امریکہ کو دو ٹوک جواب:”اڈے نہیں ملیں گے“

وزیر اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو قانٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا:”پاکستان کسی صورت امریکا کو فوجی اڈے نہیں دے گااور نہ ہی افغانستان میں کارروائیوں کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی افغان ہم منصب سے گفتگو کے دوران کہا کہ امریکہ کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کیاجازت نہیں دیں گے، انہوں نے مزید کہا امرئیکی انخلاء کے بعد امن کا قیام صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں۔امریکی صحافی جوناتھن سوان کو وزیراعظم کاجواب سن کر یقین نہیں آیا، اس نے دوبارہ پوچھا:”کیا آپ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں؟“۔۔۔۔ دراصل امریکی صحافی پاکستان کے بارے میں اپنے صدور اور وزراء کی زبانی یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان کے صدر جنرل مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر نہ صرف تمام مطالبات مان لئے تھے بلکہ جواباً اپنی کوئی شرط نہیں منوائی۔ایمل کانسی کی واپسی یا گرفتاری میں مدد دینے پر چوٹی کے سردار کوبھاری رقم کی ادائیگی پر انتہائی توہین آمیز اوررقیق کلمات کہے گئے تھے۔ طویل عرصے تک امریکہ "Do more!”کہتا رہا،دبنگ لہجے میں "No more!”اسے پہلی بار سننے کو مل رہا ہے۔حالانکہ امریکی صحافی کو ذہنی طور پر ایسے ہی جواب کے لئے تیار ہونا چاہیئے تھا۔دودہائیاں پہلے امریکہ نے افغانستان پر اس یقین کے ساتھ حملہ کیا تھا کہ نیٹو افواج کی مدد سے افغانستان کو تہس نہس کر دے گا،بلکہ ”پتھر کے زمانے میں پہنچانے“ کااعلان کر رہا تھا۔آج صورت حال قطعی مختلف ہے۔آج اس کی حیثیت ایک شکست خوردہ ملک کی ہے۔ہارا ہوا ملک تحکمانہ لہجے میں بات نہیں کرتا، ملتجیانہ انداز میں اپنی مجبوری بیان کرتاہے۔ دوسروں سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔دنیا جانتی ہے بھکاریوں کوبھیک پسند کرنے کااختیار حاصل نہیں ہوتا۔امریکہ آج یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ؟“ اس لئے کہ جن حالات میں امریکہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اس کے لئے بھی حیران کن ہیں۔واپسی کے معاہدے پر دستخط ان ”طالبان“ کے ساتھ کرنا پڑے جنہیں پتھر کے زمانے میں پہنچانے کادعویٰ کیا تھا۔افغان طالبان نے اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو امریکہ یا اسے سعودی عرب کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا،اور کہا تھا:”اگروہ خود جانا چاہے تو ہم نہیں روکیں گے“۔افغان قوم پرستوں نے اپنی سرزمین غاصبوں سے چھڑانے کے لئے دودہائیوں تک مسلسل جنگ لڑی ہے۔حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے لوگ بوریاں بھربھر کے ڈالر وصول کرنے کے باوجود امریکہ کے قبضے کو دوام نہ دے سکے۔امریکی واپسی کے معاہدے میں ان کا ذکر ہی نہیں۔امریکہ پہلے طالبان کا دوست بن کے روس کے خلاف ان کی مدد کو آیا تھا،جودراصل ویتنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کی ایک کوشش تھی۔روس کے افغانستان سے نکلتے ہی طالبان کو حالت جنگ میں چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔آج بھی اس نے یہی رویہ اختیار کیا۔ افغانستان میں امریکہ نوازحکومت کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔بھاگتے ہوئے ملک کو فوجی اڈے فراہم کرنا حد درجہ احمقانہ اقدام سمجھا جائے گا۔بالخصوص ایسے حالات میں جب امریکہ چین سے بعض اقتصادی امور پر محاذ آرائی کے درپے ہو۔بھارت کی مددسے چین مخالف چار ملکی بلاک بنانے کی کوشش کر رہا ہو،جو بوجوہ نہیں بن سکا۔سی پیک میں پاکستان چین کا قریبی اتحادی اور بینیفشری ہے۔ ایران اور سعودی عرب اپنے مذہبی اختلافات کم کرنے،انتہا پسندی کے خاتمے اور دیگر تنازعات گفت و شنید سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔افغانستان میں امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔اسے خود ہی سوچنا چاہیئے تھا کہ پاکستان اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل میں پھنساہوا ہے۔ فوجی اڈے مانگنے سے گریز کرنا چاہیئے تھا۔امریکہ خود بھی ایک لمحے کے لئے ٹھنڈے دل سے سوچے اس نے دنیا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، ہزاروں میل دورجاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسا کر اپنی سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کیا، دنیا پراپنی دہشت بٹھائی کہ اپنے مفادات کے لئے تمام حدود پار کر سکتا ہے۔وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پروپیگنڈا کرکے خلیجی ریاستوں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ایران سے معاہدہ کرکے پھر گیا۔اسرائیل کو بھی اپنے غاصبانہ مقاصد کے لئے پال رکھاہے، اسکی اندھی حمایت کی جاتی ہے۔فلسطینیوں پر ڈھائے جانے مظالم پر اسرائیل کی پیٹھ تھپکتا ہے۔اقوام متحدہ میں ویٹو کر دیتا ہے۔امریکہ کو یاد ہونا چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ اس نے دو دہائیوں تک کیا سلوک جاری رکھا؟پاکستان اپنی زمین کسی نئی بمباری کے لئے ہر گز نہیں دے سکتا۔ پہلے ہی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔بہت سے غیر رجسٹرڈ ہیں،جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر یہاں امن و امان کی خرابی کا سبب بنتے ہیں، اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہیں۔ اگر افغانستان میں امریکی مداخلت جاری رہے گی تو وہاں امن کبھی قائم نہیں ہوگا۔اس کے منفی اثرات پاکستان کو بھگتنا پڑتے ہیں۔امریکہ عالمی برادری کا ایک رکن ہے۔اپنی ریاستی حدود میں رہے،دنیا کا چوہدری نہ بنے۔ویسے بھی پسماندہ ملکوں میں جتنے وسائل دستیاب تھے سب لوٹ کر لے جا چکا ہے۔ دنیا بھر میں امریکہ کا ایک بھی دوست موجود نہیں،جس کابڑا ثبوت یہ ہے کہ بھارت اس کے کہنے پر اس خطے میں چار رکنی بلاک نہیں بنا سکا۔ گھر میں گھس کر مارنے والا نعرہ چھوڑ دیا ہے، اب توبھارت کی زبان پر چین کا نام نہیں آتا، اشاروں کنایوں میں بات کرتا ہے۔ڈرادھمکا کر جتنا وقت گزار لیا وہی غنیمت سمجھا جائے۔خواہشات کے تعاقب میں زمین کے چپے چپے پر بم برسانے کا نتیجہ یہی نکلناتھا کہ اپنی ملکی حدود میں سمٹ کر، اپنے وسائل سے اپنے مسائل حل کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ پرامن ملک بن کر اپنا کردار ادا کرے۔ڈرانے دھمکانے کی راہ اپنانے کی کوشش کی گئی تو جواب بھی ویسا ہی ملے گا۔شمالی کوریا اپنا حساب لے گا۔عربوں کے دل اور جسم بھی زخمی ہیں۔ایران نے ثابت کیا ہے کہ کوئی غلطی معاف نہیں کی جائے گی۔امریکی صدر جوبائیڈن امریکی مقتدرہ کو سمجھائیں،پرانی حکمت عملی پر چلنے کی ضد نہ کرے۔دنیا میں کمزور معیشت والا ملک نہ پہلے عزت سے زندہ رہ سکا ہے،نہ آئندہ رہ سکے گا۔امریکی معیشت سدھاری جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں