چوہدری زرداری ملاقات۔حکومت کی فاقہ مستی

تحریر: انورساجدی
گزشتہ سال کی بات ہے کہ سی پی این ای کا وفد انگریزوں کی تعمیر کردہ پنجاب اسمبلی کی پرشکوہ عمارت میں چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کر رہا تھا پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ آج کل اسپیکر کے عہدے پر فائز ہیں جو ایک طرح سے ان کی تنزلی ہے انہیں اپنی وزارت اعلیٰ کے دن بری طرح سے یاد آتے ہیں وہ ڈپٹی وزیراعظم کا منصب بھی نہیں بھولے ہیں یہ عہدہ زبردستی تشکیل دیا گیا تھا کیونکہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن زرداری نے مصلحت سے کام لے کر پرویز الٰہی کو اس عہدے پر فائز کر دیا۔
اپنے گزشتہ ادوار کا ذکر کرتے کرتے وہ یہ بھول گئے کہ آج کل وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں زرداری کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور کہا کہ اتحادی ہو تو زرداری جیسا وعدے نبھانا کوئی ان سے سیکھے اتحادیوں کی عزت ان سے بڑھ کر کوئی کر نہیں سکتا تھا۔
جب وہ تعریفی جملے کہہ رہے تھے تو مجھے یاد آیا کہ 2007ء میں محترمہ کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا جو اجلاس نوڈیرو ہاؤس میں ہوا اس میں مصلحت سے بھرپور فیصلے کئے گئے آخر میں زرداری نے بہ بانگ دہل کہا کہ
تمام پارلیمانی جماعتوں سے اتحاد ہو سکتا ہے سوائے قاتل لیگ کے
یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ محترمہ نے جلاوطنی ختم کر کے واپس آنے سے پہلے یہ تحریر لکھ چھوڑی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار پرویز مشرف، وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور انٹیلی جنس باس بریگیڈیئر اعجاز شاہ ہونگے۔
محترمہ کے قتل کے بعد اعجاز شاہ نے ہی جائے حادثہ کو دھونے کا حکم صادر کیا تھا تاکہ شواہد مٹ جائیں چوہدری پرویز الٰہی سازش میں شریک تھے کہ نہیں بہر حال وہ پنجاب کے سربراہ تھے اور محترمہ کو سیکورٹی فراہم کرنا ان کی ذمہ داری تھی یہ ذمہ داری نہ جنرل پرویز مشرف نے پوری کی اور نہ ہی پرویز الٰہی نے اس کی ضرورت محسوس کی اس کے باوجود زرداری برسراقتدار آئے تو انہوں نے قاتل لیگ کو نہ صرف اپنی حکومت کا حصہ بنایا بلکہ پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی دیدیا۔
لاہور میں ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران پرویز الٰہی روانی میں زرداری کی تعریف میں مصروف تھے تو انہیں یاد دلایا گیا کہ آج کل زرداری اپوزیشن میں ہیں جبکہ ق لیگ عمران خان کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے اس پر چوہدری صاحب نے گلے شروع کر دیئے اور کہا کہ ہم سے کیا گیا کوئی وعدہ بھی پورا نہیں ہو رہا ہے حالانکہ ہمارے تعاون کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف حکومت بنانے کے قابل ہوئی۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ یہ اتحاد کب ختم کر رہے ہیں تو چوہدری صاحب نے کھسیانی ہو کر کہا کہ ہم نے جب بھی کسی سے اتحاد کیا وہ کبھی توڑا نہیں ہم اس حکومت کے ساتھ بھی آخر تک دیں گے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ذکر پر اگرچہ ان کی رال ٹپکنے لگی لیکن فرمانے لگے کہ ہم عثمان بزدار کو نکالنے کے مخالف ہیں کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر بزدار کو نکالا گیا تو وزارت اعلیٰ پر ہمارا حق ہے ورنہ کسی اور سے بزدار ہی ٹھیک ہے پرویز الٰہی جو کچھ کہہ رہے تھے ان کی زبان اور تھی باڈی لینگوئج اور البتہ انہوں نے کچھ مجبوریوں کا ذکر کیا لیکن ان کی تفصیل نہیں بتائی یعنی 2018ء کے انتخابات کے جو نتائج مرتب کئے گئے اس میں ہمارا کردار متعین کر دیا گیا تھا یعنی اس سے روگردانی ممکن نہیں ہے۔
پرویز الٰہی نے ٹھیک ایک سال بعد بحریہ ٹاؤن میں واقع آصف علی زرداری کے عظیم الشان محل میں جا کر ان سے ملاقات کی ہے۔
ان اوپر کے اشاروں پر چلنے والے سرتاپا مصلحتوں کے شکار پرویز الٰہی کی موجودہ سیاسی صورتحال میں آصف علی زرداری سے ملاقات ایک معنی خیز واقعہ ہے کوئی عام ملاقات نہیں ہے کیونکہ جب مولانا نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو بڑوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو بیچ میں ڈالا تھا جن کے کہنے پر مولانا نے دھرنا ختم کر دیا تھا کچھ عرصہ قبل جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل میر عبدالغفور لہڑی عرف حیدری نے یہ انکشاف کیا تھا کہ دھرنے کے دوران ان کی خفیہ ملاقات آرمی چیف سے ہوئی تھی ان کے بقول ان کی قیادت سے کہہ دیا گیا تھا کہ ہم لوگ ن لیگ کے ساتھ جو کچھ کرنے والے ہیں آپ لوگ بیچ میں نہ آئیں اس کے علاوہ یہ انکشاف بھی سامنے آیا تھا کہ جے یو آئی کی قیادت کو پرویز الٰہی نے بڑوں کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی کہ مارچ 2020ء میں عمران خان کی حکومت ختم کر دی جائے گی اور نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے گا جب پرویز الٰہی سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ راز ان کے پاس امانت ہے مناسب وقت پر وہ اس راز سے قوم کو آگاہ کریں گے لیکن شائد وہ مناسب وقت ابھی تک نہیں آیا۔
پرویز الٰہی اور زرداری کی ملاقات چونکہ خفیہ تھی اور وہاں پر کوئی موجود نہیں تھا حتیٰ کہ موبائل فون بھی موجود نہیں تھے اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ پرویز الٰہی کو قاصد کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا یعنی انہوں نے پیغام رسانی کا کام کیا یہ پیغام کیا تھا یہ دونوں کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے یا جس نے پیغام بھیجا تھا وہی اس بارے میں آگاہ ہے۔
لیکن رسمی جملوں کے بععد زرداری نے کہا ہوگا کیوں چوہدری صاحب جومیں نے آپ کو رجایا تھا وہ یاد ہے افسوس ہے کہ آج کل آپ کے موجودہ اتحادی آپ کی قدر نہیں کر رہے ہیں چلیں کوئی بات نہیں بہت جلد ہم دوبارہ یکجا ہونگے یہ بات آپ کی مرضی پر چھوڑتا ہوں کہ آپ پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا پسند کریں گے یا مرکز میں میرا وزیراعظم۔اس پیشکش کے بعد جو چوہدری پرویز الٰہی کاجو حال ہوا ہو گا بس وہ سمجھنے کی بات ہے۔
سیاسی بزر جمہروں کا کہنا ہے کہ جب زرداری نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ پنجاب میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو میاں صاحب نے انکار کر دیا تھا حالانکہ یہ وہی وقت تھا جب پرویز الٰہی اور جہانگیر ترین گروپ کا زرداری سے خفیہ رابطہ تھا اس وقت میاں صاہب اور مولانا بضد تھے کہ اجتماعی استعفے دیئے جائیں آج وقت نے زرداری کا موقف صحیح ثابت کر دیا ہے اگر استعفے دیئے جاتے تو تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتی اور وہ بحث کے بغیر آئین میں ترمیم کر سکتی تھی یا اسے بدل بھی سکتی تھی۔
بعض عناصر کا ایک الگ موقف ہے ان کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ن لیگ یہ پسند نہیں کرے گی کہ زرداری پنجاب میں اپنے امیدوار کھڑا کرے جس کی وجہ سے ایک کشیدگی پیدا ہو گی اس صورت میں ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حریف ہوگی لہذا دونوں جماعتوں کے مفاد میں ہو گا کہ وہ مل کر ن لیگ کا مقابلہ کریں کیونکہ اکیلے اکیلے ن لیگ کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس خیالی گھوڑے سے قطع نظر اس وقت ریاست ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے وزیراعظم کے انکار کے باوجود امریکی میڈیا اصرارکر رہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں حملوں کیلئے امریکہ کو سہولتیں دینے کی یقین دہانی کروا چکا ہے حکومت نے انخلاء کے بعد اڈے نہیں دیئے تو امریکہ سخت ناراض ہوگا جس کا نتیجہ وہی ہو گا جو سابقہ وزرائے اعظم بھگت چکے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کے جعلی اعلانات کے باوجود معیشت کا گھوڑا لکڑی کا ثابت ہو رہا ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے اگر جان ہوتی تو حکومت نواز شریف کے بنائے گئے اثاثوں یعنی اسلام آباد ایئر پورٹ، لاہور ایئر پورٹ، موٹروے اور یوسف رضا گیلانی کے تعمیر کردہ ملتان ایئر پورٹ کو گروی رکھنے کا فیصلہ نہ کرتی اگر یہ اثاثے گروی رکھ بھی دیئے جائیں تو اس سے 18کھرب روپے حاصل ہونگے اس سے معیشت نے کیا چلنا ہے حکومت کو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف قرضوں کی آئندہ قسط نہیں دے گا جس کی وجہ سے روز مرہ کے اخراجات چلانا مشکل ہے حکومتی اعلانات کے باوجود ”قرض کی مے“ بے دردی سے نوش کی جا رہی ہے یعنی حکومت نے اپنے اخراجات بے تحاشہ بڑھا لئے ہیں اس لئے اس کی یہ ”فاقہ مستی،، جلد رنگ لانے والی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں