کام کے مواقع ضائع نہ کئے جائیں

پاکستان کی معاشی حالت سب کے سامنے ہے۔بچہ بچہ جانتا ہے پاکستان بارہویں بار آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی گری ہوئی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے۔یہ بحث فضول اور وقت ضائع کرنا ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی؟اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالا کیسے جائے؟ جون کا مہینہ اسی سوچ بچار کا مہینہ ہے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت بجٹ پیش کر چکی ہے۔اب منظوری کا مرحلہ ہے۔حکومت سندھ نے آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کر لیا ہے۔اپوزیشن لیڈر کو شکایت ہے کہ انہیں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔بلوچستان میں اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے۔وزیر تعلیم یار محمد رند بجٹ میں اپنے حلقے میں مناسب فنڈز نہ ملنے کی بناء پر مستعفئی ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لسبیلہ کے لئے 12ارب روپے اور میرے حلقے کے لئے 2ارب روپے سے بھی کم مختص کئے گئے ہیں۔جن لوگوں کو چند روپے زیادہ ملے ہیں وہ تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ انہوں 18جون کے واقعے کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا اور کہا کہ حکومت مذاکرات کرتی تو حالات اس طرح خراب نہ ہوتے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے سردار رند کی ناراضگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ناراضگی سمجھ سے بالاتر ہے۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران مزید کہا:محکمہ اور قبائلی معاملات کبھی مداخلت نہیں کی۔اپوزیشن کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے جواب دیا: اپوزیشن کے خلاف ایف آئی آر قانون کے مطابق درج کرائی گئی ہے،تاہم معاملے کو حل کرنا ہے، واپس لینے کا اختیار اسمبلی کو دیتا ہوں۔فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے انہوں نے کہا بجٹ دستاویز دیکھ لی جائیں، ترقیاتی اسکیمیں اپوزیشن کے حلقوں کو بھی دی گئی ہیں۔اپوزیشن ثابت کرے ترقیاتی کام نہیں ہو رہا، استعفیٰ دے دوں گا، لیکن جھوٹ نہ بولا جائے، عوام کو گمراہ نہ کیا جائے۔میرانی ڈیم سے گوادرپائپ لائم منصوبے پر کام ہو رہا ہے، جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گا،اس سے پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ گوادر سے پسنی پانی کی پائپ لائن دو ماہ میں مکمل ہو جائے گی۔عثمان کاکڑ کی وفات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے اگر ان کے لواحقین کے پاس قتل کئے جانے کے ثبوت موجود ہیں، تو وہ دیں، کسی دباؤ میں آئے بغیر قاتلوں تک پہنچیں گے۔ انہوں نے میڈیا کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے، امن و امان برقرار رکھنے اور سرمایہ کاری کے مواقع کو اجاگر کرنے میں ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس موقع پر بعض سینیئر صاحافیوں کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے احکامات صادر کئے۔ بجٹ دستاویزات میں درج معلومات اگر اپوزیشن کی نظر میں درست نہیں تو اسے چاہیئے اس حکومتی دروغ بیانی کو عوام کے سامنے لائے،بصورت دیگر وزیر اعلیٰ کا دعوی درست سمجھا جائے گا۔ کرونا جیسی عالمی وبا نے بھی عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں، پاکستان دینا کا حصہ ہے، لازماًمتأثر ہوا ہے،ان مشکل حالات کا ادراک سب کو ہونا چاہیئے۔سب مل کراپنے صوبے اور ملک کو معاشی مشکلات سے نجات دلائیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ مستقبل میں فنڈز استعمال ہوتے ہوئے دکھائی دیں۔بلوچستان کی دوپسماندہ یوسیز جیسا حشر نہ ہو۔234کروڑ روپے میں سے 225 کروڑ روپے،صوبائی سیکرٹری خزانہ اورصوبائی وزیر خزانہ اپنی نجی جائیدادیں خریدنے پر خرچ نہ کر سکیں۔یاد رہے بلوچستان کی پسماندگی میں ایسے لالچی سرکاری افسر اورخودغرض وزراء بھی ذمہ دار ہیں۔ فنڈز میں خورد برد کے حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران بتا یاہے کہ حکومت اور اسپارکو کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیاہے آئندہ سیٹلائٹ سے یہ بھی معلو م ہوجائے گا ترقیاتی کام کی رفتاراور کوالٹی کیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے توجرائم کی بیخ کنی میں مدد مل سکتی ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے مدد نہ لی جاتی تو لاہور دھماکے کے تمام کردار اتنی جلدی گرفتار نہ کئے جاتے،نہ ہی سفید ریش مفتی عزیز الرحمٰن اپنے دوبیٹوں سمیت پولیس کی تحویل میں ہوتے۔ موٹر وے زیادتی کیس کے مجرم کیفر کردار کو نہ پہنچتے۔جدید ٹیکنالوجی کا کرشمہ یہ ہے مجرم گرفتار ہوتے ہی نہ صرف اقرارجرم کرلیتے ہیں بلکہ اپنے معاونین کے نام پتے بھی اگل دیتے ہیں۔لیکن چوری کایہ شرمناک سلسلہ روکنے کے لئے بلوچ عوام کوبھی پوری طرح چوکنا رہنا ہوگا۔تنہا جدید ٹیکنالوجی چوری کی روک تھام نہیں کر سکتی۔تمام آئینی اداروں (پولیس، کسٹم، ایف آئی اے، ایف بی آر،اور عدلیہ کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔میڈیا اپنی بساط سے بڑھ کر اپنا کام کر رہا ہے۔معاشرہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ جرم کے شواہد مٹانے کے اکثر اوقات مجرم صحافیوں کو قتل کر چکے ہیں۔یہ وسائل کسی سرکاری افسر یا محکمے کے وزیر کی ملکیت نہیں، عوام کی امانت ہیں۔ کسی کو خیانت کی اجازت نہ دی جائے، ماضی کی طرح اپنی آنکھیں بند نہ کی جائیں۔یہ نہ بھولیں کہ ہمارے ایئر پورٹس اور موٹر ویز بھی قرضوں کے عوض رہن رکھے جارہے ہیں، وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے تازہ ترین منظوری دی ہے۔ ماضی کو چوروں اور بدکرداروں نے عوام کو اس حالت تک پہنچایا ہے، حال کے چوروں کو چھوٹ دی گئی تو آئندہ نسلیں بھی غذا، تعلیم، دوا، رہائش اور روزگار کو ترسیں گی۔دنیا نے جہا ں جہاں چوری روکی ہے،وہاں خوش حالی دیکھی جا رہی ہے۔چین میں 400سے زیادہ بااثر مالیاتی مجرموں کو فائرنف اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی مار دی،تب وہ سی پیک بنا رہا ہے،لداخ واپس لے لیا ہے،بھارت کی سات ریاستوں کی زمینیں آباد کرنے والے دریا”برہما پترا“ پر ایک بہت بڑا ڈیم اور بجلی گھر بنا رہا ہے۔ اس کی تعمیر کے بعد پانی کا رخ موڑدے گاتاکہ اپنے عوام کو بجلی اور پانی فراہم کرے۔یہ بھارتی سیاست دانوں کا مسئلہ ہے، وہ حل کر سکے تو کرلیں گے،ورنہ قحط سالی ان کا مقدر بنے گی۔یہ خوفناک عالمی منظر متقاضی ہے کہ بلوچستان کے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے کا گریبان چھوڑیں، مل کر بیٹھیں مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کریں،ہڑتالیں، احتجاج، جوشیلی نعرے بازی بھوکے عوام کی بھوک نہیں مٹا سکتی۔یہ انداز سیاست ترک کیا جائے۔کئی قیمتی دہائیاں اس نقصان دہ رویئے کی نذر ہوگئیں،اب ہوش و خرد سے کام لیا جائے۔عوام کو روٹی،پانی سے محروم رکھنے کانام سیاست نہیں، کام کیا جائے، کام کے مواقع پیدا کئے جائیں، دستیاب مواقع ضائع نہ کئے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں