لالا عثمان نے تاریخ رقم کردی۔۔۔

تحریر: رشیدبلوچ
آج کے قوم پرستانہ سیاست سے متعلق میری رائے رومانوی کبھی نہ رہی، پاکستان کے کارپوریٹ سیاسی جماعتوں اور قوم پرست پارٹیوں کے درمیان رتی برابر جمع تفریق نہیں کیا جاسکتا ہے،قوم پرستی کی سیاست اس لئے بھی متا ثر کن نہیں جس در پر کارپوریٹ جماعتیں پلکیں بچھا ئے بیٹھی ہیں ہو بہو قوم پرست پارٹیاں بھی اسی رستے کی راہی ہیں، اگر ہم اپنے ماضی قریب کے کردار اور جھولی میں ڈالے گئے خیرات کا نوحہ لکھنے بیٹھے تو یہی جماعتوں کے چیلے جینا حرام کرکے رکھ دیں،پاور پالیٹکس دونوں طبقوں کی مجبوری بن گئی ہے، طاقت پانے کیلئے اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے،آپ کو بہت سے معاملات میں کمپرو مائز کرنا پڑتا ہے، قوم پرست جماعتوں میں اپنے قومی کاز کے ساتھ پختہ نظریہ، مضبوط کممنٹمنٹ،ثابت قدمی جیسے دل لبا دینے والے نعرے لاف زنی کے سوا کچھ بھی نہیں،اپنے مشکوک کردار کو تہہ در تہہ چھپانے کی خاطر درجنوں درباری مزاج کے کارکن کافی ہوتے ہیں،یہ بھی کسی کو بتانے ضرورت نہیں رہی کہ آج کی سیاست میں کامیابی بمع اہل وعیال عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے،لگ ایسے رہا ہے کہ قوم پرستی کی سیاست کارپوریٹ جماعتوں سے کافی مرعوب ہوچکی ہے،گزشتہ دو عشروں کی نزدیکیوں نے اس رومانوی سوچ کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط و مستحکم بنا دیا ہے،کارکن کی کردار اور اپنے حق میں عوام کی زہن سازی کے بجائے الیکٹیبلز کو صف اول میں بٹھا نے کو سیاسی تدبر مانا جاتا ہے، جب یہی الیکٹیبلز بے قابو ہوکر جماعتوں کو اپنے ڈگر پرچلانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے پاس ڈھنگ کی وضاحت بھی نہیں رہ پاتی،ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ لیڈر شپ رائے عامہ کے ساتھ نہیں چلتی بلکہ رائے عامہ ہموار کرتی ہے لیکن ہماری سیاست اس سے مختلف ہے، ہم رائے عامہ دیکھ کر اسکے ساتھ چل دوڑتے ہیں نتیجے یہ نکلتاہے کہ بہت جلد ہمیں ادراک ہونے لگتا ہے کہ غلط ڈگر پر چل پڑے ہیں،اسکے باوجود ہم غلطی سدھارنے کے نام پر ایک اور ایسی ہی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی لالا عثمان جیسے کردار قوم پرست جماعتوں کی متزلزل رویوں و پالسیوں کو چیر کر سامنے آتے ہیں تو ہم جیسوں کی قوم پرست جماعتوں سے متعلق سوچ کو جھنجوڑ رکھ دیتے ہیں،سمجھ نہیں آتا ہم قوم پرست جماعتوں سے سرزد ہونے والے غلطیوں کے پوسٹر آویزاں کریں یا لالا عثمان جیسے کرداروں کی تعریف لکھنے بیٹھیں،جب تک قوم پرست جماعتیں اپنی سمت سیدھی نہیں کریں گے تب تک لالا عثمان جیسے کرداروں کی تعریف اور قوم پرست جماعتوں کی مجموعی رویوں کی برائیاں ساتھ ساتھ چلیں گی۔
لالا عثمان کی 30سالہ سیاسی زندگی خوبیوں و خامیوں کا مجموعہ رہی ہوگی،بطور انسان ان سے سیاسی غلطیاں بھی سرز ہوئی ہوں گی، کوئی بھی بشر غلطیوں و خامیوں سے مبرا نہیں ہوسکتا، لیکن بطور پشتون قوم پرست لیڈر ان کا کردار اپنے قوم کیلئے قابل ستائش رہاہے،لالا عثمان کا کراد کسی بھی پشتون قد آار شخصیات سے کم تصور نہیں کیا جاسکتا، لالا نے ثابت کردیا کہ گراس روٹ پر پھلنے والے کارکن کی آواز جب گھونجتی ہے تو دور تلک جاتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے، ممکن ہے ٹھیکدارانہ سیاست کی ہجوم میں لا تعداد عثمان کاکڑ موجود ہوں جن کی آاواز طوائف الملوکی میں کہیں دبی ہوئی ہو، کچھ تو سسک رہے بھی ہوں گے جس طرح سینٹ میں پہنچنے سے پہلے عثمان کاکڑ کی ہوا کرتی تھی،عثمان کاکڑ کی آاواز 30 سالہ سیاست میں آخری 6سالوں میں زیادہ گھونجتی ہوئی سنائی دی، ان 6سالوں میں عثمان کاکڑنے ثابت کر دیا ہمیں گونگے بہروں کی شہر میں گونگے بہرے عبدا لقادروں کی نہیں بلکہ عثمان کاکڑ کی طرح گرجدار انداز میں بولنے والوں کی ضرورت ہے،عثمان کاکڑ نے نہ صرف اپنے پشتو مائل انداز بیان سے پشتون کا دل لبا یا بلکہ لگت مال و پساہوا بلوچ، سندھی، پنجابی اور سرائیکی بھی ان سے متاثر ہوئے نہیں رہ سکے،عثمان کاکڑ کے زخمی ہونے کی خبر سن کر شروع میں اسکی حساسیت کا ادراک نہ ہوا، ہم سمجھے تھے کہ پسل کر گرنے کا کوئی معمولی واقعہ پیش آیا ہوگا،معمولی سے زخم ہوں گے یہ بہت جلد مندومل ہوں گے ایک بار پھر جیتا جھاگتا مسکرا تا سلام کیلئے ہاتھ ہلاتا ہوا عثمان لالا ہمیں جناح روڈ کے نکڑ پر ملیں گے،اپنے مخصوص انداز میں پیار بھرا صحافتی طنز بھی کریں گے،ہمیں اندازہ نہ ہوا کہ گہرے زخم عثمان لالا کی موت کا سانحہ بنیں گے،لالا کے موت کے سانحے نے مکران سے لیکر چمن، حب سے شیرانی تک ہر سیاسی کارکن کو غم زدہ کر دیا،ہم نے ایک میت کو حب سے پشین تک راج کرتے دیکھا، والہانہ محبت کے نظارے دیکھے،خلق خدا کہتی ہے کہ عثمان نے جاتے جاتے بلوچ و پشتون کو ایک لڑی
میں پرو دیا،دعا ہے کہ یہ لڑی غیر سنجیدہ سیاست کی بزلہ سخنی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی چھینا جھپٹی میں کبھی ٹوٹنے نہ پائے،عثمان کاکڑ نے مرنے کے بعد سیاسی سمت کا تعین کردیا،قوم پرست جماعتوں کو خاموش پیغام پہنچا دیا ہے،عزت اور محبت پانے کا طریقہ بھی بتا دیا، سیاست میں عزت و شہرت بندوق بردار نفریوں کی جھرمٹ میں نہیں،لگڑری گاڑیوں میں بیٹھ کر عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے میں نہیں،دہرا معیار اپنانے میں بھی نہیں،بلکہ عوام میں رہ کر عوام کی آواز بننے میں عزت و شہرت پانے کا گر چھپا ہے،سیاسی ورکر کو سمجھنا چاہئے کہ سیاستدانوں کے دربار میں بیٹھ کر قصیدہ پڑھنے سے عزتیں عطا نہیں ہوتیں،درباری کتنا ہی طوطی اللسان کیوں نہ ہو اسکی صلاحتیں بکی ہوئی ہوتی ہیں،بکا ہوا مال بازاری ہوتا ہے، عوام نے عثمان لالا کی میت کو جس ا نداز میں عزت و احترام بخشا تاریخ میں شاید ہی اسکی کوئی مثال موجود ہو، گزشہ ادوار میں بڑے سے بڑے جنازے ہوئے ہیں،جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ہے، تاریخ میں عالمی سیاہ فام لیڈر نیلسن منڈیلا کا جناز ا سب بڑا جنازا مانا جاتا ہے، اسکے علاوہ جنازوں میں جتنے بھی بڑے مجمعے ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر ایک سوچ ایک ہی نظریہ کے لوگوں نے شرکت کی ہے بہت کم ایسا ہوا کہ کسی جنازے میں مختلف الخیال عوام نے اتنی بڑی تعداد میں شرکت کی ہے،عثمان لالانے خطے کے اندر ایک نئی تاریخ اور ایک نئی مثال قائم کردی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں