بلوچستان میں نئی روایت کا آغاز
تحریر: انورساجدی
بلوچستان اسمبلی کے احاطہ میں ہنگامہ آرائی کے دوران دونوں فریقوں سے غلطیاں ہوئیں اگر اپوزیشن نے گیٹ پر تالا لگا کر راستے بند کئے تھے تو حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ مذاکرات کرتی اور بات چیت کے ذریعے اپوزیشن کو قائل کرتی کیونکہ اسمبلی کو چلانا حکومت کی زیادہ ذمہ داری ہے چونکہ بجٹ پیش کرنا تھا اس لئے حکومت کو جلدی تھی اگرچہ بکتر بند کے ذریعے گیٹ توڑنا اچھا عمل نہیں تھا لیکن اپوزیشن کو کس نے کہا تھا کہ اسمبلی کے راستے بند کر کے سرکاری اراکین کا داخلہ روکا جائے اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اپوزیشن اور حکومت دونوں نے حد پار کی یہ بلوچستان کی تاریخ کا پہلا اور سنگین واقعہ ہے ورنہ یہاں پر ہمیشہ پارلیمانی روایات کی پاسداری کی جاتی تھی اور ایوان کے اندر بھی شاذونادر ہی کوئی ایسا ناگوار واقعہ رونما ہوا ہو جو قومی اسمبلی اور ملک کی باقی اسمبلیوں میں روز کا معمول ہے حالانکہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کافی تجربہ کار ہیں بیشتر ارکان طویل عرصہ سے رکن چلے آ رہے ہیں کئی بار یہاں کل جماعتی حکومت بھی قائم رہی ہے بلکہ نواب رئیسانی کے دور میں اپوزیشن سرے سے ناپید تھی اسکے باوجود حد پار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
جہاں تک ترقاتی اسکیموں کا تعلق ہے تو مل جل کر کھانا بلوچستان کی دیرینہ روایت رہی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ جام صاحب نے ضد پکڑی ہے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین کو ایم پی اے فنڈ دینے سے انکاری ہیں اب تو پورے تین سال ہو گئے ہیں اپوزیشن اراکین اپنے حلقوں میں کیسے جائیں ووٹروں کو کیسے منہ دکھائیں خود ان کی اپنی جیب کی حالت بھی پتلی ہے انہیں خدشہ ہے کہ لوگ آئندہ انتخابات میں حکومت کے حمایت یافتہ رئیس امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور یہ لوگ ناکامی سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ یہاں پرسیاسی نظریہ پر ووٹ کم پڑتے ہیں۔
ایم پی اے فنڈ کا آغاز 1985ء میں جونیجو کے دور میں ہوا تھا چونکہ جنرل ضیاء الحق کو اپنے مارشل لاء سے جان بخشی چاہئے تھی اس لئے انہوں نے مرکز میں ایم این اے اور صوبوں میں ایم پی اے فنڈ کی روایت ڈالی اس دور میں ایم این اے کو 50لاکھ اور ایم پی اے کو 80لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز ملتے تھے شروع میں یہ لوگ پی ایس ڈی میں اپنی اسکیمات ڈلواتے تھے اور بیورو کریسی ان اسکیمات کو مکمل کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ایک طرف اراکین اسمبلی کے فنڈز بڑھتے گئے دوسری طرف وہ ترقیاتی اسکیموں کے ٹھیکے من پسند ٹھیکیداروں کو بانٹنے لگے نہ صرف یہ بلکہ ایم پی اے حضرات زائد فنڈز بھی حاصل کرنے لگے جس کی وجہ سے اس طبقہ کا یہ باقاعدہ کاروبار اور روزگار بن گیا اس طرح سیاست خدمت کی بجائے خوشحالی کے حصول کا ایک پیشہ بن گیا
این ایف سی ایوارڈ کے بعد چونکہ صوبوں کے بجٹ بہت بڑھ گئے اس لئے اراکین اسمبلی کی خوشحالی بھی بڑھ گئی جبکہ وزارتوں پر فائز اشرافیہ کا شمار دولت مند ترین لوگوں میں ہونے لگا دیکھتے ہی دیکھتے ان کا لائف اسٹائل بدلنے لگا معیار زندگی اونچا ہو گیا جن لوگوں کے ہاتھ زیادہ پڑے انہوں نے دو چار شاندار بنگلے تعمیر کروائے بڑی بڑی گاڑیاں بھی حاصل کر لیں جب وسائل بڑھ گئے تو کئی لوگوں نے پہلے دوبئی اور اس کے بعد لندن کے قیمتی فلیٹوں اور محلات کا رخ بھی کیا ایک اندازہ کے مطابق قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے کم از کم سو لوگ ایسے ہونگے جن کے ایک یا ایک سے زائد گھر ولایت میں ہیں اسی طرح سندھ کے وڈیروں کا دوبئی تو دوسرا گھر ہے۔
پنجاب اسمبلی کے 365 میں سے ایک تہائی اراکین بھی دراصل ولایت کے باشندے ہیں۔
2018ء کے انتخابات سے قبل جناب عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایم این اے اور ایم پی اے فنڈز کا خاتمہ کریں گے کیونکہ ان لوگوں کا کام قانون سازی کرنا ہے ترقیاتی کام کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن جلد وہ دباؤ میں آگئے کیونکہ دوسری جماعتوں کے الیکٹلز صرف ایوان میں بیٹھنے کیلئے نہیں آئے تھے بلکہ وہ اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور آبائی حلقہ مستحکم رکھنے کیلئے آئے تھے چنانچہ وزیراعظم عمران خان کو یوٹرن لینا پڑا اور انہوں نے سرکاری اراکین پارلیمنٹ کو فنڈز کا اجراء شروع کر دیا بلکہ پنجاب میں تو فنڈز کی بارش کر دی گئی تاکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی پوزیشن مضبوط ر ہے۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو جام صاحب ایک مختلف شخص ہیں ان کا انداز اپنے والد اور دادا سے مختلف ہے وہ لوگ صلح کل اور پرانی روایات کے امین تھے لیکن جام کمال خان جدید دور کے سیاست دان ہیں وہ حکام بالا کے سوا کسی کے دباؤ یا اثر میں نہیں آتے ان کی جماعت کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ صوبائی کنگز پارٹی ہے الیکشن کے بعد پارٹی میں کافی اختلافات پیدا ہوئے صوبائی اسمبلی میں گروپنگ پیدا ہوئی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے کافی ہاتھ پیر مارے لیکن اوپر کا فیصلہ یہی تھا کہ جام صاحب کو آئندہ الیکشن تک برقرار رکھنا ہے اور اس وقت بلوچستان کے جو پیچیدہ حالات ہیں ان کے پیش نظر وزیراعلیٰ کی تبدیلی مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوگی البتہ اس دوران جام صاحب نے اپوزیشن کے جارحانہ رویہ کو اہمیت نہیں دی اور اپوزیشن ارکان کو فنڈز کا اجراء روک دیا یہ لوگ عدالت عالیہ میں گئے اور پی ایس ڈی پی کو چار ماہ تک معطل رکھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ کافی سارے فنڈز لیپس ہو گئے فنڈز کے مسئلہ پر فریقین کو مل بیٹھنا چاہئے تھا اور بات چیت کے ذریعے اس کا حل تلاش کر لینا چاہئے تھا لیکن دونوں فریقین لچک کا مظاہرہ نہ کر سکے اس لئے نوبت مارکٹائی خشت باری اور جوتا اچھالنے تک آئی۔
ایسا سمجھو کہ ایک دن کیلئے بلوچستان اسمبلی قومی اسمبلی بن گئی یا پنجاب اسمبلی کا منظر پیش کرنے لگی۔
چونکہ اس وقت جذبات شدید ہیں لہذا اس ماحول میں آزادانہ رائے ظاہر کرنا مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ جوتا اچھالنے یا مارنے کی رسم بڑی ظالم ہے جو یہ بلوچستان اسمبلی میں شروع ہوئی ہے تو اسے روکنا مشکل ہے آئندہ چل کر پبلک جلسوں، اجتماعات اور ریلیوں کے دوران بھی جوتا ماری کی رسم مخالفین کے خلاف استعمال ہوگی اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا عمومی طور پر اس کا شکار متوسط طبقہ کے سیاسی کارکن ہونگے کیونکہ جو بڑے نواب سردار اور لیڈر ہیں ان کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی گارڈز ہیں ان پر ہاتھ اٹھانا یا جوتا مارنا اتنا آسان نہیں ہوگا اگر ایسا واقعہ ہوا بھی تو اس کا نتیجہ خونریزی کی صورت میں برآمد ہوگا جام صاحب پر جو جوتا اچھالا گیا وہ یقینی طور پر ایک شرارت تھی کیونکہ جوتا کافی دور سے اچھالا گیا جو لگا بھی نہیں لیکن دنیا بھر میں مشہور ہو گیا کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ پر جوتا پھینکا گیا ہے جوتے کا تعلق اگرچہ ذاتی اعتبار سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی سربراہ کی طرف اچھالا گیا ہے کیونکہ جام صاحب ذاتی طور پر ایک والئی ریاست کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بعض لوگ اسے قبائلی روایات کی پامالی سے تعبیر کر رہے ہیں معلوم نہیں کہ مخالفین کی کیا رائے ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر اس طرح کے رویہ کی حمایت نہیں کر سکتا کیونکہ اس طرح کا واقعہ آئندہ چل کر کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے اگر سابق ریاستوں کے والی یا قبائلی سردار جو ہمیشہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں ایک دوسرے کے دست گریبان ہو گئے تو ایک افسوسناک صورتحال پیدا ہو گی۔
کون نہیں جانتا کہ ریاست نے ان لوگوں کو بلوچستان کا نائب کسوڈین بنایا ہے ریاست کے نزدیک عوام کو یہی لوگ اچھی طرح ڈیل کر سکتے ہیں اور ان کے ذریعے ہی بڑے بڑے فیصلے کئے جاتے ہیں ریاست کے باقی حصوں میں صورتحال مختلف ہے وہاں پر اشرافیہ کی ایک نئی کلاس تشکیل دی گئی ہے جبکہ بلوچستان میں طاقت کے پرانے عناصر کو خدمات پر مامور کر دیا گیا ہے عوام کی تو خیر نوابوں، سرداروں اور قبائلی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں جو لوگ آج اپوزیشن میں ہیں وہ اپنی باری کا انتظار کریں کیونکہ گزشتہ ادوار میں وہ لوگ حکومت میں تھے آج ان کے عزیز ہیں کل دوبارہ ان کی باری آئے گی۔
اسی طرح حکومت کو چاہئے کہ وہ صبرو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرے جو ہوا سو ہوا اپوزیشن کو مذاکرات کیلئے مدعو کرے اور یہ کم بخٹ فنڈز کا مسئلہ حل کرے کیونکہ سارے فساد کی جڑ یہی فنڈ ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے واقعہ پر بی این پی عوامی کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری نے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جو کچھ یوں ہے۔
بلوچستان اسمبلی کا جو واقعہ ہے وہ دیکھ کر اور سن کر بہت افسوس ہوا کیونکہ بلوچستان کی اپنی ہی روایات ہیں ان روایات کو اگر اگلی نسل تک ہم نے منتقل کرنا ہے کیا ہم ان روایات کو اس طرح منتقل کریں گے اور پرسوں ہوا نواب، سردار، علماء، پڑھے لکھے لوگوں کی موجودگی میں جس طرح روایات کو روندھا گیا تو اس کا بہت افسوس ہے کچھ لالچ اور کچھ پیسوں کی خاطر اپنی روایات کو بھول گئے۔
یہ جو جوتا پھینکنے کا عمل ہے یہ بلوچستان کی روایات کا حصہ نہیں ہے یہ بلوچستان کی روایات پر ایک حملہ تصور کیا جاتا ہے تمام لوگوں کو اس کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اگر ایسی چیزوں پر فخر کرنے کی کوشش کی گئی تو آئندہ نسل اسے اپنی روایات بنائے گی یہ دیکھنا چاہئے کہ کن لوگوں نے یہ غلط حرکت کی آنے والے وقتوں میں کوئی باعزت شخص اس سے محفوظ نہیں رہے گا یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ جوتا کس نے پھینکا اور اس کا تعلق کس گروہ سے ہے تاکہ ایسے واقعات کی پیش بندی ہو سکے۔
٭٭٭