رسواکن واقعہ
تحریر: رشید بلوچ
اب تو احساس ندامت ہونا چاہئے،ماتے سے شرمندگی کے ایک،دو قطرے پسینے کا چھوٹ جانے چاہئیں لیکن نہیں،ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ جو کارناماہائے نمایا ں سرزد ہوا ہے اس پر کیسی شرمندگی، کیسی ندامت،کائے کا پچھتاوا؟ اگر دنیا بھر میں جھگ ہنسائی ہوئی ہے تو کیا ہوا، بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوا،جس کی تقدس کی تم قسمیں کھاتے ہو اگر اس پر ایک آدھی بکتر بند گاڑی چڑ دوڑی، مردوں کی پگڑیاں اورعورتوں کی چادریں اچلنے کے نظارے انٹرٹینمنٹ کا زریعہ بن گئے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، ہفتے کے سات دن,, مقدس ایواں،، کے سربراہ پر جوتوں اور بوتلوں کی برسات ٹی وی چینلز کا پیٹ بھرنے کیلئے بریکنگ پر بریکنگ چلتی رہیں اس پر بھی شرمندگی کیوں؟بلکہ اس پر خوش ہوجانا چاہئے، خوشی ا س لئے کہ ہماری اہم کارناموں کی بدولت بلوچستان کو مین اسٹریم میڈیا نے بہت سارا اسپیس فراہم کر دیا،ہم جو کہتے ہیں نا کہ مین اسٹریم میڈیا ہمیں اسپیس نہیں دیتی، بلوچستان کو نظر انداز کرتی رہتی ہے، اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ میڈیا میں ان رہنے کیلئے سنجیدگی کی نہیں،ہلڑ بازی، جوتا ماری،پگڑیاں و چادریں اچالنے کے نسخے کار آمد ہوتے ہیں،ہمارے اسلاف تو بڑے بے وقوف گزرے ہیں جنہوں نے اصول پرستی،اخلاقیات، تہذیب جیسی فضول روایات سینے پر کھس رکھے تھے، موجودہ نسل سیانی ہوگئی ہے، نئی نسل نے اسلاف کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیاہے، اسلاف بچاروں نے نہ جانے کن خوش فہمیوں کی وجہ سے سالہا سال جیل کی کال کھوٹریوں میں ازیت زدہ زندگیاں گزاری ہیں،ہم تو تھانوں میں نرم گداز قالین اور صوفے بچا کر رات بھر محفلیں سجاتے ہیں جب بھی جی چاہے تھانے سے گھر چلے جاتے ہیں سکون کی نیند لیکر دوبارہ تھانے پہنچتے ہیں،زائقے دار کھانے، کٹی میٹھی مشروبات بہم پہنچائی جاتی ہیں،اتنی ساری مشکلات ہم اس لئے جھیل رہے ہیں کیونکہ ہما ی اسکیمات منظور نہیں کی جارہی ہیں، بلوچستان کی80فیصد آبادی پانی بجلی، تعلیم،صحت،انسانی ضروریات کے بنیادی وسائل سے محروم ہے، اس80فیصد بے کس عوام کو ہم یہ باور کرا رہے ہیں کہ تم لوگوں کے بنیادی,, حقوق،، کی خاطر ہم نے اسمبلی گیٹ کو بکتر بند گاڑی سے تڑوا دیا، ایوان کے کماش کی جوتیوں سے سواگت کی،ہم نے سابق روایات کو پاؤں تلے روند کر نئے روایت کی بنیاد ڈال دی، ہم پر مقدمات تمارے بھلے کی خاطر درج ہوئے، اتنی ساری دقت اٹھانے کے بعد اگر تھانے میں معمولی سی سہولت انجوائے کریں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔۔۔۔۔
18جون کی ہنگامہ آرائی کے بعد ہمارے ایک محترم ایم پی اے صاحب نے فاتحانہ انداز میں پوچھا تھا کہ کیسا رہا ہمارا,, کارنامہ،،؟ آج دن بھر تمام میڈیا چینلز پر ہم چھائے رہے، لائیو پروگرامز میں ہمارے ساتھیوں کے انٹرویوز چلے ہم نے حکومت کا ناطقہ بند کر کے رکھا ہے، ایم پی اے صاحب سے ہم نے عرض کیا کہ۔۔آپ اپنے 18جون والے معاملے سے مطمئن ہیں۔۔؟ ایم پی اے صاحب نے کندھے اچکا کر کہا کہ جی بلکل۔۔ہم سوچنے لگے کہ احساس ندامت اس صورت میں ہوسکتی ہے جب اپنی غلطی کاادراک و احساس ہو،انسانوں سے بڑی سے بڑی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں،غلطیوں کا مداوا اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب فریقین اپنی اپنی غلطیوں کااحساس کریں،18جون کے واقعہ کی زمہ داری صرف ایک فریق پر نہیں تھوپی جا سکتی، غلطیاں حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ہوئی ہیں، اس میں سب سے بڑی شر مندگی و ندامت کا مقام وزیر اعلیٰ جام کمال خان پر جوتے اور بوتلیں پھینکنا اور اسمبلی کے مرکزی دروازے کو بلڈوز کرنا ہے، یہ دو ایسے واقعات ہیں جس نے سابقہ روایات کو ہی بلڈوز کر دیا، ان دونوں واقعات کو جواز فراہم نہیں دیا جاسکتا، نہ جسٹیفائی کیا جاسکتا ہے، باقی معاملات کو ایک طرف رکھ کر ان دو واقعات پر اڑے رہنے سے رنجشیں مزید بڑھ جائیں گی،اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ اتنا بڑا واقعہ رو نما ہوجانے کے بعد فریقین میں دوریاں قربت میں بدل جائیں گی،ممکن ہے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان معاملات کسی نہج پر درست کئے جا سکتے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے نے زاتی رنجشوں اور ناراضگیوں کو جنم دیا ہے، زاتی نوعیت کے رنجشوں کوکس طرح ختم کیا سکتا ہے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے،بلوچستان میں نظریاتی جنگ پاکستان بننے کے بعد شروع ہوئی تھی یا شاید ماقبل میں بھی یہ جنگ جاری تھی لیکن اسکے باوجود باہمی رشتے ناطے (سانگ بندیاں) ہوتے رہے ہیں،گزشتہ ادوار میں بندوقیں تو چلی ہیں لیکن جوتے چلنے کی داغ بیل آج کی نسل نے ڈال دی ہے،بلوچ معاشرے میں گولی کے مقابلے میں جوتے چلنے کو سخت معیوب سمجھا و مانا جاتا ہے۔۔۔
وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے اس تمام معاملے کے پس پردہ اسپیکر عبد القدوس بزنجو کو زمہ دار ٹھرایا ہے، بقول جام کمال خان معاملے کو میر عبدا لقدوس بزنجو نے سنجیدگی سے ڈیل نہیں کیا، جام صاحب کے خدشات اپنی جگہ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ گیٹ کو بکتر بند گاڑی کے زریعہ توڑنے کے رد عمل میں جام صاحب کو عین اشتعال کے دوران کس نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اسمبلی آجائیں، عموماوزیر اعلیٰ کو سیکورٹی کے تمام معاملات کلیئر کرنے کے بعد موومنٹ کرنے کا گرین سگنل دیا جاتا ہے، اس کام میں سیکورٹی کی بھاری بھرکم ٹیم معمور ہوتی ہے، گیٹ توڑنے کے بعد اشتعال اپنے عروج پر ہوتا ہے،احاطہ اسمبلی میں 400۔500لوگ موجود ہوتے ہیں،نعرے بازیاں ہورہی ہوتی ہیں،ایسی صورتحال میں وزیر اعلیٰ کی سیکورٹی کلیئرنس دینا بذات خود بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے،جا م صاحب نے واقعہ کی تحقیقات کا تو کہا ہے لیکن تا دم تحریر تحقیقاتی ٹیم کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے،ظاہر ہے جب تحقیقات ہوں گی تو اصل محرکات و معاملات کا معلوم ہوسکے گا،تحقیقات کے بغیر اٹھنے والے سوالات قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتے ہیں،جام صاحب کو اپنے ارد گرد نزدیکی لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی ایسا نہ ہو کہ جام صاحب کے قریبی مانے جانے والے لوگ اپوزیشن اور حکومت کی جاری لڑائی سے اپنا کوئی خاص مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں؟ بلکہ بعض وزرا تو پس پردہ اپنی نجی بیٹھکوں میں اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو کھوس رہے ہوتے ہیں، غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جم غفیر وزیروں و مشیروں کی موجودگی کے باوجود بلوچستان حکومت اور جام صاحب دونوں کا دفاع کرنے کیلئے کوئی ایک فرد بھی سامنے آنے کو تیار نظر نہیں آتا،جو لوگ دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ٹھیک طریقے سے حکومت کا دفاع کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا،اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 18جون سے اب تک تمام میڈیا میں حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن حاوی نظر آرہی ہے، اپوزیشن بڑی شد مد سے اپنا موقف بیان کر رہی ہے،حکومت کی جانب سے دامے۔درمے، سخنے، محض خانہ پری کیلئے بیان بازی کی جارہی ہے،مخلوط حکومت میں شامل پارلیمانی جماعتوں نے 19جون کو جام صاحب سے ملاقات کے بعد خاموشی اختیار کر رکھی ہے،بہر حال 18جون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو نارمل کرنے کیلئے فریقین کو اپنی اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے اسکا مداوا کرنا چاہئے تاکہ آئندہ 18جون والے داغدار واقعات پیش نہ آسکیں،جھگ ہنسائی کا سامان پیدا نہ ہو