امریکہ کوچین کاچیلنج

تحریر: انورساجدی
چین چونکہ پاکستان میں سی پیک بنارہا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں اس لئے وہ ہمارا مائی باپ ہے اس وقت ایک عالمی ویو کی شکل اختیارکرچکا ایسا ویو کہ سرمایہ دار دنیاکالیڈر امریکہ اور اسکے یورپی ”چھوٹو“ لرزہ براندام ہیں سوچنے کی بات ہے کہ مستقبل میں ہم اس کے سامنے کیا بیچیں گے جس چیز کی اسے ضرورت ہو جس وسیلہ پر اس کی نظرٹھہرے سمجھوکہ اس کا ہوگیا اسے کون منع کرسکتا ہے جب چین پاکستان سے بھی زیادہ غریب تھا توذوالفقار علی بھٹو نے
ایک ضرب المثل وضع کی تھی کہ
چین اور پاکستان کی دوستی
ہمالیہ سے اونچی سمندروں سے گہری
اورشہدسے میٹھی ہے
لیکن صورتحال بدل چکی ہے اب چین 1970ء کی طرح پاکستان جیسے ممالک کا محتاج نہیں ہے اس وقت کی بات اور تھی جب امریکہ نے چین کو دیوار سے لگاکر ایک حقیر جزیرہ تائیوان کو چین کا نام دیا تھا سفارتی سطح پر چین کا کوئی مقام نہیں تھا لیکن امریکہ کی دور بین نظریں دیکھ رہی تھیں کہ ایک ارب آبادی رقبہ میں امریکہ کے برابر ملک کو مزید تنہائی کے حوالے نہیں کیاجاسکتا چنانچہ جب رچرڈ نکسن صدر اور شہرہ آفاق سفارت کارہنری کسنجر ان کے وزیرخارجہ تھے تو امریکہ نے چین سے رابطے کافیصلہ کیا اس وقت یحییٰ خان پاکستان کے حکمران تھے ایک رات کو ہنری کسنجر نہایت خفیہ طریقے سے چکلالہ کے فوجی مستقر پر اترے اور اگلے روز پیکنگ جاپہنچے جہاں انہوں نے خفیہ مذاکرات کئے چنانچہ کچھ عرصہ بعد اقوام متحدہ نے تائیوان کی جگہ چین کو لے لیا امریکہ نے اپنے لے پالک تائیوان کو یکہ وتنہا چھوڑدیا 1971ء میں جب بھٹو برسراقتدار آئے تو انہوں نے چین کو اعلیٰ مقام دلانے میں اہم کردارادا کیا حتیٰ کہ امریکہ نے چین کو ویٹوپاور بھی الاٹ کردیا۔
سلک روٹ کے بارے میں تو ساری دنیا کو پتہ ہے یہ ہمالیہ سے گزر کر ہندوستان آتا تھا اس کا نام قدیم زمانے میں سلک روٹ اس لئے پڑا تھا کہ ہزاروں سال سے چین کے پاس ریشم کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا یہ سلک ساری دنیا میں جاتا تھا لیکن ہندوستان میں کاشغردوکوہان والے اونٹوں پر لادکر لایاجاتا تھا بھٹو نے چواین لائی کو آمادہ کیا کہ وہ ہمالیہ کاسینہ چیر کر اونٹوں اورخچروں والے سلک روٹ کو نئی شکل دے یہ اپنی تباہی کو لانے کی پہلی دعوت تھی سلک روٹ کو بھٹو نے شاہراہ قراقرم کانام دیدیا اس سڑک کے بن جانے کے بعد دنیا سے کٹے ہوئے شمالی علاقہ جات مین لینڈسے مل گئے جو خرابیاں پاکستانی سماج میں تھیں وہ گلگت بلتستان میں بھی سرایت کرنے لگیں آج اس کانتیجہ سامنے ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ بھٹو نے ایک پتلی سی سڑک بنوائی لیکن اسکے داماد نے جب وہ صدر تھے روزچین کا چکر لگاکر اسے آمادہ کیا کہ چین بحیرہ بلوچ تک آئے اگرچہ زرداری کے دور میں سی پیک کامعاہدہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا لیکن نوازشریف کے دور میں اسے عملی شکل دی گئی معاہدے پر دستخط کی تقریب اسلام آبادمیں ہوئی جس پر چینی صدر نے دستخط کئے سی پیک دنیا کو مسخر کرنے کیلئے چینی منصوبہ بیلٹ اینڈروڈ کا حصہ تھا بلکہ ہے اگر زرداری چین کو دعوت نہ بھی دیتے تو وہ ازخود آدھمکتا کیونکہ پہلے مرحلے میں وہ پورے ایشیاء کو اپنے دام کے اندر لانا چاہتا تھا نہ صرف اس نے پاکستان کے ساتھ سی پیک کاخفیہ معاہدہ کیا بلکہ غریب سری لنکا میں بھی قدم رکھ دیئے جہاں اس نے ہمبن ٹوٹا کاپورٹ لے لیا چونکہ سری لنکا ایک حقیرجزیرہ ہے۔
اس لئے چین نے جلد ہی اپنے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کردیا جب سری لنکا ادائیگی نہ کرسکا تو اپنا پورٹ چین کے حوالے کرنا پڑا جہاں سری لنکا کے لوگ پرمٹ کے بغیر داخل نہیں ہوسکتے اس کے بعد چین نے برما سے معاہدہ کیا جس کی وجہ سے برما نے روہنگیا بنگالی مہاجرین کی نسل کشی کرکے اراکان کا علاقہ خالی کروالیا تاکہ انڈیا کے قریب بحیرہ بنگال میں اس کی موجودگی یقینی ہو برما کے ساتھ ہی چین نے افریقہ کا رخ کیا وہاں پر اس نے بحیرہ ہند کے چھوٹے سے ملک جبوتی میں جو سابق فرانسیسی کالونی تھا اپنا بحری اڈہ قائم کرلیا یہ چین کا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ ہے اس اڈے کے ذریعے وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں حسب منشا کوئی بھی کارروائی کرسکتاہے افریقہ میں چین نے اپنے قرضوں کے بدلے میں ایک ہوائی اڈہ اور لاکھوں ایکڑ زمین حاصل کی ہے جہاں اعلیٰ قسم کی تمباکو پیدا کی جاتی ہے چین نے امریکہ سے پرے براعظم جنوبی امریکہ میں بھی قسمت آزمانی کی ہے لیکن وہاں پر ابھی تک اسکے پیر جمے نہیں ہیں اسکا سبب ان ممالک پر امریکی اثرات ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ تو مجذوب تھا وہ خالی بڑھکیں مارتاتھا لیکن نئے امریکی صدر جوبائیڈن کو پہلے سے اندازہ تھا کہ چین کس تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے چنانچہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ اعلان کیا کہ چینی اثرات کو ہر قیمت پر روکا جائے گا اس کا بھرپور اظہار انہوں نے تین روز قبل جی سیون ممالک کی کانفرنس میں کیا کانفرنس کی اعلامیہ میں جو اعلانات ہوئے ان کا مقصد چین کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے سردست دنیا کے ان امیرممالک نے بیلٹ اینڈروڈ کے مقابلے میں اسی طرح کا ایک پروگرام شروع کرنے کا عندیہ دیا لیکن اس کے خدوخال واضح نہیں کئے البتہ یہ کہا گیا کہ دنیا کو چین کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جائیگا یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ ترک کردیاجائیگا تاکہ ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کو کم سے کم کیاجاسکے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ دنیا کوئلہ کا استعمال ختم کررہی ہے جبکہ پاکستان میں چین کے قائم کردہ بجلی گھر کوئلہ سے چل رہے ہیں جس سے وسیع پیمانے پر آلودگی پھیل رہی ہے خود چین نے اپنے ہاں کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ 10سال پہلے ختم کردیئے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کو صرف منافع چاہئے اسے ماحولیات اور انسانوں کو پہنچنے والے نقصانات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
جی7سمٹ کے بعد لندن میں واقع چینی سفارت خانہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کیا گیا کہ
وہ دن گئے جب چندچند چھوٹے ممالک دنیا کی قسمت کافیصلہ کرتے تھے اس کا اردو محاورہ یوں ہے کہ
وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایاکرتے تھے
یہ امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کوکھلا چیلنج ہے ادھر امریکی سائنس دان نے مشورہ دیا ہے اس وقت امریکہ اور یورپ کا چین پر جوانحصار ہے اسے ختم کرنا ہوگا اور اس رپورٹ کے مطابق امریکہ صنعتوں میں جو جدید ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے وہ تین چینی دھاتوں کی مرہون منت ہے خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کو ان دھاتوں کی اشد ضرورت ہے جو چین پیدا کرتا ہے اور بناتا ہے اس وقت الیکٹرک گاڑیوں میں لیتھیم سے بنی بیٹریاں استعمال ہورہی ہے جو چین میں بن رہی ہے امریکہ کی سب سے بڑی موٹرساز کمپنی ٹیسلا کی ساری بیٹریاں چین میں تیار ہوتی ہیں اسی طرح جاپان اور یورپ کی الیکٹرک گاڑیوں میں چین کی ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے اگرچین امریکہ جاپان اور یورپ کوسپلائی بند کردیے تو وہاں بھی قیامت آجائے گی امریکی سیٹھوں نے جوبائیڈن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ محتاط ہوکر چلیں اور 2025ء تک انتظار کریں تب امریکہ زیراستعمال ٹیکنالوجی میں خودکفیل ہوجائے گا لیتھیم سے یاد آیا کہ اس کے بڑے ذخائر افغانستان میں ہیں اگر طالبان نے قبضہ کرلیا تو سرمایہ دار دنیا کیلئے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے یہ تو معلوم نہیں کہ چین جدید ٹیکنالوجی میں امریکہ کی کب تک برابری کرسکے گا لیکن یہ طے ہے کہ صنعتی اعتبار سے وہ کافی آگے نکل چکا ہے وہ خلائی دوڑ میں بھی شامل ہے امریکہ اور روس کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے دنیا کی ساری منڈیاں چینی مال سے بھری پڑی ہیں جس کی وجہ سے اس کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ کو آنکھیں دکھارہا ہے۔
کوئی بعید نہیں رواں صدی چینی عروج کی صدی ثابت ہوجائے امریکہ اپنے براعظم تک محدود ہوجائے اور یورپی ممالک گزشتہ صدی میں واپس جائیں۔
ہمارے لئے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ چین اپنے منصوبوں کے ذریعے بلوچستان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ گوادر کے بارے میں کیامعاہدہ ہوا ہے آیا اسے صرف پورٹ چلانے کے حقوق دیئے گئے ہیں یا اسے مکاؤ اور ہانگ کانگ کی طرح اپنی کالونی میں بنانے کے حقوق بھی دیئے گئے ہیں امریکہ تو مسلسل الزام لگارہا ہے کہ چین گوادر میں نیول اڈہ تعمیر کررہا ہے جس کی تردید کئی بار ہوچکی ہے ایک اور سوال یہ ہے کہ گوادر میں جو جدید شہر کی تجویز زیرغور ہے وہ چین بنائے گا یا مقامی حکومت بنائے گی یہ بھی واضح نہیں ہے لہٰذا ایک پراسراریت ہے جو ہر سوپھیلی ہوئی ہے چینی فشنگ ٹرالر تو ابھی سے گشت کررہے ہیں کسی کی مجال نہیں جو انہیں بھگادے وہ جس طرح سمندری حیات پر ہاتھ صاف کررہا ہے ہمارے وسائل پر بھی اسی طرح ہاتھ صاف کرے گا کم بخت ایسا ملک ہے کہ جہاں بھی جاتا ہے مقامی لوگوں کو مزدوری بھی نہیں دیتا کیونکہ اس کے قیدی اور فوجی لاکھوں کی تعداد میں ہے ہر ملک میں ان سے مفت کام لیتا ہے سردست تو چین کیلئے راہیں ہموار کی جارہی ہیں شاہراہیں بنائی جارہی ہیں اور مال تو نہیں فی الحال مچھلی ایک ہفتہ میں سنکیانگ پہنچائی جارہی ہے اگر پورٹ چالو ہوا تو اس کا اپنا مال بھی ہفتہ10دن میں پہنچ جائیگا ظاہر ہے کہ یہاں سے وہاں بھیجنے کیلئے مچھلیوں،جھینگوں اور کیکٹروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو چینی بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔
بلوچی کہاوت ہے
چو کہ میروا گوں لٹراں گنداں
بالگتر گورانی چراگ جاہ انت
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں