اعتبار اور ناقابل اعتبار

تحریر: انورساجدی
گوادر کے ماہی گیروں کے اجتماع میں حسین واڈیلہ نے جو خطاب کیا نوجوانوں نے اسے نیٹ پر وائرل کیا ہے یہ باتیں سن کر مجھے خیال آیا کہ اگر واڈیلہ سینیٹ میں ہوتے اور وہاں ایسی تقاریر کرتے تو اجلاس کے بعد ہی دھرلئے جاتے اور ایم این اے علی وزیر کی طرح جیل میں غداری کا مقدمہ بھگت رہے ہوتے سو اچھا ہوا کہ واڈیلہ سینیٹ میں جانے اور ممکنہ قیدوبند سے بچ گئے سوچنے کی بات ہے کہ مصلحتوں کے موجودہ پر آشوب دور میں یہ کیسے افورڈ کیا جاسکتا ہے کہ حسین واڈیلہ جیسے لوگ پاکستان کے ایوان بالا میں جائیں عمومی طور پر پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کا جانا سوٹ کرتا ہے جو چار سال یا چھ سالہ مدت کے دوران بھگوان بن کر رہیں اور منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالیں یہ لوگ اس لئے بھلے ہوتے ہیں کہ نااپنے لئے کوئی مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور ناہی اپنی جماعتوں کیلئے مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔
سینیٹ کے سو سے زائد اراکین میں سے آدھے ہمیشہ خاموش رہتے ہیں گزشتہ ادوار میں ہر رکن پارلیمنٹ کو اسلام آباد کے قیمتی سیکٹرز میں ایک پلاٹ الاٹ کیا جاتا تھا جبکہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین بن کر ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو سینیٹرز جب آئل اینڈ گیس کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین بنے تو انہوں نے کمال ہی کردیا جو اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ جاتی ہے اس کے سارے پمپ اور سی این جی اسٹیشن انہی کے دین ہیں مجال ہے جو انہوں نے بلوچستان کے کسی شخص کو پمپ لگانے کی اجازت دی ہو کیونکہ مفت کا کام تو گھاٹے کا سودا ہوتا ہے یہ آزمودہ بات ہے کہ جو لوگ پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ خالی ہاتھ پارلیمان میں گئے واپسی پر بے شمار مال و متاع اپنے ساتھ لائے کئی ایسے مواقع آئے کہ کسی نازک ووٹنگ کے دوران حکومت کو انکی ضرورت پڑی تو انہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی جماعتوں سے بے وفائی کی اور اس کے بدلے میں حکومت نے ان کی جھولی بھردی۔
سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پاکستان کے عظیم اسلامی حکمران جنرل ضیائالحق کے دور میں پڑی تھی 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب طویل وقفہ کے بعد سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو بڑی تعداد میں سرمایہ دار اس میں کود پڑے اور اراکین اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی طرح خرید کر کامیابی حاصل کرلی اس کے بعد سے ہر انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح برطانیہ سے آئی ہے لگتا ہے کہ یہ ٹریڈ کافی پرانا ہے ضیاء الحق کے دور میں سینیٹ کے امیدوار نامزد کرنے کیلئے حکام بالا کا باقاعدہ کوٹہ ہوتا تھا وہ سرمایہ دار خود ہی ڈھونڈ لیتے تھے اور معاملہ طے کرکے اپنے مطلب کے امیدوار کو کامیاب کرواتے تھے۔
1985 کے سینیٹ انتخابات کا ایک واقعہ ہے کہ میر نبی بخش زہری نے ایک ایم پی اے کی ایڈوانس بکنگ کی لیکن الیکشن سے قبل مارشل لاء حکام نے منظور شدہ امیدواروں کی لسٹ بنائی اور مذکورہ ایم پی اے کو ایک اور امیدوار کے پینل میں ڈال دیا جب میر صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے مذکورہ ایم پی اے کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ سودے کے مطابق آپ مجھے ووٹ دینے کے پابند ہیں کیونکہ آپ نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر ووٹ دینے کی قسم اٹھائی ہے ایم پی اے صاحب نے کہا کہ میر صاحب میں آپ کو ووٹ نہیں دے سکتا کیونکہ مارشل لاء قرآن سے بھی زور ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت اس وقت ختم ہوگی جب سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں اور سیاسی عمل میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت نہ ہو لیکن پاکستان کے پیچیدہ صورتحال میں یہ ممکن نہیں ہے بلکہ یہاں تو عام انتخابات بھی انجیئرڈ ہوتے ہیں ایک کنگز پارٹی چن لی جاتی ہے اور ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں کہ زیادہ ووٹ اسی پارٹی کے بکسوں سے نکلیں پاکستان کی حالیہ تاریخ میں 1990،1997، 2002، 2013 اور 2018 کے انتخابات فکس میچ تھے۔
پہلے تین انتخابات میں کنگز پارٹی مسلم لیگ ن تھی لیکن 2014ء میں مقتدرہ نے اپنی سوچ بدل ڈالی کیونکہ نواز شریف ان کی ہر بات من و عن ماننے سے انکار کردیتے تھے نواز کے اس طرز عمل کو گستاخی سے تعبیر کیا گیا چنانچہ ن لیگ کو راندہ درگاہ بناکر تحریک انصاف کو کنگز پارٹی کے طور پر آگے لایا گیا 1990 ء سے لیکر2013 ء تک نواز شریف نے متعدد آرمی چیف تعینات کئے لیکن ہر مرتبہ ان سے غلطی ہوجاتی تھی کیونکہ وہ سنیارٹی کو نظر انداز کرکے جونیئر کا انتخاب کرتے تھے ایسی ہی غلطی ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ہوئی تھی جب انہوں نے پانچ سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے ضیائالحق کو آرمی چیف بنایا تھا ضیائالحق نے بھٹو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے جبکہ نواز شریف بھی درس عبرت اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے بنے۔
عمران خان نے اب تک ایک ہی فیصلہ کیا ہے جو ٹھیک معلوم ہورہا ہے لیکن آئندہ سال انہیں ایک اور مگر نازک فیصلہ کرنا پڑے گا معلوم نہیں کہ کس طرح فیصلہ کریں گے لیکن ان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اسی فیصلے پر ہوگا اور ان لیگ کا مستقبل بھی ایک طرح سے اسی فیصلہ کے بعد طے ہوگا امکان یہی ہے کہ ن لیگ اپنے گزشتہ فیصلہ کی پیروی کرے گی تاکہ اس پر رحم کرکے مزید رعایتیں دی جائیں ذکر ہورہا تھا ایک سیاسی کارکن حسین واڈیلہ کاتو وہ احتجاجی اجتماع سے خطاب میں سیاسی رہنماؤں کو نصیحت کررہے تھے کہ جماعتوں کو جماعت بنایا جائے سیاسی کلب نہ بنایا جائے ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں سیاست موروثی ہے اور سیاسی جماعتوں کو ایک خاندان یا گروہ اپنے کلب کے طور پر چلاتا ہے پیپلز پارٹی سے لیکر ن لیگ تک بیشتر جماعتیں اسی نظریہ پر کاربند ہیں عام طور پر سیاسی جماعتوں کے الیکشن نہیں ہوتے اور جن پارٹیوں کے الیکشن ہوتے ان کا نتیجہ بھی مثبت آتا ہے موجودہ جماعتوں میں جماعت اسلامی کے الیکشن ہوتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اس جماعت میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ اس کے اراکین نے اپنے امیر کے خلاف ”کو“ کرکے اس کی جگہ ایک اور شخص کو امیر منتخب کرلیا جناب منور حسن مرحوم کو بہت ہی ناگوار طریقہ سے عہدے سے الگ کیا گیا تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں جمہوریت کمزور جمہوری اقدار نہ ہونے کے برابر ہیں سیاسی جماعتوں کو بطور خاندان کلب چلانے کا سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہے گا۔
حسین واڈیلہ نے گوادر میں جو جذباتی تقریر کی ان جیسے شعلہ نوا اور ملامتی لوگوں کی گنجائش کم ہوتی ہے خدا کرے کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی آبرومندانہ ریقے سے گزاریں ان کا یہ کہنا ہے کہ
ہمارے پاس کچھ باقی نہیں بچا ہے صرف سر باقی ہیں اس لئے ہم اپنے سمندر کی حفاظت کی خاطر اپنا سردیں گے۔
عظیم سندھی شاعر شیخ ایاز نے اپنے کلام میں کہا تھا کہ
سندھڑی کیلئے کوئی سر نہ دے
یہ میار کون اٹھائے گا
حسین واڈیلہ نے ضرور تاریخ پڑھی ہوگی کہ مفتوحہ علاقوں اور ان کے لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے لیکن جو لگ سر اور دستار بچاکر رکھیں گے تو نہ سران کا کام آئیگا نہ دستار اس سلسلے میں صرف جذبات سے کام نہیں چلے گا ایک کامل حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی اور عقل سے چلنا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک قافلہ دکھایا گیا ہے جو غالباً 50 گاڑیوں پر مشتمل ہے قافلہ کی طوالت پر تنقید کی جارہی ہے تنقید کرنے والوں کو معلوم ہے کہ یہ دو شہزادوں کا قافلہ تھا جنہیں بلوچستان کی سرکاری قیادت کیلئے تیار کیا جارہا ہے تو اعتراض کی کیا بات آخر ان میں سے ایک نے وزیر اعلیٰ اور دوسرے نے گورنر بننا ہے تو انہیں لانچ کرنا اور تربیت دینا ضروری ہے ان کے اسلاف بھی تو وزیر اعلیٰ اور گورنر بنے ہیں تو انہوں نے بھی یہی بننا ہے۔
کوئی غریب لاسی اور غریب مگسی تو اتنے اونچے مقامات تک پہنچنے سے رہے البتہ کمسن شہزادوں کے بزرگوں کو چاہئے وہ انہیں اتنے بڑے قافلہ بنانے سے گریز کی تلقین کریں اور تلقین نہ بھی کریں تو کوئی مضائقہ نہیں شایدان کے بزرگوں نے خود اس کی اجازت دی ہو تاکہ لوگ پہلے سے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں کہ ہمارے مستقبل کے قائدین یہی ہیں زیادہ طاقت دکھانے سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں خاص طور پر مخالفین پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ سیاسی عمل میں مخالفت سے گھبرائیں گے یہ بات تو طے ہے کہ بلوچستان کا نظام اسی طرح چلتا رہے گا شاید ڈاکٹر مالک پہلے اور آخری مڈل کلاس تھے جنہیں وزارت اعلیٰ کا منصب دیا گیا مستقبل میں حسب سابق بڑے خاندانوں اور نامی گرامی سرداروں اور نوابوں کو ہی خدمت کا موقع دیا جائے گا کیونکہ وہ تربیت یافتہ سلیقہ مند اور اپنے بڑوں کے ساتھ وفادار رہتے ہیں حسین واڈیلہ جیسے غیر تربیت یافتہ لوگوں کو آگے لاکر رسک نہیں لیا جاسکتا کیونکہ صرف محب وطن اعلیٰ طبقہ پر ہی اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں