاف کو ملیں گے اس طرح وہ دوبارہ کامیابی حاصل کرے گی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کو جو نیا حوصلہ ملا ہے اس کی وجہ اپوزیشن کی ناقص کارکردگی اور غلط حکمت عملی ہے ایک مسئلہ کو لیکر مریم بی بی اور مولانا نے پی ڈی ایم کو توڑ دیا جس کی وجہ سے اپوزیشن تتر بتر ہوگئی اور حکومتی جماعت کو کھلا میدان مل گیا۔ اپوزیشن کی کارکردگی صرف بیانات کی حد تک محدود ہے بلاول بھٹو روز ڈائیلاگ مارتے ہیں جبکہ ن لیگ بھی زبانی کلامی حملہ آور ہوتی ہے البتہ ایک مؤثر قدم ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ یہ تحریک بھی ناکام ہوگی کیا پتہ کہ اپوزیشن کی کسی جماعت کو کب کوئی فون اوپر سے آئے اور اس کے کچھ ارکان غیر حاضر ہوں یا درپردہ اسپیکر کے حق میں ووٹ ڈالیں گزشتہ تین سال میں کئی بار ایسا ہوچکا ہے جس کے بعد اپوزیشن رہنما صرف کف افسوس ملتے نظر آئے کیونکہ پاکستانی سیاست میں توہین اور تضحیک نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ ساری سیاست کا ایک ہی مدار ہے جس کے ارد گرد سیاست صبح و شام گردش کرتی ہے جب تک یہی مدار مرکز ہے پاکستانی سیاست اسی طرح رہے گی یہاں پر اسٹیٹس کو برقرار رہے گا اور کوئی معجزہ رونما نہیں ہوگا کیونکہ سیاست امکانات اور بہتر حکمت عملی کا کھیل ہے اس میں جو لوگ رحم کے طالب ہوتے ہیں ان پر کوئی ترس نہیں کھاتا بظاہر تو تحریک انصاف کے لئے موجودہ صورتحال سازگار ہے لہٰذا اسے اپنی دو سالہ مدت پوری کرنے پر توجہ دینی چاہئے لیکن اس میں کوئی بے چین روح سما گئی ہے اس لئے یہ پھنگے لیتی رہتی ہے مثال کے طور پربلاول بھٹو اور قادر مندوخیل سے یہ مطالبہ کہ وہ اپنی مردانگی ثابت کریں کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں ہے یہ دونوں بیچارے کیا کریں جو ان کی مردانگی ثابت ہوجائے دراصل تحریک انصاف نے سیاست میں غیر شائستگی کا جو کلچر رواج دیا ہے نہ جانے اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ غیر شائستگی بالآخر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور خود تحریک انصاف بھی اس سے بچ نہیں پائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں