راجہ پورس کے ہاتھیوں کی لڑائی

تحریر: انورساجدی
عزت وقار اور اعلیٰ پارلیمانی اقدار ان الفاظ کی دھجیاں قومی اسمبلی میں بکھیردی گئیں تحریک انصاف کا صحیح رخ اس وقت سامنے آیا جب قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف بجٹ پرخطاب کررہے تھے ان کا یہ کہنا تھا کہ
عوام کی جیب خالی ہے
سمجھوکہ یہ بجٹ جعلی ہے
بس یہ کہنے کے بعد ایک منصوبہ کے تحت تحریکی ارکان آپے سے باہرہوگئے اور انہوں نے شہبازشریف کی طرف بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں پھینکنا شروع کردیں جو معزز ارکان نے یقینی طور پر پڑھی نہیں ہونگی دیکھتے ہی دیکھتے تحریکی ارکان نے ایوان کو میدان جنگ اکھاڑہ اور مچھلی بازار بنادیا ایک رکن علی نواز اعوان ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے وفاقی وزیرمراد سعید ڈیسک پر چڑھ کر نشانہ بازی فرمانے لگے ایک رکن فہیم خان نے شہبازشریف پر تیراندازی کی لیکن ان کا نشانہ خطا گیا اور پھینکی گئی کتاب ڈیسک پر جالگی نازیبا حملے کسنے کیلئے مشہور امجد خان نیازی اور مردان جیسے علاقہ سے رکن علی محمدخان جانوروں کی آواز نکال رہے تھے اور تو اور محترمہ شیریں مزاری بھی چور چور کے نعرے لگارہی تھیں عاشق محمد مزاری کی روح ضرور تڑپ رہی ہوگی کہ اس نے اسی دن کیلئے شیریں بی بی کواعلیٰ تعلیم دلوائی تھی اور استاد کے پیشے پر فائز کیاتھا۔ہلڑ بازی اورطوفان بدتمیزی کاآغازمرشدی شاہ محمود قریشی نے بذات خود فرمایا جونہی شہبازشریف نے تقریر شروع کی ملتان کے گدی نشیں اپنی نشست سے اٹھ گئے اور اپنے سارے اراکین کو اشارہ دیا کہ وہ جنگ کا آغاز کریں خواتین اراکین بھی مردوں پر بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف نظرآئیں نہ جانے کس کم بخت کی پھینکی گئی کتاب خوبرو رکن ملیکہ بجاری کو لگی جس کا فائدہ تحریک انصاف والوں نے اٹھایا میراخیال ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اتنا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے۔علی نواز اعوان کو توبندوق لیکر آنا چاہئے تھا لیکن وہ ماں بہن کی گالیوں کی صورت میں گولہ باری کررہے تھے شاہ محمود کی حرکتیں دیکھ کر یاد آیا کہ وہ زرداری کے دور میں بھی وزیرخارجہ کے عہدے پر فائز تھے اس زمانے میں وہ روز غریب زرداری کو آنکھیں دکھاتے تھے لیکن اب وہ کپتان کے آگے چوہا بن گئے ہیں اور ان کی خوشنودی کیلئے چھچھورے پن پر بھی اتر آئے ہیں ایسے لوگوں کیلئے کہاجاتا ہے کہ انہیں عزت راس نہیں آتی۔
اگرضیاء الحق کاقانونی58بی2زندہ ہوتا تو کل کے واقعہ کے بعد اسمبلی نہ ہوتی لیکن زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اس کا راستہ بند کردیا یہ جو تحریک انصاف کی رعونت تکبر اور خودسری یہ18ویں ترمیم کا ہی نتیجہ ہے معلوم نہیں کہ بزرگوں نے کیا دیکھ کر تحریک انصاف اور اس کے بدکلام اور غیرسنجیدہ اراکین کا انتخاب کیا شائد وہ بھی دل ہی دل میں خوش ہورہے ہونگے کہ ہم نے منتخب پارلیمنٹ اور اس کے اراکین کا چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کردیا جس پر عوام کویقین آگیا ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے اس میں بیٹھے ہوئے لوگ اس قابل نہیں کہ اس ملک کو چلائیں جہاں تک تحریک انصاف کی دیدہ دلیری کا تعلق ہے تو اس کی وجہ بزرگوں کی پشت پناہی ہے اگر یہ نہ ہوتی تو ایک اقلیتی حکومت کوکبھی جرأت نہ ہوتی کہ بدترین غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرے ق لیگ اور ایم کیو ایم کی بیساکھیوں کے سہارے قائم یہ حکومت اس لئے مار دھاڑ سے کام لے رہی ہے کہ یہ ابھی تک لاڈلی ہے اور گزشتہ تین سال کے لاڈپیار نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا ہے اگر بزرگ اسے آئندہ پانچ سال دینے پر بھی مصر رہے تو اس کا اصلی رنگ اس وقت دیکھنے کو ملے گا دوسرے دور میں علی نوازاعوان فہیم خان اور امجد نیازی کلاشنکوف لاکر مخالفین کا اس طرح صفایا کردیں گے جس طرح کے سلطان راہی فلموں میں کرتے تھے خود عمران خان ہٹلر یا مسولینی کا روپ دھاریں گے ان کی حکم عدولی کرنے والا کوئی زندہ نہیں بچے گا ملک کے تمام زندان خانے مخالفین سے بھر جائیں گے جس کے بعد وہ صدر پوٹن چینی صدر جن پنگ اور شمالی کوریا کے صدر بوائے کم ان کی طرح خود کو تاحیات سربراہ مقرر کردیں گے کیا بعید کہ ان کے مشیر انہیں شہنشاہ معظم کاتخت سنبھالنے کا مشورہ دیدیں ایسا مشورہ عمران خان کے ہم زبان اور ہم نسل صدر ایوب خان کو بھی دیا گیا تھا لیکن انہوں نے جعلی فیلڈ مارشل بننے پر اکتفا کیا تھا ایوب خان کا بھی خیال تھا کہ وہ تاحیات سربراہ رہیں گے لیکن اچانک ان کے دل نے جواب دیدیا جس پر انہیں حکمرانی چھوڑنی پڑی ایوب خان کے جانشین یحییٰ خان کا بھی خیال تھا کہ وہ متحد پاکستان کے تاحیات سربراہ رہیں گے لیکن ان کے ہاتھوں ملک دولخت ہوا جس کی وجہ سے انہیں ہارلے اسٹریٹ راولپنڈی کے ایک مکان میں محبوس ہونا پڑا کیونکہ اگر وہ باہر نکلتے تو لوگ پتھر مارکرجان لے لیتے حالانکہ جب وہ فوت ہوئے تو انہیں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ان کی میت کو19توپوں کی سلامتی دی گئی یحییٰ خان کی موت کے بعد سے اب تک طاقت کے عناصر مسلسل ان کی عزت وتکریم بحال کرنے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں وہ تواتر کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داریحییٰ خان نہیں ذوالفقار علی بھٹو ہیں جیسے کہ صدر یحییٰ خان نہیں بھٹو تھے کمانڈر انچیف بھی بھٹو تھے اور انہی کے احکامات پر جنرل امیرعبداللہ خان نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنے 90 ہزار ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالے تھے مرحوم صدیق سالک نے اپنی کتاب میں سرنڈر کی ساری تفصیل لکھی ہے اگر باافوض محال عمران خان تاحیات سربراہ بن گئے تو پورا نصاب تبدیل ہوگا پنجاب کے اس وقت کے نصاب میں یہی لکھا ہے کہ پاکستان کی بنیاد محمد بن قاسم نے ڈالی تھی آئندہ درسی کتب میں یہی لکھا جائے گا کہ نئے پاکستان کے بانی حضرت عمران احمد خان نیازی ہیں قائداعظم اور مسلم لیگ کی کہانی بیچ میں سے غائب کردی جائے گی۔
یہ جنرل پرویز مشرف دور کی کہانی ہے کہ تھرپارکر کے ایک شخص ارباب رحیم کو زبردستی سندھ کاوزیراعلیٰ بنایا گیا موصوف وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود اسمبلی کے اندر مخالفین کو نازیبا کلمات کہتے اور ننگی گالیاں دیتے تھے مشرف کے زوال کے بعد جب ارباب رحیم اقتدار سے ہٹ گئے تو ایک دن انہیں سندھ اسمبلی کے اندر لوگ جوتے ماررہے تھے۔
یہ جو تم پیزار جو اس وقت پارلیمان میں دیکھی جارہی ہے اس کا سلسلہ اتنا جلدی ختم نہیں ہوگا بلکہ آئندہ چل کر زور پکڑے گا بلکہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے کارکن گلیوں،محلوں اور بازاروں میں ایک دوسرے کو جوتے ماریں گے جوتے بازی کے اس کلچر کی بنیاد برسوں پہلے ن لیگ نے رکھی تھی جب اسکے اراکین اسمبلی نے سپریم کورٹ پر حملہ کرکے چیف جسٹس کو جوتے مارے تھے میاں نوازشریف کے دوادوار میں ن لیگی کارکنوں کی رعونت اسی طرح تھی جو آج کل تحریک انصاف والوں کی ہے شائد قصور کارکنوں کا نہیں پنجاب کے پانی کا ہے جو اقتدار کی مے نوش کرے گا وہ اپنے آپ کو راجہ پورس سمجھنے لگے گا جیسے کہ فوادچوہدری اپنے آپ کو راجہ پورس سے کم نہیں سمجھتے وہ ہیں بھی جہلم کے جہاں راجہ پورس نے آکری جنگ لڑی تھی ماشاء اللہ حلیہ بھی پورس کے ہاتھیوں جیسا ہے جس نے اپنے ہی لشکر کو کچل دیا تھا ایک بنیادی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ہلڑ بازی کا آغاز سب سے پہلے اپوزیشن نے کیا تھا جب بھی وزیراعظم ایوان میں آتے تھے یہ لوگ نعرہ لگاتے تھے۔
مک گیا تیراشونیازی
گونیازی گو نیازی
حیرانی ہوتی ہے کہ وزیراعظم کیخلاف سخت ترین تقاریر لیاری کے جیالے عبدالقادر پٹیل نے کی ہیں لیکن پی ٹی آئی والوں نے ابھی تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالا سنا ہے کہ آئندہ جو بھی وزیراعظم کیخلاف گستاخی کرے گا اس کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو پی ٹی آئی والوں نے شہبازشریف کے ساتھ کیا لہٰذاجیالے پٹیل کو آئندہ کپتان کے بارے میں لب کشائی کرتے وقت محتاط ہونا چاہئے۔
اگرچہ پاکستان کے عوام اپنے مسائل اور مہنگائی کی وجہ سے بے حال ہیں اوروہ سیاسی جماعتوں کے کہنے پر کچھ کرنے کو تیار نہیں لیکن تحریک انصاف نے عوام کو بری طرح تقسیم کیا ہے اگریہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس وقت خانہ جنگی چل رہی ہوتی
لوگ ابھی تک کپتان کی اصلیت کو نہیں جانتے اگر انہیں اپنی شکست نظرآئے تو وہ اپنے ساتھ سب کو لے ڈوبیں گے قومی اسمبلی میں مارکٹائی ایک طے شدہ پلان کاحصہ ہے تاکہ کپتان گئے تو کسی اور کے ہاتھ کچھ نہ لگے انہوں نے ہزاروں ایسے کارکن تیار کئے ہیں جو میں نہ مانوں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے وہ دن دور نہیں کہ کپتان کے نوجوان سندھ اسمبلی میں بھی مارکٹائی شروع کردیں گے تاکہ میدان کار زار زرا وسیع ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں