مفتی صاحب بے گناہ ہیں

تحریر: رشید بلوچ
دراصل معاملہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے شعائر اسلام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، مغربی تہذیب و تمدن نے پوری قوم کا دیوالیہ نکال دیا ہے، اسلام سے دوری نے پوری قوم کو جہالت کی اندھیر نگری میں لپیٹ رکھا ہے، ہماری سماجی،معاشرتی و اخلاقی پستی کی زمہ دار مغرب و امریکہ ہے، ملک میں مخلوط نظام تعلیم نے نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار بنا دیا ہے،یہ جو کالج کی لڑکے اور لڑکیاں ہیں نا۔ان کا لباس۔انکا رہن سہن۔ ان کی آپس میں بے تکلفانہ ہنسی مزاق فحاشی پہلانے کاموجب بن رہے ہیں،یہ سب جہنم کی بھٹی کا ایندھن بننے جارہے ہیں، مغربی میڈیا دینی مدارس کو بد نام کرنے کی ناپاک سازش کرتا رہتاہے تاکہ مسلمانوں کو دینی مدارس سے بد ظن کیا جا سکے،مسلمانوں کو ایسے پرو پیگنڈوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے، علماء کرام نبیوں کے وارث ہیں، مفتی عزیز ارحمان صاحب نے بچے کے ساتھ بد فعلی نہیں کی تھی بلکہ مفتی صاحب کو بچے نے چائے میں نشیلی دوا پلا کر اچل کھود شروع کردی تھی، یہ سب کچھ جو ویڈیو میں دکھایا جارہا ہے من گھڑت ہے، مفتی عزیز الرحمان کی آڑ میں ایک بار پھر امریکہ اور یورپ علما ء کرام کو بدنام کرنے کی سازش رچ رہے ہیں، ملک بھر کے تمام مکتبہ فکر کے علما ء کرام ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرمغرب کی سازش کو بے نقاب کریں گے،مفتی عزیز کی بات کا اس لئے بھی یقین کرنا چاہئے کیونکہ مفتی صاحب قرآن پر ہاتھ رکھ کر تلاوت قرآن پاک کے ساتھ وائرل ہونے والی ویڈیو سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں،ایک طرف مغرب کی بنائی ہوئی آلات سے بنائی گئی ویڈیو ہے اور دوسری طرف راسخ العقیدہ عالم دین ہے تو شرعی طور پر مفتی صاحب کی کہی ہوئی بات کومستند اور صحیح مانا جائے گا،چونکہ مفتی صاحب لاہور کے ایک نامی گرامی مدرسہ منظور الاسلام کے مدرس اور وفاق المدارس کے تعلیمی بورڈ کے ممبر ہیں تو یہ یقین مان لیا جائے گا کہ وہ لواطت میں ملوث نہیں ہوسکتے،اگر یہ ویڈیو کسی غیر اسلامی کالج و یونیورسٹی کے لکچرار یا پرو فیسر سے متعلق وائرل ہوتی تو فوری طور پر اسکے صحیح و غلط ہونے کی تصدیق کیلئے فرانزک کیا جاتا جس میں پولیس، ایف آئی اے اور سائبر کرائم کے محکمے شامل ہوجاتے،یہ بتانا لازمی ہے کہ یہ تینوں محکمے اور فرانزک کرنے والی لیبارٹری غیر شرعی اور فضول قسم کے مغربی ایجاد کردہ چیزیں ہیں ان پر یقین کرنا ایمان کو خطرے میں ڈالنے والا معاملہ ہے،چونکہ ویڈیو وائرل ہوچکی ہے اور عوام الناس کی طرف سے مفتی صاحب کے کردار و افعال پر شکوک شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اس لئے منظور الاسلام اور وفاق المدارس کے انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مفتی صاحب ہمارے ہاں مزید درس و تدریس کا عمل جاری نہیں رکھ سکتے انہیں بڑے احترام کے ساتھ مدرسے کے انتظامات سے الگ کیا جاتا ہے۔ہاں اگر ویڈیو وائرل نہ ہوتی تو ہم محض ایک نا بالغ لڑکے کی شکایت پر مفتی صاحب کو ہر گز ان کے فرائض منصبی سے نہ ہٹاتے،ہاں یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ مفتی صاحب سے متعلق اس سے پہلے بھی مختلف طلبا کی جانب سے ایسی شکایات آتی رہی ہیں لیکن ہم نے ان شکایات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور مفتی صاحب کو,, کاروائی،، جاری رکھنے کی اجازت دیتے رہے ہیں اب معاملہ ویڈیو تک ہاں پہنچا ہے اس لئے ہم مفتی صاحب کو اپنے اداروں سے نکالنے کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوئے ہیں،مفتی صاحب دل گرفتہ نہ ہوں جس لڑکے نے مفتی صاحب پر واہیات کے قسم کے الزاما ت لگائے ہیں اسے تین سال تک وفاق المدارس کے پلیٹ فارم سے امتحان نہیں دینے دیا جائے گا، اس سے نہ صرف سازشی لڑکے کو سزا ملے گی بلکہ آئندہ کوئی بھی لڑکا ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے کی گستاخی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
مفتی عزیز الرحمان کے معاملے پر پاکستان کے سب سے بڑی مزہبی جماعت جمعیت علما ء اسلام اور دینی مدارس کے علماء کرام نے مخاموشی اختیار کر رکھی ہے، در حقیقت یہ ایک ایسی مصلحت پسندی ہے جس میں ایسے واقعات پر عموما خاموشی برتی جاتی ہے، کیا ایسے سماجی مسائل پر دینی طبقوں کی خاموشی سے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے جنکا براہ راست تعلق دینی مدارس سے ہو؟جواب ہوگا ہر گز نہیں، آج کے دور میں ایسے معاملات کو زیادہ دیر چھپا یا نہیں جاسکتا اگر آپ نہیں بولوگے تو خلق خدا بولے گی جس طرح مفتی عزیز سے متعلق بولا جارہا ہے، معاشرہ ایسے معاملات پر خاموشی کو شریک جرم تصور کرتاہے، مدارس میں زیادہ تر دیہی علاقوں کے غریب بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں،ایسے واقعات سے دینی مدارس پرغریب والدین کے اعتبار کو ٹھیس پہنچتا ہے یہ تاویل دینا کہ,, اکا دکا،، واقعات کی پرچار سے دینی مدارس کا امیج داؤ پر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس پر خاموشی کو ترجیح دی جاتی ہے بلکل غلط ہے، یہ ایک سماجی برائی ہے جس کی بیخ کنی اس صورت ممکن ہو سکتی ہے جب دینی طبقہ از خود سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، میں سوچ رہا تھا کہ کوئی بات کرے یا نہ کرے مگرحس و مزاح سے بھر پور وڈھ کے دبنگ مولانا منظور احمد مینگل صاحب مفتی عزیز کے حق میں نہ سہی دینی مدارس کے دفاع میں ضرو ر میدان میں اتریں گے،وہ کھل کرسازشی عناصر کو دندان شکن جواب دیں گے لیکن تلاش بسیار کے باوجود مولانا کا کوئی ویڈیو تادم تحریر نظر سے نہیں گزری، لگتا ہے مولانا منظور مینگل صاحب بھی مفتی عزیز کے,, نازک،، مسئلے پر مصلحت کا شکار ہوگئے ہیں، جب مولانا منظور مینگل صاحب نے ہی لب سی لئے ہیں تو مولانا طارق جمیل سے اس معاملے پر بولنے کی توقع رکھنا حماقت ہوگی۔۔۔
ستم بالا ستم یہ کہ جس لڑکے نے مفتی صاحب کو بد نام کرنے کی سازش کی تھی اسی نے مفتی صاحب کے خلاف بد فعلی اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے کا مقدمہ بھی درج کرایا ہے، ان تمام معاملات کو مد نظر رکھ کر پورے وثوق، و یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے،اس تمام سازش کے پس پردہ امریکہ ہی ہے اور سننے میں آیا کے کچھ مغربی این جی اوز لڑکے کو بھاری بھر کم فنڈ بھی مہیا کر رہے ہیں، انشا اللہ مفتی صاحب کے خلاف تمام سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی

اپنا تبصرہ بھیجیں