لاوارث گدر،

تحریر: عرفان زیب مینگل۔
دنیا میں جینے کیلئے ہوا، پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
پہلے نمبر پر ہوا، دوسرا پانی،
پانی انسانی زندگی کا اہم جزو ہیں۔
اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی ہے۔
یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ تمام جانداروں کی حیات و بقا کا دارومدار پانی پر ہے۔ہم پانی کے کمی کی اہمیت تب سمجھ سکتے ہیں جب ہمیں پیاس کی شدت محسوس ہو اور پانی ہمارے آس پاس میسر نہ ہو۔
گدر بلوچستان کا ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔
میں جھالاوان میں واقع ڈسٹرکٹ سوراب کا سب سے بڑا تحصیل گدر کا ذکر کر رہا ہوں جہاں مقامی لوگوں کو پانی سمیت اکثر بنیادی سہولیات سے محرومی کا سامنا ہے۔
جو فارم سے شروع ہوکر کلغلی تک محیط ہے اس درمیان جو بھی علاقے آتے ہیں وہ گدر کے ہیں۔
مثلاً شانہ،ہتھیاری، ریکی زئی، زرد، ٹوبہ، چھڈ، وغیرہ۔۔۔۔
ان سب علاقوں میں نہ بجلی نہ پانی موجود ہے نہ ہسپتال اور نہ کوئی اچھا اسکول ان سب علاقوں میں بہت سی بنیادی ضرورتیں موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجبورا نقل مکانی کر کے خضدار سوراب، کوئٹہ چلے گئے ہیں اپنے آبا و اجداد کی جگہوں کو چھوڑنا آسان کام نہیں لیکن انسان باقی چیزوں کے بنا رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر نہیں۔
پانی کا مسئلہ آج کا نہیں ہے یہ مسئلہ بیس یا تیس سالوں سے ہے،یہاں پانی کا سطح زیر زمین تیزی سے کم ہو رہی ہے اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہماری ناکام سیاسی و سماجی پالیسیاں ہے ان کی وجہ سے یہاں دس سے پندرہ سال سے ہمیں پانی کے حصول کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا ہیں، لیکن ہمارے کسی حکمران نے کبھی بھی زحمت نہیں کی جس سے اس مسئلے کا حل ہوتا۔پانی کی کمی کی وجہ سے گدر کی سرسبز و شاداب زمینیں بنجر بن چْکی ہیں اور بہت سے مویشی مر چْکے ہیں۔کچھ لوگ آج بھی گدر کو چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے زمینوں سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں اور کچھ لوگ یہ گنجائش نہیں رکھتے۔ اگر دوسری جانب صحت کے مراکز یا کہ سہولیات کی بات کی جائے تو گدر میں ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں کے لوگوں کو جب بھی کوئی بیماری ہوتی ہے تو علاج کیلئے خضدار سوراب، یا کوئٹہ جاتے ہیں اور آنیجانے میں ہزاروں کرایہ لگتا ہے۔اگر جب کوئی سیریس کیس ہو مثلاً اگر کسی حاملہ عورت کو لیبر ہو اور اسکا کیس سیریس ہو تو وہاں پر کوئی ایسی سہولیت موجود نہیں جس سے ماں اور بچے دونوں کی زندگی بچائی جاسکیں۔
اگر کوئی شہر میں آنے کی کوشش کرے کسی ڈاکٹر کے پاس تو ایک مسئلہ وہاں ٹرانسپورٹ کا بھی ہے کہ اگر ایمرجنسی کی وقت گاڑی کا ملنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں کی لوکل گاڑیاں صبح سویرے شہر روانہ ہوتی ہیں، ایسی صورت میں ماں اور بچہ دونوں میں سے کسی کو بے موت آسکتی ہے۔اگر اپینڈکس یاکہ دیگر امراض میں مبتلا مریض کو درد ہو تو وہ وہاں پر درد کے دوران ہی فوت ہو سکتا ہے کیونکہ گدر بازار دو یا تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ اور تعلیمی لیول پر ہمارا نظام تباہ کن ہیں، یہاں بہت سے علاقوں میں اسکول موجود نہیں ہے، جن جگہوں میں اسکول ہے تو وہاں ٹیچروں کا بْحران چل رہا ہے۔ اور کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں کچی سے لیکر پرائمری تک کا استاد ایک ہے جو سب کو پڑھاتا ہے یہ بھی سوچنے والی بات ہے ایک استاد اتنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتا ہے اگر پڑھاتا ہے بھی تو کیا سارے بچے سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟
اور
گدر میں بہت سی ایسے جگہیں ہیں، جہاں پر ٹھیک طریقے سے نیٹ ورک موجود نہیں، نیٹ تو دور کی بات ہے لوگوں کو فون کال کرنے کیلئے پہاڑوں پر چڑ ھ کر چلا چلا کر بات کرنا پڑتا ہے اور کھبی کھبار تو نیٹ ورک کسی جگہ پر بھی ملتا نہیں۔ سائنس کی ترقی یافتہ دور بھی گدر کے رہائشیوں کی بجلی تک نصیب نہیں۔۔

گدر کے لوگ ایکسویں صدی میں بھی بجلی سے محروم ہیں، وہاں پر بجلی کا نام و نشان نہیں وہاں جاکر آپ کو ایسا لگے کے وہاں کے لوگ اس دور میں رہ رہے ہیں، جس دور میں بجلی دریافت نہیں ہوئی۔آجکل کچھ لوگ سولر سسٹم استعمال کر رہے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کے پاس سولر خریدنے کے پیسے بھی نہیں۔۔۔
کس سے شکوہ کریں ہم کس سے اپنا درد بیان کریں،
فطرت بنا دیا ظالم نے یہاں میری زندگی میں ظلم کو۔۔
یہ ہے ہمارا علاقہ گدر ہم کیسے کہیں کہ ہم خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔؟
ہم کیسے کہیں کہ ہمیں ہمارے حقوق مل رہے ہیں۔۔؟
کب ہم زندہ ضمیر لوگوں میں شمار ہوکر اپنے نسل نوح کی خاطر اپنی آواز بلند کرینگے۔۔؟،
یہ حالات نے ہم سے زندگی کے جینے کا حق محروم کیا ہے آخر کیوں۔۔۔؟
کیا ہم صرف اپنے آپ تک محدود ہو کر مینڈک کی زندگی کی طرح اپنے لئے سوچ رہے ہیں۔۔؟
کیا جواب دینگے رب العالمین کے سامنے لوگوں کے حقوق کے متعلق۔۔؟
گدر کے لوگ ایک ایک بوند پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔۔
گدر کے علاقے میں لوگ کاشت کاری کرتے اور بھیڑ بکریوں سے اپنا گزارا کرتے ہیں اور کچھ لوگ تیل کا کاروبار کرتے ہیں لیکن بارڈر بند ہونے کی وجہ سے انکا کاروبار کازریعہ بند ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے کاشت کاری بھی نہیں ہوتی ہے۔۔
تو آئین ساتھ ملکر اپنے حاکم وقت کے ساتھ زرا سوچیئے گدر کے آنے والے نسل کیسے جی لینگے۔۔؟

اپنا تبصرہ بھیجیں