عثمان کاکڑ کا آخری سفر

تحریر: انورساجدی
عثمان خان کاکڑ کی زندگی کا سفر بھی شاندار رہا اور سفر آخرت بھی بہت شاندار تھا حب سے لے کر شال تک لوگوں نے انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا چند آنسو اور پھولوں کی چند پتیاں بس آخری سفر کا یہی تحفہ ہوتا ہے۔
عثمان کاکڑ کے لبوں پر ہر وقت ملکوتی مسکراہٹ ہوتی تھی ان کے داخلی کرب کا اظہار ان کے معصوم چہرے پر دکھائی نہیں دیتا تھا مجھے تو ان کی گرومنگ پر حیرت ہوتی ہے انہوں نے زندگی کے سفر کا کہاں پر آغاز کیا اور جب انہیں تراشا گیا تو اس میں ہیرے کی چمک تھی ان کی پوشیدہ صلاحیتیں سینٹ میں عدد کر باہر آئیں ان کے لہجہ سے قطع نظر ان کی باتوں میں سچائی تھی الفاظ میں درد تھا انہوں نے مظلوم افتادگان خاک کیلئے پوری قوت کے ساتھ آواز اٹھائی کسی مصلحت اور منفعت کو آڑے نہیں آنے دیا یہی ایک بڑے لیڈر کا وصف ہوتا ہے۔
جب میں نے ان کی موت کی خبر سنی تو دل یقین کرنے کو تیار نہیں تھا میں نے انہیں پی ایس او کے ایک جیالے کے طور پر دیکھا تھا طالب علمی سے عملی سیاست میں آنے تک انہیں ایک الٹرا پشتون قوم پرست کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا علم وسیع ادراک بلند اور مطالعہ بڑھتا گیا تو انہوں نے اپنا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اس میں پشتون کے علاوہ دیگر محکوم اقوام کو بھی شامل کر لیا وہ ایک اصولی موقف رکھتے تھے ان کے لاشعورپرمحکوم اقوام کی قربانیوں ان کے خلاف زیادتیوں کی گہری چوٹ تھی انہوں نے سینٹ میں چند سال کیا گزارے کہ پاکستان کی پوری تاریخ اور اس کے مابعد اثرات کا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔
جب پشاور کے ایک ”ریلو کٹے“ سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹ کے اندر غداری کے القابات بانٹے تو عثمان کی للکار قابل دیدنی تھی شیر جیسی دھاڑ اب تاریخ کا حصہ ہے جو سچائی اور حقائق میں ملغوف ہے۔
بدقسمتی سے سینیٹ کے بیشتر اراکین گونگے ہیں خاص طور پر جب سے سینیٹ کا ایوان وجود میں آیا ہے بلوچستان سے زیادہ تر گونگے وہاں پر گئے ہیں لیکن گزشتہ مدت کیلئے جو لوگ گئے تھے انہوں نے نمائندگی کا اچھا خاصا حق ادا کر دیا چاہئے کبیر محمد شہی ہوں، ڈاکٹر جہانزیب ہوں یا عثمان لالا انہوں نے مسلسل خاموشی کے سکوت کو توڑا ان میں سب سے دبنگ آواز سب سے بلند آہنگ اور اونچی للکار عثمان لالا کی تھی انہوں نے وہاں پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی ایک طبقہ کے نمائندہ نہیں ہیں بلکہ پورے بلوچستان اور تمام محکوم اقوام کے نمائندہ ہیں انہوں نے انگریزی استعمار سے لے کر موجودہ استعماری مائنڈ سیٹ کو تاریخی اور مستند حوالوں سے چیلنج کیا جس کی وجہ سے ایک طوفان برپاہو گیا کیونکہ سینٹ کے بیشتر اراکین تعلیم سے تو آراستہ تھے لیکن وہ علمی حوالے سے تہی دامان تھے وہ تاریخ سے ناواقف رٹے رٹائے ایک مسخ شدہ تاریخ اور ایک بے بنیاد نظریہ کے پیروکار تھے ان کے اذہان زنجیروں میں جھکڑے ہوئے تھے عثمان لالا نے پاکستان کے ایوان بالا میں جا کر جو رنجیر ہلائی تو گویا قیامت برپا ہوئی ایک باشعور مدبر کی حیثیت سے انہوں نے اپنا لوہا منوایا لیکن زندگی کی بازی ہار گئے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا حادثہ ہوا یہ سانحہ کیسے پیش آیا لیکن سینٹ میں انہوں نے اپنے انجام کی پیشنگوئی کر دی تھی ان کی موت طبعی تھی یا کسی واقعہ کا نتیجہ تھی اس کا کھوج کبھی نہیں لگایا جا سکے گا کیونکہ پچھلے واقعات کا تسلسل اور تاریخ یہی بتاتی ہے ابتداء سے ہی جو سانحات رونما ہوئے کبھی ان کا سراغ لگایا نہ جا سکا لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کی شہادت تک ایک ہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔
مثال کے طور پر بے نظیر کا قتل دیکھئے ان کی گاڑی میں جو لوگ سوار تھے وہ آج تک کسی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور نہ ہی کسی نے بتایا کہ گاڑی کا سن رؤف کھولنے کا بٹن کس نے دبایا اور کس نے سیکورٹی خدشات کو نظر انداز کر کے بی بی سے کہا کہ وہ باہر نکل کر عوامی نعروں کا جواب دیں کوئی دو دن پہلے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر جو بی بی کی شہادت کے وقت ان کی گاڑی میں موجود تھے بی بی کی سالگرہ کے موقع پر ایک لمبا چھوڑا بھاشن دے رہے تھے لیکن انہوں نے آج تک بی بی کی شہادت کے اسباب و عوامل پر کوئی لب کشائی نہیں کی۔
گوکہ فرحت اللہ بابر کی باتیں فکر انگیز تھیں اور ان میں سچائی تھی لیکن یہ موجودہ صورتحال اور آئندہ امکانی تبدیلیوں کے بارے میں تھیں بی بی کے قتل کے بارے میں انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ موجودہ حکمران پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں وہ 1973ء کے آئین اور 18ویں ترمیم کو ریاست کے خلاف سمجھتے ہیں وہ تو ن لیگ اور مولانا کے اس فیصلہ کے بعدکہ تمام اپوزیشن استعفے دے تو ضمنی انتخابات کی صورت میں شبخون مارنا چاہتے تھے لیکن بقول ان کے زرداری نے پارلیمان خالی کرنے سے انکار کر کے ان کے عزائم ناکام بنا دیئے وہ تو ضمنی انتخابات کے نتیجے میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے آئین پر حملہ آور ہوتے لیکن انہیں موقع نہیں ملا انہوں نے واضع طور پر کہا کہ فیصلے اسلام آباد میں واقع پارلیمان سے نہیں ہوتے بلکہ راولپنڈی میں ہوتے ہیں۔
یہ جو سرکاری جماعت کی طرف سے پارلیمان کی بار بار توہین انہی عزائم کا مظہر ہے کہ پارلیمنٹ اپنی وقعت کھو بیٹھی ہے اور یہ ایک باوقار اور سپریم ادارہ کی بجائے ربر اسٹیمپ بن چکی ہے لہذا اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیرباد کیا جائے اور اس کی جگہ ایوب خان جیسا نظام لایا جائے اس کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں اور جاری رہیں گی جو سیاسی عناصر ہیں وہ راہ میں مزاحم ہیں ایک کشمکش ہے یہ اس کا آغاز ہے آگے چل کر باقاعدہ جنگ ہوگی جس کیلئے رولنگ جماعت اور اداروں کے اتحادیوں کو میدان جنگ میں اتارا جائیگا لیکن یہ کوئی اچھی صورت نہیں ہے کیونکہ بالآخر بڑا صوبہ ایک طرف اور باقی صوبے دوسری طرف ہونگے جو بالادست طبقے ہیں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک مرکزیت نہیں ہو گی اور تمام وسائل صوبوں کی بجائے مرکز کے ہاتھوں مرتکز نہیں ہونگے یہ ریاست مضبوط نہیں ہوگی مضبوط مرکز کا نظریہ بہت پرانا ہے جس کے خالق وہ لوگ ہیں جنہوں نے صوبے توڑ کر ون یونٹ بنایا اور پیریٹی کا نظام رائج کیا اس کے نتیجے میں 16دسمبر1971ء کو ریاست دولخت ہو گئی لیکن اس سانحہ اور اس کی تاریخ سے سبق نہین سیکھا گیا دوبارہ پرانے تجربے کو دہرایا جا رہا ہے مجھے تو ن لیگ کی طرف سے یہ خدشہ ہے کہ نئی جنگ میں جو شروع ہونے والی ہے یہ جماعت بڑا یوٹرن نہ لے گوکہ آج یہ فیڈریشن کے استحکام اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہی ہے لیکن آگے چل کر یہ 18ویں ترمیم اور پارلیمانی نظام کے خلاف مضبوط مرکز کے حامیوں کا ساتھ دے سکتی ہے۔
کیونکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی رولنگ ایلیٹ کو 18ویں ترمیم این ایف سی ایوارڈ اور وحدتوں کے بے تحاشا اختیارات پر تحفظات ہیں اگر دباؤ بڑھا تو ن لیگ اپنے موجودہ موقف سے دستبردار ہو سکتی ہے کم بخت زرداری نے ایسی ترمیم بنائی کہ اس نے گویا بالادست طبقوں کے ہاتھ پیر باندھ کر رکھ دیئے جب سابق صدرنہ پارلیمنٹ کو توڑ سکتے ہیں نہ صوبائی اسمبلیوں کو برخاست کر سکتے ہیں سوائے اس کے کہ آئین سے کوئی ماوریٰ قدم اٹھایا جائے اس لئے خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں اگر آئین سے ماوریٰ قدم اٹھانا پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کیا جائیگا کیونکہ مرکز میں یہ سوچ موجود ہے کہ اگر سندھ اور بلوچستان کے وسائل کو بروئے کار لانے کا اختیار اسے نہ ملے تو ریاست کسی وقت بھی دیوالیہ ہو سکتی ہے مرکز کی ساری امیدیں ریکوڈک، سندھ اور بلوچستان کے ساحل وسائل سے وابستہ ہیں۔
اگر یہ امیدیں بر نہ آئیں تو مرکزی عناصر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس وقت تین صوبوں میں مرکز نے اپنی حمایت یافتہ ڈمی حکومتیں قائم کر رکھی ہیں لیکن یہ حکومتیں بھی 18ویں ترمیم کی موجودگی میں اپنے وسائل براہ راست مرکز کے حوالے کرنے کی پوزیشن میں نہیں اگر مرکز نے کھل کر بات کی تو قومی سلامتی کے دیرینہ نظریہ کے تحت یا نظریہ ضرورت کے تحت سب سے بڑے صوبہ کی تمام سیاسی قوتیں یکجا ہو کر کسی بھی انتہاء پسندانہ اقدام کے ساتھ دے سکتی ہیں۔
آصف علی زرداری کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی قسم کی سودے بازی کر سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
زرداری کیلئے دعا کی جائے کہ عمر کے اس آخری حصے میں وہ ایک طبعی انجام سے دوچار ہوں اور ان کا انجام اپنی اہلیہ کی طرح نہ ہو۔
کئی لوگوں کو خدشہ ہے کہ عثمان کاکڑ کی طرح چٹانی کرداروں اور بلند آوازوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا کیونکہ نظریہ ضرورت کا یہی تقاضہ ہے۔
اگر آج بے نظیر موجود ہوتیں تو فیڈریشن کی لڑیاں یوں کمزور نہ ہوتیں ان لڑیوں کو ایک ایک کر کے بکھرے جانے کا امکان ہے پہلا حملہ تو فریڈم آف ایکسپریشن پر کر دیا گیا ہے تاکہ ممکنہ اقدامات کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائے دیگر اقدامات یکے بعد دیگرے انجام دیئے جائیں گے۔
اگرچہ پارلیمان میں بلند آہنگ اراکین موجود ہیں لیکن عثمان لالا جیسا کوئی نہیں انہوں نے حیات بلوچ کے قتل کا معاملہ جس شدت سے اٹھایا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا ان کے سفر آخرت میں سات سو کلو میٹر طویل راستے میں عوام نے جس عقیدت و تکریم کا مظاہرہ کیا ان کے احسانات کا حقیر تحفہ ہے۔
حساب عمر کا بس اتنا ہی گوشوارہ ہے
تجھے نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
حق مغفرت کرے
عجیب آزاد مرد تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں